ائمہ نور اور ائمہ نار :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
قرآن شریف میںدوقسم کے اماموں کاذکر ہے . ایک امام توپیشوائے متقین ہے جو راہ راست اوردین حق کی طرف ھدیت کرتاہے . چنانچہ سورئہ انبیا ء کی آیت ۷۳ میں پیغمبر وں کے ایک گروہ کے متعلق ہم یوں پڑھتے ہیں :
وجعلناھم ائمة یھدون بامرنا واوحینا الیھم فعل الخیرات وامام الصلوٰ ة وایتاء الزکوٰة وکانو النا عابدین
ہم نے ان کو پیشوا بنا یاتھا کہ وہ ہمارے حکم سے لوگوں کو ھدایت کرتے تھے ہم نے ان کو وحی کی کہ وہ نیک کام کریں ، نماز پڑھیں اور زکوٰة اداکریں اوروہ صرف ہمارے ہی عبادت گزار تھے ۔
یہ ایسے اما م تھے جن کے فرائض عمل بالکل واضح تھے .ان کے فرائض عمل کی فہر ست توحید خالص ، خیراور نیکی کی طرف لوگوں کودعوت دینا اورحق و عدالت پرمشتمل تھی . یہ لوگ امامان نور تھے کہ ان کاسلسلہ انبیا ء اور اصیاسے گزرتاہواجناب خاتم المر سلین تک آتا ہے ۔
دوسری قسم کے امام رہبر ان ضلال و گمراہی ہیں اور آیات زیر بحث کی رو سے وہ
” آ ئمہ نار “ ہیں ۔
پیشواؤں کے دوگروہوں کی خصوصیات جیسی کہ امام جعفرصادق (علیه السلام) سے منقول ہے یہ ہیں :
” ان میں سے گروہ ادل خداکے فرمان کو مخلوق ک رائے اور اپنے ارادے پر مقدم رکھتے ہیں اوراسی کے حکم کوبر ترین فرمان سمجھتے ہیں “ ۔
لیکن گروہ دوم اپنی رائے کوخداکے حکم پرمقدّم سمجھتے ہیں اور اپنے حکم کوخدا کے فرمان پرترجیح دیتے ہیں ( 1)۔
اہل نظر کے لیے ان دونوں قسم کے اماموں میں امتیاز کرنا اس معیار کی روشنی میں آسان ہوجائے گا جوامام صادق (علیه السلام) نے بیان فرمایاہے :
بروز قیامت جب اعمال حسن وقیبح کے مطابق مخلوق کی صف بندی ہوگی تو ہر گروہ اپنے اپنے امام کے پیچھے چلے گا . ناری گروہ کسی ناری اما م کی تلاش کرلے گا اور نوری گروہ امام ہدایت کے پیچھے ہوگا ۔
چنانچہ قرآن شریف میں فرمایاگیاہے ۔
یوم ند عوا کل اناس با مامھم
وہ ایسا دن ہوگا کہ ہم ہرگروہ کو اس کے اما م کے ساتھ بلائیں گے .( بنی اسرائیل . ۷۱ )
ہم نے بارہا اس حقیقت کو آشکار کیاہے کہ میدان قیامت اس تنگ دنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع اورعظیم ہوگا . اس جہان فانی میںجن لوگوں نے جس امام کی بھی پیروی کی ہے اوراس کے معتقدر ہے ہیں ، روز محشر بھی وہ اسی کے ساتھ ہوں گے ۔
بشرین غالب یوں بیان کرتاہے کہ میں نے ابوعبداللہ امام حسین علیہ السلام سے یوم ند عوا کل اناس باما مھم کی تفسیر پوچھی تو امام (علیه السلام) نے فرمایا :
” امام دعاالی ھدی فاجا بوہ الیہ ، وامام دعاالی ضلالة فاجابوہ الیھا ، ھوٴ لاء فی الجنة وھوٴ لاء فی النار وھو قولہ عز وجل “ فریق فی الجنة وفریق فی السعیر “
ایک امام تو وہ ہے جوھدایت کی طرف بلاتاہے اور ایک گروہ اس کی دعوت کوقبول کر لیتاہے . اور ایک امام وہ ہے جوگمراہی کی طرف دعوت دیتاہے اور ایک گروہ اس کی بھی پیروی کرنے لگتاہے .پہلا گروہ اہل جنت میں سے ہے اوردوسرا دوزخی ہے اور خداکے اس فرمان کاکہ ایک فریق جنت میں ہوگا ، اورایک دوزخ میں ، یہی مطلب ہے ۔
حقیقت امریہ ہے کہ وہ فرعون جوحضرت موسٰی (علیه السلام) کاتعاقب کرتے ہوئے اپنے پیروؤں کے آگے آگے چل رہاتھا ، یہاں تک کہ اس نے ان سب کودر یائے نیل کی موجوں میں غرق کردیا ، بروز قیامت بھی وہ اس گمراہ گروہ کے آگے آگے ہوگا اورانھیں دریائے آتش میںڈبودے گا . جیساکہ قرآن میںفرمایاگیا ہے ۔
یقدم قومہ یوم القیامة فاوردھم النار
بروز قیامت وہ اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا . یہاں تک کہ وہ انھیں آگ میںداخل کردے گا .( ھود . ۹۸ ) ۔
ہم اس بحث کومولائے کائنات امیرالمومنین علی ابنی ابی طالب کے ایک قو پر ختم کرتے ہیں . آپ (علیه السلام) نے منافیقین کے ایک گروہ کے متعلق فرمایاہے :
” ثم بقو ابعد ہ ، فتقربوا الی ائمة الضلالة والدعاة الی الناربالزور والبھتان ، فولو ھم الاعمال وجعلوھم حکا ما علی رقاب ا لناس “
یہ گروہ منافقین رسول اللہ کی وفات کے بعد بھی باقی رہا . اور ا نھوں نے آئمہ ضلال کی قربت اختیار کرلی اور ان لوگوں کی پیروی ک جو دروغ اور بہتان کے ساتھ لوگوں کودوزخ کی طرف بلاتے تھے . ان آئمہ ضلال نے ان کے وجود سے خوب فا ئد ہ اٹھا یا . انہیں عہدے اور منصب عطاکیے اور انھیں حکّام بنا کر مخلوق کی گرد نوں پرسوار کردیا ۔
1 ۔ تفسیر صافی ذیل آیات ز یر بحث ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma