سرگزشت نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

گزشتہ آیات دمیں انسانوں کی عمومی آزمائش کاذکر تھا . یہاں سے اوراس کے بعد ابنیاء اور گزشتہ اقوام کی آزمائشوں کاذکر ہے کہ وہ انبیاء اوران کے ساتھی کس طرح دشمنوں کے نرغے میں آزار و زحمات سے دوچار رہے ، انھوں نے کس طرح صبرکیا اور پھر آخر کار انھیں حالات پرفتح نصیب ہوئی۔
یہ اذ کار اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دلجوئی کے لیے ہیں ، جوان ایام میں مکّہ میں طاقتور دشمنوں کے نرغے میںگھر ے ہوئے تھے . نیز یہ دشمنوں کے لیے تہدید بھی ہے کہ وہ جان لیں کہ ان کاانجام بڑا درد ناک ہوگا۔
یہاں سب سے پہلے ایک اولو االعزم پیغمبر حضر ت نوح کاذکر شروع ہوتاہے . مختصر الفاظ میں ان کی زندگی کا اتناحصّہ بیان کیاگیاہے جواس وقت مسلمانوں کی وضع ِ زندگانی کے لیے مناسب تر تھا ۔
خدا دفرماتاہے : ہم نے نوح کواس قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان پچاس سال کم ایک ہزار سال تک رہا : ( ولقد ار سلنا نو حاالی قومہ فلبث فیھم الف سنہ الا خمسین عا ما ) ۔
حضرت نوح علیہ السلام شب وروز تبلیغ کرنے اورتوحید کی طرف دعوت دینے میں مشغول رہتے تھے . خواہ خلوت وتنہائی ہو یاآ پ لوگوں کے مجمع میں ہوں . بہر کیف آپ پر موقع سے فائدہ اٹھا کراپنی قوم کو نوسو پچاس سال کی طویل مدت تک خداکی طرف بلاتے رہے . .آپ اس خستہ کن کوشش سے نہ تو تھکتے اور نہ اپنی طبیعت میں کی ضعف کو پید اہونے دیا .اورنہ ؛لیکن اس محنت کے باوجود ایک قلیل تعداد ( تاریخ کے مطابق اسی افراد ) کے سوا کوئی آپ کی تعلیم پر ایمان نہ لایا .” ضمنا “جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ آگاہ کیاگیاہے کہ :تمان مشرکین کو بجانب حق دعوت دیتے رہو اوران کی سرکشی سے دل شکستہ نہ ہو . کیونکہ تمہارے سامنے جو مہم درپیش ہے وہ حضرت نوح علیہ السلام کی دشواریوں س ے آسان تر ہے ۔
مگر دیکھو کہ اس ستمگر اور جھگڑالوقوم( یعنی قوم نوح علیہ السلام ) کاانجام کیاہوا . آخر اکار انھیں ایک عظیم طوفان نے گھیر لیااس لیے کہ وہ ظالم اور ستمگر تھے : ( فاخذ ھم الطوفان وھم ظالمون ) ۔
اس طور سے ان کی شرمناک زندگیوں کاطومار لپیٹا گیا . ان کے محلات اورحویلیاں اوران کے بے جان جسم سب کے سب امواج طوفان میں دفن ہوگئے ۔
آیت میں جناب نوح علیہ السلام کی مدت تبلیغ کو ان الفاظ میں بیان کیاگہاہے : ”ہزار سال مگر پچاس سال کم ، حالا نکہ ممکن تھا کہ خدا نوسو پچاس سال کہدیتا ۔
یہ اسلوب بیان طو ل زمان کی اہمیت کے اظہار کے لیے ہے ،کیونکہ ایک ہزار کا عدد اورپھر وہ بھی ”ہزار سال “ کی صورت میں ،تبلیغ کے لیے بہت بڑا عرصہ ہے ۔
آیت فوق کے ظاہر ی معنی سے یہ متر شح ہوتاہے . کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کل عمر اتنی ہی نہ تھی . جب کہ موجودہ تورات میں حضرت نوح علیہ السلام کی کل عمر اتنی ہی لکھی ہے . ( توریت سفر تکوین فصل نہم) ۔
لیکن یہ بات درست نہیں بلکہ نوسو پچاس سال کاعرصہ ماقبل طوفان تبلیغ کا ہے .آپ طوفان کے بعد بھی طویل مدّت تک زندہ رہے . بعض مفسرین نے تین سو سال لکھے ہیں ۔
اگرہم اپنے زمانے کی عمر وں کے معیار سے دیکھیں توحضرت نوح علیہ السلام کی اتنی طولانی بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے اور ہر گز عمرطبیعی معلوم نہیں ہوتی . ممکن ہے اس زمانے میں لوگوں کی عمر یں اس زمانے کی عمروں سے مختلف ہوتی ہوں.بعض اسناد سے جو معلومات حاصل ہو ئی ہیں ان سے معلوم ہوتاہے کہ قوم نوح علیہ السلام کی عمر طولانی ہوتی تھیں . ان میں سے حضرت نوح علیہ السلام کی عمر غیر معمولی تھی . یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ انسان کے جسم کی بناوٹ میں بھی طول عمر کاامکان ہو سکتاہے ۔
ا س زمانے میں حکماء نے جوتحقیقات کی ہیں ان سے ثابت ہوتاہے کہ انسان کی حد عمر معین نہیں ہے اور جن لوگوں نے انسان کی عمر طبیعی ایک سو بیس سال یااس سے کسی قدر کم یازیادہ سمجھی ہے ان کاخیال بے اساس ہے . بلکہ عین ممکن ہے کہ شرائط بقائے حیات کے ساتھ یہ قیاس بد ل جائے ۔
ہمارے اس زمانے میں سائنسدن تجر بات کے وسیلہ سے اس قابل ہو گئے ہیں کہ وہ بعض نباتات یادیگر زندہ موجودات کی عمر کو ان کی معمول کی مدّت حیات سے بار ہ گنازیادہ کردیں . بلکہ بعض اوقات تو( اگر آپ تعجب نہ کریں ) ۹۰۰سو گناتک مدّت حیات کوطویل کردیاگیا ہے . اگر یہ تجر بات کامیاب ہوتے رہے تووہ انسان کی مدّت حیات کوبھی طول دینے میں کامیاب ہوجائیں گے (۱)۔
اور ممکن یہ ہو جائے گا کہ انسان ہزار وں سال تک زندہ رہ سکے ۔
ضمنا یہ بھی ملحوظ رہے کہ کلمہ”طوفان “ کامادہ ”طواف “ہے . اس کے حقیقی معنی ہراس حادثے کے ہیں جوانسان کوگھیر ے . مجاز ا اس کلمہ کا اطلاق اس کثیرپانی یاسیل شدید پر ہونے لگا جو رو ئے زمین پر پھیل کراسے نگل لے . اس کا اطلاق ہوا ، آگ او ر پانی سب پر ہو سکتا ہے . یہ کلمہ کبھی شدید تاریکی شب کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے (۲) ۔
اس امر بھی قابل غور ہے کہ قوم نوح کو ” وھم طالمون“کہاگیاہے .مراد یہ ہے کہ قوع طوفان کے وقت بھی وہ لوگ اسی طرح ظلم و ستم کے مرتکب ہو رہے تھے .ان کلمات کااشارہ اس طرف بھی ہے .کہ اگر وہ اناعمال سے باز آجاتے اور خداکی طرف رجوع کرتے توہرگز اس عذاب میں مبتلانہ ہوتے ۔
اس کے بعد یہ اضافہ کیاگیاہے . کہ ہم نے نوح اوراصحاب کشتی کونجات دی او ر اسے اہلددنیا کے لیے ایک نشانی قرار دیا :
( فانجیناہ واصحاب السفینةو جعلنا ھا ا یة للعالمین (۳) ۔
حضر نو ح علیہ السلام اوران کی قوم کے واقعے کے ذکر کے بعد دوسرے اولواالعزم پیغمبرحضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات کاتذکرہ ہے
: ” ہم نے ابرا ہیم علیہ السلام کو بھیجا . اور جب اس نے اپنی قوم سے کہا کہ : خدا ئے واحد کی پرستش کرو اوراس کے لیے تقوی اختیار کرو کیونکہ اگر تم جانو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے : ( وابراھیم اذ قال لقومہ اعبد واللہ واتقوہ ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون ) (۴)۔
اس کے بعد حضر ابراہیم علیہ السلام دلائل سے بت پرستی کاباطل ہونا ثابت کرتے ہیں . آپ نے اس دعوی کو مختلف دلائل سے ثابت کیاہے اوران سے مشرکین کے معتقدات اور روش حیات کو نا درست ثابت کیاہے ۔
پہلی بات انھوں نے یہ فرمائی کہ : تم خداسے منحرف ہو کے بتوں کی عبادت کرتے ہو : ( انما تعبدون من دون اللہ اوثانا ) ۔
حالانکہ یہ بت بے روح مجسمے ہیں . نہ یہ صاحب ارادہ ہیں ، نہ صاحب عقل اورنہ صاحب شعور ہے . وہ ان تمام اوصاف سے محروم ہیں . ان کی ہیٴت ہی بت پرستی کے عقیدے کوباطل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔
توجہ رہے کہ ” اوثان “جمع ہے وثن کی (بروزن صنم ) وہ پتھر جنہیں بصورت انسان تراش کران کی عبادت کی جاتی تھی ۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آگے پڑھتے ہیں اور فرناتے ہیں کہ :صرف ان بتوں کی وضع ہی یہ ثابت نہیں کرتی کہ یہ معبود نہیںہیں. بلکہ تم بھی جانتے ہو کہ ” تم دورغ بافی کرتے ہو اور ان بتوں کو معبود کہتے ہو “ ( و تخلقو ن وافکا ) ۔
تمہارے پاس اس جھوٹ کوثابت کرنے کی بجز چند ا و ہام خرافات کے اور کیادلیل ہے ۔
چونکہ ” تخلقون “ کامادہ خلق ہے . یہ کلمہ کبھی پیداکرنے یا بنانے کے معنی دیتاہے اور کبھی بہ معنی جھوٹ بولنا ، اس لیے بعض مفسرین نے اس جملے کی اس کے علاوہ بھی تفسیر کی ہے جو ہم نے سطور بالامیں تحریر کی ۔
انھوں نے کہاہے کہ تخلقون سے مراد یہ ہے کہ تم ان مصنوعی معبودوں کو اپنے ہاتھ تراشتے ہو اورخلق کرتے ہو . اس لحاظ سے کلمہ ” افک “کے معنی ”غیر حقیقی معبود “ ہوئے اور ”خلق “ بمعنی ” تراشیدن “ (۵) تراشنا ۔
اس کے بعد حضرابراہیم علیہ السلام تیسرے دلیل دیتے ہیں کہ اگر تم خداکے ان بتوں کومادی منفعت کے لیے پوجتے ہو یا دوسرے جہان میںفاید ے کے لیے ،دونوں صورتوں میں تمہارا یہ خیال باطل ہے کیونکہ تم خداکے علاوہ جن کی پرستش کرتے ہو وہ تمہیں ر زق اور روزی نہیں دے سکتے : ( ان الذین تعبدون من دونواللہ لا یملکون لکم رزقا ) ۔
تم خود اقرار کرتے ہو کہ یہ بت خالق نہیںہیں بلکہ خالق حقیقی خداہے .اس بناء پر روزی دینے ولابھی وہی ہے . لہذا تم روزی خداسے طلب کرو : (فابتغوا عنداللہ الرزق ) ۔
او رچونکہ روزی دینے والاوہی ہے .لہذا اسی کی عبادت کرو اور اس کاشکر بجالاؤ :( واعبدوہ واشکروالہ ) ۔
اس ،فہوم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ منعم حقیقی کے حضور میں ” حسّ شکرگزار ی “ سے بھی عبادت کی تحریک ہوتی ہے ۔
تم جانتے ہو کہ منعم حقیقی خدا ہی ہے . پس شکر اورعبادت بھی اسی کی ذات کے لیے مخصوص ہے ۔
نیز اگرتم سرائے آخرت کی زندگی کے خواستگار ہو توسمجھ لوکہ ہم سب کی باز گشت اسی طرف ہے نہ کہ بتوں کی طرف ( الیہ ترجعون ) ۔
یہ بت نہ یہاں کچھ کام آسکتے ہیں نہ وہاں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس طرح چند واضح دلائل سے مشرکین کے بے بنیاد عقائد کورد کردیا ۔
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام تہدید کے طور پراور مشرکین کی سرکشی سے بے اعتنائی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر تم میرے پیام کی تکذیب کرتے ہو تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے . تم سے پہلے جو امتیں گزرچکی ہیں انھوں نے بھی اسی طرح اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی ہے . اور آخرکار ان کاانجام بڑا اوردرد ناک ہوا ( وان تکذ بوا فقد کذب امم من قبلکم ) ۔
رسول اورفرستادہ ٴ خدا کا فرضواضح ابلاغ اور کچھ نہیںخواہ لوگ اسے قبول کریں یا نہ کریں :(وماعلی الرسول الاالباغ المبین ) ۔
اس مقام پر گزشتہ امتوں س ے مراد قوم نوح اوروہ اقوم ہیں جواس کے بعد وجود میں آئیں ۔
ارتباط آیات سے واضح ہو تاہے کہ یہ قول حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کاہے اور بہت مفسرین نے بھی اسی تفسیر کواختیار کیاہے یاکم از کم بطوراحتمال اس کا ذکرکیاہے ۔
اس مقام پر ایک اوراحتمال بھی ہے کہ اس آیت میں ر و ئے سخن مشرکین مکہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے کافروں کیطرف ہو اور یہ جملہ :
” کذب امم من قلبکم“اس احتمال سے بہت مناسب رکھتاہے ۔
اس کے علاوہ سورہٴ زمر کی آیت ۲۵ اورسورہٴ فاطرکی آیت ۲۵ میں پیغمبر السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین عرب کے متعلق جوذکر آیاہے ، ا س آیت کامفہوم بھی اس کے مطابق ہے . بہر حال مذکورہ بالا دونوں تفاسیرمیں نتیجے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے ۔
اس مقام پرآقرن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصّے کومطلقا چھوڑدیا گیا ہے . اورحضرت ابراہیم علیہ السلام توحید باری تعالی اوراپنی رسالت کے اثبات میں جو دلائل دے رہے تھے انھیں معاد کے ذکر پرختم کردیتے ہیں : کیایہ منکریں معاد نہیں دیکھتے کہ خدا آفرینش کا آغاز کرتاہے اورپھر اسے واپس لوٹاتاہے : ( اولم یرو ا کیف یبدء اللہ الخلق ثم یعیدہ ) ۔
اس مقام پر ”روٴ یت “ یعنی دیکھنے سے مراد مشاہدہ ٴ قلبی اور علم ہے . یعنی کیایہ لوگ آفرینش الہٰی کی کیفیت کو نہیں جانتے ؟ وہ ذات جو باراول ایجاد و آفرینش پرقدرت رکھتی ہے ، اس کے اعادہ پربھی قادر ہے . کیونکہ ایک چیز پرقدرت رکھنا یہ معنی رکھتاہے کہ ا س کے امثال واشباہ پربھی اسے قدر ت ہے ۔
اس مقام پر اس احتمال کی بھی گنجائش ہے کہ ” رویت “کے معنی ” مشاہدہ بالعین “ ( آنکھوسے دیکھنا ) ہو .کیونکہ انسان اس دنیامیں دیکھتاہے کہ بارش کے فیض سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہی ں، زمین سے نباتات اگتی ہیں . انسانی بچوں کی تولید ہوتی ہے . مرغی کے بچے انڈوں سے نکلتے ہیں . کیاوہ نہ نہیں س وچتاکہ جو ذات ان کاموں پرقدرت رکھتی ہے ، وہ بعد مرگ ، مردوں کوحیات نوبخش سکتی ہے ۔
آیت کے اخیر میں تاکید کے عنوان سے یہ اضافہ ہے کہ اضافہ ہے کہ یہ کام خدا کے لیے آسان ہے : ( ان ذالک علی اللہ یسیر ) ۔
کیونکہ باراول ایجادو آفرینش کے مقابلے میں تجدید حیات آسان تر ہے ۔
ذات الہٰی کے لیے کلمات ”آسان اوردشوار “ کی تعبیر ات انسان کے محدود دماغ اور محودد القدرت حالت کی اختراعات ہیں چو اس نے اپنی فہم کے مطابق وضع کرلیے ہیں . کام کاآسان یاد شوار ہوناتو مخلوق کے لیے ہے جس کااختیار اورقدرت محدود ہے نہ کہ خداکے لیے کہ اس کی قدرت کے لیے کسی حد کاتعین نہیں ہے ۔ ( غور کیجئے گا ) ۔
۱۔طول عمر کے سلسلے کوبالو ضاحت سمجھنے کے لیے ،حضر ت امام مہدی علیہ السلام کی طولانی عمر کی بحث کے سلسلہ میں ” انقلابی بزر گ“ کتا ب کا مطالعہ کریں ۔
۲۔ مفردات راغب وفرہنگ عمید ۔
۳ ۔اس امر میں کی ” جعلنا ھا “ کی ضمیر کا مرجع کو ن ہے ، مفسرین میں اختلاف ہے . بعض نے کہاہے کہ ضمیر”ھا “کا مر جع کل واقع اور حادثہ ہے . بعض کا خیال ہے کہ اس کا اشارہ حضر ت نوح علیہ السلام اوران کے اصحاب کی نجات کی طرف ہے . بعض نے اس ضمیر کامرجع کشتی کو قرار دیا ہے . ہمارے نزدیک آیت کے ظاہر ی معنی کے لحاظ سے آخری خیال درست ہے .درحقیقت یہ کشتی اس زمانے میں خد ا کی عظیم آیات میں س ے آیت تھی .
۴ ۔”ارسلنا “فعل ہے اور نوحا معطوف علیہ اور ابراہیم معطوف ہے . دونوں مفعول ہوئے فعل ”ارسلنا “ کے ، بعض نے ابراہیم کوفعل ” انجینا “ کے مفعو پرعطف سمجھا ہے . اوربعض نے فعل محذوف ” اذکر “کا مفعول سمجھا ہے ۔
۵ ۔ ” افک “ ہراس چیز کوکہتے ہیں جس کی اصل صورت بدل جائے .اس لیے دروغ ، بالخصوص ” بڑے جھوٹ “کو افک کہتے ہیں . اسی طرح باد مخالف کو بھی ”افک “ کہتے ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma