گناہ گاروں کا انجام :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
آخر گار حضرت لوط علیہ السلام کی دعا مستجاب ہوئی اور خداکی طرف سے اس قوم تباہ کار کے خلاف سخت سزا کاحکم صادر ہوا . وہ فرشتے جوعذاب نازل کرنے پر مامور تھے قبل اسکے کہ سرزمین لوط پر اپنافرض ادا کرنے کے لیے جاتے . حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ایک اور پیغام لے کر گئے اور وہ پیغام تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند کی پیدا ئش کی خوشخبری . زیرنظر آیات میں اول فرشتوں کی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات کاذکر ہے .چنانچہ کہاگہا ہے : جس وقت ہمارلے ایلچی حضرت ابراہیم کے پاس بشارت لے کر گئے ( انھیں اسحاق اوریعقوب کے پیدا نے کی خوش خبری سنائی ) اور پھر ( قوم لوط کی بستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کہاکہ ہم ا س شہر اوراس میں رہنے والوں کو ہلاک کردیں گے . کیونکہ یہ لوگ ظالم ہیں : (ولما جائت رسلنا ابراہیم بالبشری قالو انا مھلکواھل ھذہ القریة ان اھلھا کانو اظالمین ) ۔
چونکہ فرشتوں نے ”ھذہ القریة “ کہا . اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم لوط کی آبادی اس مقام کے قرب وجوار ہی میں تھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام رہتے تھے ۔
اوراس قوم کو لفظ ” ظالم “ سے یاد کرنا اس وجہ سے تھاکہ وہ اپنے نفوس پرظلم کرتے تھے کیونکہ انھوں نے شرک ، فساد اخلاق اور بے عفتی کی راہ اختیار کی تھی . نیز یہ کہ وہ دوسروں پر بھی ظلم کرتے تھے . یہاں تک کہ اس طرف سے گزرنے والے مسافر وں اورقافلوں پربھی ستم کرتے تھے ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ بات سنی تو انھیں حضرت لوط پیمبرخدا کی فکر ہوئی او ر کہا : ا س آبادی میں تولوط بھی : (قال ان فیھالوطا ) . اس پر کیا گزر ے گی ؟
مگرفرشتوں نے فوراجواب دیا : آپ فکر نہ کریں ہم ان سب لوگوں سے خوب واقف ہیں جواس بستی میں ر ہتے ہیں : (قالوا نحن اعلم بمن فیھا ) ۔
ہم اندھا دھند عذاب نازل نہیں کریں گے . ہماراپروگرام نہایت سنجیدہ اوربپا تلاہے ۔
فرشتوں نے یہ بھی کہاکہ ہم لوط اور اس کے خاندان کونجات دیں گے . بجز اس کی بیوی کے کہ جواس قوم کے ساتھ ہی مبتلا ئے عذاب ہوگی : ( لننجینہ واھلہ الا امر اتہ کانت من الغابرین ) ۔
اس آیت سے بخوبی ثابت ہوتاہے کہ اس علاقے کی تمام آبادیوں اوربستیوں میںصرف ایک ہی خاندان مومن اورپاک نفس تھا اور خدا نے بھی اسے عذاب سے نجات دی .جیساکہ سورہ ذاریات کی آیت ۳۶ میں مذکور ہے ۔
فما وجدنا فیھا غیر بیت من المسلمین
ہم نے وہاں ایک خاندان کے سواکوئی بھی مسلمان نہ پایا ۔
یہاں تک کہ حضر ت لوط علیہ السلام کی زوجہ بھی مومنین کی صف سے خارج تھی اس لیے وہ بھی عذاب میں محشور ہوئی ۔
کلمہ” غابرین “ ”غابر“ کی جمع ہے .اس کے وضعی معنی یہ ہیں کہ راہ سفر میں کسی کے رفقا ئے کار سفر تو آگے نکل جائیں اوروہ پیچھے رہ جائے ۔
وہ عورت جوخانوادہٴ بنوت میں شامل تھی اسے تو ” مئو منین اور مسلمین“ سے جدا نہیں ہوناچاہیئے تھا . مگر وہ اپنے کفرو شرک اوبت پرستی کی وجہ سے ا س صنف سے جداہوگئی ۔
اس طرز کلام سے واضح ہوتاہے کہ وہ عورت منحرف العقیدہ تھی . کچھ بعید نہیں کہ اس میں بد عقید گی اس مشرک معاشرے کے اثر سے پیدا ہوگئی ہو او ر ابتداء میں مومن وموحد ہو .ا س میں حضرت لوط علیہ السلام پر یہ اعتراض نہیں ہوتا کہ انھوں نے ایسی مشرکہ سے نکاح ہی کیوں کیاتھا ؟
یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ اگرکچھ اورلوگ حضر ت لوط علیہ السلام پر ایمان لائے ہوںگے تووہ حتما نزول عذاب سے پہلے اس گناہ آلود زمین سے ہجرت کرگئے ہوں گے . تنہا حضرت لوط علیہ السلام اوران کے عیال اس مقام پر ا س توقع سے اخیر وقت تک ٹھہر ے ہوں گے کہ ممکن ہے ان کی تبلیغ اورڈر انے کالوگوں پر اثر ہو ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے تو سب کچھ تھے مگرانھوں نے .صرفاپنے اطمینان قلب کے لیے یہ سوال کیاتھا . چنانچہ اسی پیغمبر بزرگ کا ایک ایسا ہی اور واقعہ مسئلہ معاد کے متعلق ہے .جب کہ خدانے پرندوں کوزندہ کرکے معاد کامنظر ان کے سامنے پیش کردیا تھا ۔
لیکن مفسر بزرگ علامہ طباطبائی کاخیال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کامقصد یہ تھاکہ کہہ کر کہ ” لوط بھی ان میں ہے “ لوط کے وجود کواس قوم سے رفع عذاب کی دلیل قراردیں .نیز سورہ ہود کی آیت ۷۴ .۷۶ سے بھی اس مطلب کی تائید ہوتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام چاہتے تھے کہ ا سقوم کی سز ا میں تاخیر ہوجائے توممکن ہے کہ ان کے قلوب نور ہدایت سے منور ہو جائیں .لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ جوب ملا کہ آپ اس امر میں اصرار نہ کیجئے .ان کی حالت اس لیت ولعل سے گزر چکی ہے اور ان کی سز ا کاقطعی وقت آگیا ہے (۱) ۔
لیکن ہمارانظر یہ یہ ہے کہ اس مقام پرفرشتوں نے حضرت لوط علیہ السلام اوران کے خاندان کی نجات کے متعلق جو جواب دیا ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان آیات کاموضوع سخن صرف حضرت لوط علیہ السلام کی ذات ہی تھی لیکن رہیں س ورہٴ ہود کی آیات تو ان کامطلب کچھ اور ہی ہے جیساکہ ہم نے کہاحضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال محض اپنے مزید اطیمنان کے لیے کیاتھا ۔
یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرشتوں کی گفتگوختم ہوگئی .اور وہ حضرت لوط علیہ السلام کے علاقے کی طرفروانہ ہوگئے ۔
قرآن میں مذکورہے کہ جس وقت ہمار ے فرشتے لوط کے پاس آئے تووہ انھیں دیکھ کر غمگین اور پریشان ہوگیا: ( ولما ان جاء ت رسلنا لوطاسی ء بھم وضاق بھم ذرعا ) ۔
حضرت لوط علیہ السلام کا یہ اضطراب اس وجہ سے تھاکہ وہ انھیں پیچانتے نہ تھے . وہ فرشتے خوبصور ت جوانی کی صورت میں آئے تھے اور ایسے آلودہ معاشرہ میں ایسے مہمانوں کا آنا ممکن تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام کے لیے پریشانی اور ان مہمانوں کے سامنے ہم بے آبروئی کاباعث ہوتا .لہذا آپ کوسخت فکردامن گیر ہوئی کہ دیکھئے اس گم راہ ،بے حیااوربے شرم قوم کاان مہانوں کادیکھ کر کیارد عمل ہوتا ہے ؟
کلمہ” سی ء “ کامادہ ”ساء “ ہے بہ معنی بدحال ہون اور” ذرع “ کے معنی دل یا خلق کے ہیں . اس لیے ” ضاق بھم ذرعا “ کے معنی ہوں گے کہ حضرت لوط علیہ السلام پریشان اور بے چین ہوگئے ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ کلمہ ” ضادق “ کے معنی ہیں:”راستہ طے کرتے وقت اونٹ کے دوقدموں کافاصلہ “ او رجس وقت اس کی پشت پر بھاری بوجھ لدا ہوتا ہے تواونٹ کے قدموں کافاصلہ تنگ تراورکم تر ہو جاتا ہے . لہذا ”ضاق ذرعا “ کسی سنگین اور طاقت فرساوا قعے کے لیے بطور کنایہ استعمال ہوتا ہے . مگران مہمانوں نے جب حضرت لوط علیہ السلام کے اضطراب کو دیکھا توفورا اپنا تعارف کروایا اوران کی پریشانی کو ختم کردیا ۔
انھوں نے کہاکہ آپ نہ تو خوف زدہ ہوں اور نہ غم کریں .یہ بے شرم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے . بہت ہی جلد یہ سب کے سب نابود ہوجائیں گے . ہم آپ کو اور آپ کے خاندان کوبچالیں گے . سوائے آپ کی بیوی کے کہ وہ ان گناہ گاروں کے درمیان رہے گی اورابلاک ہوجائے گی : ( وقالوا لاتخف ولا تحزانا منجوک واھلک امراتک کانت من الغابرین ) ۔
البتہ سورہ ٴ ہود کی آیات سے خوب معلوم ہوتاہے کہ جب اس بے شرم قوم کوحضرت لوط علیہ السلام کے مہمانوں کاعلم ہوا تو بہت جلد ان کے پاس آئے .ان کاارادہ تھا کہ وہ ان مہمانوں پردست درازی کریں .حضرت لوط علیہ السلام ۰ جنھوں نے ابھی فرشتون کو پہچانانہ تھا ) یہ حال دیکھ کربہت پریشان ہوئے انھوں نے ان بے شرموں کوکبھی توبذریعہ نصیحت ، کبھی دھمکی کے ذریعہ اورکبھی ان کے ضمیر کواپیل کرتے ہوئے کہاکہ کیاتم میں ایک آدمی بھی راست باز نہیں ہے ؟ اور کبھی ان کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ میں تمہارے ساتھ اپنی دختر کانکاح کردوں گا ، انھیں برے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی .مگروہ بے شرم کس طرح باز نہ آئے .ان کے پیش نظر توصرف ان کا بے شرمانہ مقصد تھا ۔
لیکن پروردگار کے ایلچیوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے اپناتعارف کروایا اوربطریق اعجاز ان ہجوم آور لوگوں کو اندھا کردای. اس طرح اس عظم نبی علیہ السلام کادل مطمئن کردیا (۲) ۔
یہ امرقابل توجہ ہے کہ ان فرستادگان پروردگار نے حضرت لوط علیہ السلام سے دولفظ کہے ، ایک تو” نہ ڈرو “ دوسرے ” غمگین نہ ہو “ دیکھنا یہ ہے کہ ان دو کلمات ” خوف اور حزن “ میں کیافرق ہے . تفسیرالمیزان میں لکھا ہے کہ :
” خوف “ اس حادثے کا ہوتا ہے جس کے پیش آنے کااحتمال ہواور ” حزن “ اس حادثے کالازمی ہو نے کا ہوتا ہے ۔
بعض اہل لغت نے خوف اورغم میں یہ فرق کیا ہے کہ ” خوف “ کاتعلق آئندہ ہونے والے حادثے سے ہے اورغم کاتعلق ایسے حادثے سے ہے جوگزرچکا ہو . اور ان دونوں کلمات کے مفہوم میں یہ احتمال بھی ہے کہ ” خوف “ خطرناک باتوں کاہوتا ہے اور ”غم “ درد ناک واقعات کاخواہ ان میں کوئی خطرہ نہ ہو .اس مقام پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سورہٴ ہود کی آیات کاتاثر یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی پریشانی اپنی ذات کے لیے نہ تھی بلکہ اس لیے تھی کہ یہ بد کردار لوگ مہمانوں پردست درازی کریں گے . لیکن فرشتوں نے جوجوب دیا وہ حضرت لوط علیہ السلام اور ان کے خاندان سے متعلق تھا . او ر ان دونوں باتوں میں ہم آہنگی نہیں ہے ۔
اس سوال کا جواب سورہ ہود کی آیت ۸۱ سے مل سکتاہے . کیونکہ ہم توہم ہیں یہ تو تجھے بھی کچھ آزار نہیں پہنچا سکتے .اس بناء پرفرشتوں نے اپنے تحفظ کوتومسلم قرار دیا . اورحق یہ ہے کہ ان کاتحفظ مسلم بھی تھا .اورانھوں نے بشارت نجات کوحضرت لوط علیہ السلام اوران کے خاندان تک محدود کردیا ۔
اس کے بعد ان فرشتوں نے اس وجہ سے کہ اس بے شرم قوم کے متعلق ان پر جوفرض عاید کیاگیا تھا اس کی وضاحت کریں ، یہ اضافہ کیا :چونکہ یہ قوم نہایت فاسق اورگناہ گار ہے اس وجہ سے ہم اس بستی اوراس کے باسیوں پراس مقام پر ” قریة “ سے مراد وہی شہر سدوم اورا آسمان سے عذاب نازل کریں گے : ( انا منزلون علی اھل ھذہ القریة رجزامن ا لسماء بما کانوا یفسقون ) ۔
س کے اطراف وجوانب کے شہر اور آبادیاں ہیں جن میں قوم لوط آباد تھی بعض لوگوں نے ان کی مردم شماری ستر لاکھ لکھی ہے (۳) ۔
کلمہ ” رجز “ سے ”عذاب “ مرا د ہے ”رجز “ کے حقیقی معنی اضطراب کے ہیں .مجازا ہروہ امر جو موجب اضطراب ہواسے رجز کہتے لگے . عربوں نے اس کلمہ کے معنی کووسیع کرلیا او رسخت بلاؤں ،طاعون ،برف اور ژالہ باری ،شیطان وساوس او رعذاب الہی کے معنی میں بولنے لگے ۔
جملہ ” بما کانوا یفسقون “ سے ان پردرد ناک عذاب نازل ہونے کی یہ علت واضح ہوتی ہے کہ وہ فسق اور خدا کی نافرمانی میں مبتلا تھے . اورفعل ” یفسقون “ جوکہ فعل مضارع ہے وہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اس گناہ میں مسلسل اوردائمی طور پر مبتلا تھے . اس اندازکلام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے . کہ اگروہ اس گناہ کے مسلسل ارتکاب سے باز آجاتے اور حق پرستی ،تقویٰ اورپاکیز گی کی راہ اختیار کرلیتے تواللہ نے ان کے گزشتہ گناہوں کومعاف کردیتا اورا نپر یہ عذاب نازل نہ ہوتا ۔
اس مقام پرقرآن شریف میں اس دردناک عذاب کونوعیت کاجوا س قوم پر نازل ہوا تفصیلی ذکر نہیں ہے . صرف اتنا ہی فرمایا گیا ہے کہ :
ہم نے ان آبادی یوں کے ( ویرانوں ، کھنڈرات اور آثار بلادید ہ ) کوان لوگوں کے لیے جو عقل وفہم سے کام لیتے ہیں باقی رکھا ہے :
(ولقد ترکنا منھا ایة بینة القوم یعقلون ) ۔
لیکن سورہہود کی آیت ۲۸ اورسورہ اعراف کی آیت ۸۴ میں ان پر نازل شدہ عذاب کی تشریح کی گئی ہے کہ اول تو شدید زلزلے نے ان کے شہر وں کو کلیتہ زیر وزبرکردیا . اس کے بعد ا ن پر اسمان سے پتھر برسے ، اتنی کثیر مقدا ر میں کہ ان کے بدن اوردیر ان شدہ مکانات محلات ان کے نیچے دفن ہوگئے ۔
کلمہ ”ایةبینة“ (روشن نشانی ) سے اشارہ ہے شہر سدوم کے باقی ماندہ کھنڈرات کی طرف جو آیات قرآنی کے مطابق حجاز ی قافلوں کی راہ آمد ورفت میں واقع اور یہ آثار ظہور پیغمبراسلام اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وقت تک باقی تھے . چنانچہ سورہ ٴ حجر کی آیت ۷۶ میں مذکوز ہے :
وانھا لبسبیل مقیم
اس کے آثار اہل قافلہ کی راہ کے کنار موجودہیں ۔
اور اس سورہ ٴ صافات کی آیت ۱۳۷ ، ۱۳۸ میں یوں آیاہے ۔
وانکم لتمرون علیھم مصبحین و باللیل افلا تعقلون
تم صبح وشام ان مقامات کے قریب سے گزرتے ہو کیا تم غور نہیں کرتے ۔
۱۔ المیزان ،جلد ۱۶ ،صفحہ ۱۲۹ ۔
۲ ۔ اس واقعے کی تفصیل جلد ۹ میں س ورہ ہود کی آیات ۷۷ تا۸۱ کے ذیل میں بیان ہوچکی ہے ۔
۳۔ روح البیان ،جلد ۶ ، صفحہ ۴۶۷۔

12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma