۳۔ دو لت کے بارے میں اسلام کا موقت :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
ہم نے جو کچھ سطور بالا میں بیان کیاہے اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیاجائے کہ مال و دولت کے معاملے میں اسلام کا رویہ یہ منفی ہے اور ثروت مندی کامخالف ہے . یہ بھی تصور نہیں کرنا چاہیئے کہ اسلام غریب و افلاس کو پسند کرتاہے اور لوگوں کومسکنت او ر بے نوائی کی طرف دعوت دیتاہے اور اس حالت کوروحانی کمالات کے حصول کاوسیلہ سمجھتاہے ۔
بلکہ ... اس کے بالعکس اسلام مال ودولت کوایک موٴ ثر او ر کار ساز وسیلہ سمجھتا ہے . چنانچہ سورہ ٴ بقرہ کی آیت ۱۸۰ میں ” مال “ کو خیر کہاگیاہے . نیز ... امام باقر علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے ۔
نعم العون الدنیا علی طلب الاخرة
آخرت تک پہنچنے کے لیے دنیا اچھا وسیلہ ہے (1) ۔
بلکہ ... زیربحث آیات جن میں مغرور اورصاحب ثروت قارون کی شدید ترین مذمت کی گئی ہے ، ان سے بھی یہ حقیقت مترشح ہے کہ اسلام اس دولت کوپسند کرتاہے جس کے وسیلے سے ” دار آخرت “ کی جستجو اور اگلے جہان کی نعمات کو طلب کیاجائے ۔
جیساکہ بنی اسرئیل کے اہل دانش نے قارون سے کہا : ” وابتغ فیما اتاکہ اللہ الدار لا خرة “ اسلام اس دولت کوپسند کرتاہے جس میں ” احسن کما اللہ الیک “ کے تقاضے کے مطابق تمام بنی نوع انسان کے ساتھ بھلائی اور احسان ہو ۔
اسلام اس دولت کامداح ہے جس کا مالک ” لا تنس نصیبک من الدنیا “ کی تعلیم پرعامل ہو ( یعنی دولت مند ہونے کے باوجود یہ خیال رکھتاہو کہ دو لت دنیا میں میرا محدود حصہ ہے ) ۔
خلاصہ ٴ کلام یہ ہے کہ اسلام اس دولت کاخواہاں ہے جو ” زمین پرباعث فساد “ انسانی اقدار کوفراموش کردینے والی ، ارتکاز و تکا ثر کی جنون آمیز مسابقت میںگرفتار کردینے والی ، انسان میں جذبہ برتری ٴ ذاب پیدا کرنے والی ، دوسروں کو بہ نظر تحقیر دیکھنے والی او ر یہاں تک کہ پیغمبروں کے مدّ مقابل آنے والی نہ ہو . ان اخلاق رزیلہ کی بجائے وہ دولت ایسی ہو جس سے جملہ بنی نوع کو فائدہ پہنچے ، بین الناس اقتصادی نشیب و فراز کے خلاکو پر کردے . بے چار ے غم رسیدہ لوگوں کے زخموں پرمرہم رکھے اور مستضعفین کے احتیاجات اور مشکلات کا حل بن جائے .اگر کوئی شخص ایسی دولت کا مالک ہے جس کے مصرف ایسے مقدّس مقاصد ہیں تواس شخص کو دنیا اور دولت پر ست نہیں کہہ سکتے . ایسے شخص کا تعلق نعمات آخرت سے ہے چنانچہ ہم ایک حدیث میں پڑھتے ہیں کہ : امام جعفرصادق علیہ السلام کے اصحاب میں س ے ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضرہو اور شکایت کی کہ :
” ہم دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اوراس سے دلبستگی رکھتے ہیں . ہم اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم دنیا پرست نہ ہوجائیں “۔
امام علیہ لسلام ( جو کہ اس شخص کی نیکی اور تقویٰ کو جانتے تھے ) نے اس سے سوال کیا ۔
تو دنیا کی دولت کوکس کام میں خرچ کرناچاہتاہے ؟
اس شخص نے جوابا عرض کیا :
میں اس سے اپنی اور پنے اہل و عیال کی معاشی فراہم رتاہوں ، اپنے اعزّاکی مدد کرتاہوں ، راہ خدامیں انفاق کرتاہوں اور حج و عمرہ بجالاتاہوں ۔
یہ سن کرامام علیہ السلام نے جواب دیا :
لیس ھذا طلب الدنیا ھذا طلب الا خرة “ یہ دنیا طلبی نہیں ہے ، طلب آخرت ہے (2) ۔
اس استشہاد کی بنا ء پر دو قسم کے لوگوں کے عقائد کابطلان ثابت ہوتاہے ۔
اوّل : تو و ہ مسلمان نما تعلیمات اسلام سے بے خبر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام سر مایہ دار ی کاحامی ہے ۔
دوسررے : وہ اہل غرض دشمنان اسلام جو تعلیمات ِ اسلام کومسخ کرکے اسے معاند ثروت او ر حامی افلاس و تہی وستی قرار دیتے ہیں ... مگر ا ن پر یہ حقیقت منکشف ہونی چاہیئے کہ :
ایک مفلس وناد ار قوم کبھی آزاد ساور باعزت زندگی بسر نہیں کرسکتی۔
قومی افلاس کا نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ پسماندہ قوم کسی قوی قوم کے زیر اثر آکر اس سے وابستہ ہوکر رہ جاتی ہے . مفلسی دنیا و آخرت دونوں جگہ روسیا ہی کاباعث ہے ۔
مفلسی انسان کوگناہ او ر مکروہات کی طرف دعوت دیتی ہے ۔
امام جعفرصادق علیہ السلام کا ایک قول اس معنی کامصداق ہے :
غنی یحجزک عن الظلم خیر من فقر یحملک الا ثم
وہ لت مند ی جو تجھے دوسروں کے سلب حقوق سے باز رکھے اس فقرسے بہتر ہے جوتجھے گناہ پر آمادہ کرے ۔
اس لیے تمام مسلمانوں لو چاپہئے کہ وہ اپنی تمام کوشش اس امر پرصرف کریں کہ وہ مال حیثیت سے غنی اوربے نیاز ہوجائیں ، خود کفیل ہوں او ر اپنے پیروں پرکھڑے ہوجائیں وہ اپنے شرف ،عزّت اور استقلال کو ، بوجہ فقروافلاس دوسری قوموں کی وابستگی پرقربان نہ کریں اور یہ جان لیں کہ اسلام کے نزدیک صرف صراط ِ مستقیم یہی ہے ۔
1۔وسائل شیعہ ، جلد ۱۲ ، ص ۱۷ (ابواب مقدمات تجارت سے باب ۱۶ ، حدیث ۵ ) ۔
2۔ بمطابق نقل تفسیر المیزان ، جلد ۱۶ صفحہ ۸۴ بحوالہ درالمنثور اسی طر ح تفسیر روح المعانی . نیز دیگر مفسرین نے بھی کچھ فرق کے ساتھ اسی آیت کے ذیل میں یہ روایت نقل کی ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma