۱۔ حضرت موسٰی (علیه السلام) کایہ کام اورمقام عصمت :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16
مفسّرین نے ، اس قبطی اوربنی اسرائیل کی باہمی نزاع اورحضرت موسٰی (علیه السلام) کے ہاتھ سے مروقبطی کے مارے جانے کے بارے میں بڑی بحثیں ہیں۔
در حقیت یہ معاملہ کوئی اہم اوربحث طلب تھا ہی نہیں کیونکہ ستم پسند وابستگان فرعون نہایت بے رحم اورمفسد تھے .انہوں نے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچوں کے سرقلم کیے اور بنی اسرائیل پرکسی قسم کاظلم کرنے سے بھی دریغ نہ کیا . اس جہت سے یہ لو گ اس قابل نہ تھے کہ بنی اسرائیل کے لیے ان کاقتل احترام انسانیت کے خلاف ہو ۔
البتہ مفسرین کے لیے جس چیز نے دشواریاں پیداکی ہیں وہ اس واقعے کی رہ مختلف تعبیر ات ہیں جو خود حضرت موسٰی (علیه السلام) نے کی ہیں ۔
چنانچہ وہ ایک جگہ تو یہ کہتے ہیں :
ھذامن عمل الشیطان
یہ شیطانی عمل ہے
اوردوسری جگہ یہ فرمایا :
رب انی ظلمت تفسی فاغفرلی
خدامیں نے اپنے نفس پرظلم کیاتومجھے معاف فرمادے ۔
جناب موسٰی (علیه السلام) کی یہ دونوں تعبیرا ت اس مسلّمہ حقیقت سے کیونکر مطابقت رکھتی ہیں کہ :
” عصمت انبیا ء کامفہوم یہ ہے کہ انبیاماقبل بعثت اورمابعد عطائے رسالت ہر دو حالات میں معصوم ہوتے ہیں “ ۔
لیکن ... حضرت موسٰی (علیه السلام) کے اس عمل کی جو توضیح ہم نے آیات فوق کی روشنی میں پیش کی ہے ، اس سے ثابت ہوتاہے کہ حضرت موسٰی (علیه السلام) سے جوکچھ سرزد ہوااوہ ترک اولیٰ سے ز یادہ نہ تھا .انھوں نے اس عمل سے اپنے آپ کوزحمت میں مبتلا کرلیا کیونکہ حضرت موسٰی (علیه السلام) کے ہاتھ سے اایک قبطی کاقتل ایسی بات نہ تھی کہ وابستگان فرعون اسے کوئی اسے آسانی سے برداشت کرلیتے ۔
نیز ہم جانتے ہیں کہ
” ترک اولیٰ “ کے معنٰی ایسا کام ہے جو بذات خود حرام نہیں ہے . بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ” عمل احسن ترک ہوگیا ۔بغیر اس کے کہ کوئی عمل حکم الہٰی سرزد ہواہو ۔
اس قسم کے واقعات کادوسرے انبیاء کے احوال حیات میں بھی نشان ملتاہے .ان میں ایک حضرت آدم بھی ہیں .جن سے متعلق سورئہ اعراف آیت نمبر ۱۹ کے تحت (جلد ۶ تفسیر ھذا میں ) مفصّلاذکر ہواہے ۔
ان آیات کی تفسیر میں
” عیوان الاخبار “ میںجناب امام علی رضاعلیہ السلام سے ایک تفسیر مروی ہے . آپ (علیه السلام) فرماتے ہیں :
”ھذامن عمل الشیطان “ سے مراد ان دونوں آدمیوں کی ایک ودسرے سے لڑائی ہے . ( جوعمل شیطانی شمار ہوتاہے ) ۔نہ کہ عمل موسٰی اوراس جملہ ” رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی “ سے مراد یہ ہے کہ موسٰی کہ رہے ہیں کہ خدایاجس مقام پرمجھے آنانہیںچاہیئے تھا میں وہاں پہنچ گیا .مجھے اس شہر میں ہر گز داخل نہیں ہونا چاہیئے تھا . اور ”فاغفرلی “ سے مراد یہ کہ :مجھے دشمنوں سے چھپا “ تاکہ وہ مجھ پر غالب نہ آجائیں (کیونکہ کلمہ ” غفران “ چھپانے کے معنٰی میں بھی آتاہے ) (۳) ۔
۱۔ وسائل الشیعہ ، جلد پنجم ص ۲۴۹ ( باب ۲۰ ابواب از بقیةالصلوت المندربیہ ) ۔
۲۔ ”وکز “ کے معنی مکّا مارنے کے ہیں .اس کلمے کے کچھ اومعنی بھی بتائے گئے ہیں جو درست نہیں معلوم ہوتے ۔
۳۔عیون الاخبار طبق نقل تفسیر نواثقلین ج ۴ صفحہ ۱۱۹ ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma