سوره قصص کے مضامین اور فضیلت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 16

مکہ میں نازل ہوئی

اس میں ۸۸ آیتیں ہیں

مندر جا ت سورئہ قصص :

مشہور یہ ہے کہ یہ سورة مکّہ میں نازل ہوئی تھی . اس وجہ سے اس کے مندر جات اوراس کااسلوب وہی ہے جیساکہ دیگرمکّی سورتوں میں ہے (۱) ۔
اگر چہ بعض مفسرین نے اس سورة کی آیت نمبر ۸۵ یا ۵۲ سے ۵۵ تک کو اس سے مستثنٰی کیاہے . ان کا نظر یہ یہ ہے . آ یہ ۸۵ حجفہ ( جو کہ مکّہ کے درمیان ایک مقام ہے ) میں نازل ہوئی اور باقی چار آیات مدینہ میں نازل ہوئیں .لیکن ان کے قول پر کوئی محکم دلیل نہیں ہے ممکن ہے کہ اہل تفسیر کے اس خیال کاسبب یہ ہو کہ ان پانچ آیات میں اہل کتاب کاذکر ہے ۔
اوراہل کتاب کثرت سے مدینہ میں رہتے تھے .حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے کہ قرآن کاجوحصّہ مکّہ میں نازل ہواہے اس میں صرف مشرکین مکّہ ہی کاذکر ہو .جب کہ مکّہ اور مدینہ کے لوگوں کاایک دوسرے کے ہاں بہت آناجاناتھا ۔
البتہ مفسرین نے آیات ۵۲ تا۵۵ کی شان نزول کاجوذکر کیاہے وہ ان کے مدنی ہونے سے مناسبت رکھتی ہے .ان شاء اللہ ہم مناسب مقام پر اس کاذکر کریں گے ۔
آیت نمبرپچاسی میںپیغمبر خدا کے اپنے اصلی وطن یعنی مکّہ کاذکر ہے اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ یہ آیت ہجرت کے وقت جب کے آپ باہر تشریف لےے جارہے تھے ، اسی مقدّ س سرزمین پرنازل ہوئی کیونکہ جناب رسالتمآب کوسرزمین ِ مکّہ جو کہ حرم ،امن خدااور مرکز توحید تھابہت محبت تھی .چنانچہ اس آیت میں اللہ انھیں بشارت دیتاہے کہ آخر کار میں تم کو اس شہر میں واپس لے آؤں گا ۔
مذکورہ بالامفہوم کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ یہ آیت مکّی ہو .اور اگر بالفرض یہ آیت حجفہ میں بھی نازل ہوئی تو وہ مقام بھی یہ نسبت مدینہ کے مکّہ سے نزدیک تر ہے ۔
بنا بریں جب ہم آیات ِ قرآنی کومکّی اور مدنی میںتقسیم کرتے ہیں تواس آیت نمبر پچاسی کو غیر آیات مکّی میں جگہ نہیں دے سکتے ۔
مسلّما ت یہ سورة مکّہ میں نازل ہوئی ہے ان حالات میں جب کہ باایمان افراد قوی دشمنوں کے پنجہ میں پھنسے ہو ئے تھے. وہ دشمن بھی ایسے تھے جواپنی جمعیّت و تعداد اورقدرت و قوّت ہر دولحاظ سے مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے .یہ مسلمان اقلیت اس اکثر یت کے تحت ایسی دبی ہوئی تھی جواپنی جمعیّت و تعداد اور قدرت ہر لحاظ سے مسلمانوں پر برتری رکھتے تھے . یہ سلما ن اقلیت اس اکثر یت کے تحت ایسی دبی ہوئی تھی کہ ا ن میں کچھ لوگ اسلام کے مستقبل کے متعلق خوف زدہ اور فکر مند رہتے تھے ۔
چونکہ مسلمانوں کی یہ حالت بنی اسرائیل کی اس وضع کے زیادہ مشابہہ تھی جب کہ وہ حوکومت فرعون کے پنجہ میں گرفتار تھے . اس لیے اس سورة کے ایک حصّہ میںحضرت موسٰی (علیه السلام) بنی اسرائیل ،اور فرعون کا قصّہ بیان کیا گیا ہے . اور یہ حصّہ انتا طویل ہے کہ سورة مذکورہ کے قریبا نصف حصّہ پر مشتمل ہے ۔
اس میں خوصاحضرت موسٰی (علیه السلام) کی زندگی کے اس حصّہ کاذکر ہے جب کہ وہ ایک ضعیف شیر خوار اور فرعون کے گھر میں پر ورش پارہے تھے .مگر قادرمطلق کی اس شکست ناپذیر قدرت نے ، جوتمام کائنات پر سایہ فگن ہے ،اس کمزور بچّے کوطاقتور دشمنوں کے زیر دامن پرورش کراکے بڑا کردیا اور آخر خدانے اسے اس قدر قوّت عطافرمائی کہ اس نے فرعون کی تمام شوکت و ثروت کاخاتمہ کردیا اوراس کے ظلم کے محل کومسمار کریا۔
یہ قصّہ اس لیے بیان کیاگیاہے تاکہ مسلمان پروردگار کے لطف وکرم کے امید وار رہیں اوراس کی لامحدود قدرت پر اعتماد کرکے اپنے دل کومطمئن رکھیں .اور دشمن کی تعداد کثیر اوراس کی طاقت سے ہر گز خوف زدہ نہ ہوں ۔
اس میں شک نہیں کہ اس سورة کاابتدائی حصّہ اسی پر معنٰی اوردانش آموز تاریخ واقعہ پر مشتمل ہے ۔
بالخصوص آغاز بیان میں مستضعفین کے لیے حق وعدالت پرمبنی حکومت کی نوید ہے اور ظالمین کی شان و شوکت کے برباد ہونے کی بشارت ہے . یہ بشارت مظلومین کے لیے آرام بخش اور قدرت آفرین ہے ۔
اس سورة کامغزِبیان یہ ہے کہ جس وقت تک بنی اسرائیل رہبر و پیشواسے محروم رہے اوران کے سروں پر سائبان ایمان و تو حید کاسایہ نہ ہواتھا ، اس وقت تک نہ توان میں کوئی ایسی تحریک رونماہوئی اور نہ وہ کوئی ایسی سعی و کوشش کر سکے جوانہیں من حیث القوم منظّم و متحد کردے . اندریں حال وہ غلامی اوراسیری کی زنجیروں میں جکڑ ے ہوئے تھے ۔
مگر جیسے ہی انھیں ایک رہبر مل گیا اوران کادل نور علم و توحید سے روشن ہوگیاہے ، وہ فرعون اورآل فرعون پراس طرح حملہ آور ہوئے کہ ہمیشہ کے لیے حکومت ان کے ہاتھ سے نکل گئے ارو بنی اسرائیل آزاد ہوگئے ۔
اس سورة کے حصّہ دوم میں اس دولت مند اورمشکبرقادرن کاذکر ہے جسے اپنے علم اوردولت پر بڑا بھروسہ تھا . اس غرور و تکبّر کے نتیجہ میں اس اس کا انجام بھی بالکل فرعون جیساہوا . فرعون پانی میںغر ق ہوا ، اوراس یہ مٹی میں . فرعون کواپنی فوجی طاقت پرگھمنڈ تھا اور قارون کو اپنی دولت پر ۔
خدائے حکیم نے یہ واقعات اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ اہل عالم پر یہ واضح ہوجائے گہ :
خواہ وہ مکّہ کے اہل ثروت ہوں ، اس علاقہ کے مشرک صاحبان ِ اقتدار ہوں یا .اس دور کے سیاسی بازی گر ہوں ،ان میں سے کسی میں بھی یہ قدرت نہیں ہے کہ مستکبرین پر مستضعفین کے غلبے کے بارے میں جو ارائہ الہٰی ہے اس کامقابلہ کر سکیں . یہ واقعات اس سورہ کے آخر ی حصّہ
میں بیان کیے گئے ہیں ۔
ان دو حصّوں کے درمیان توحید ،معاد ، اہمیت قرآن ،قیامت مشرکین کی حالت ، مسئلہ ہدایت وضلالت اور کمزور افراد کی بہانہ جوئی کاجواب مذکورہ ہے .یہ بیان نہایت قیمتی اور سبق آموز ہے در حقیقت یہ بیان سورة کے حصّہ اوّل کانتیجہ اورحصّہ دوم کے لیے مقدّمہ رکھتاہے ۔

۱۔ دیکھئے ” تاریخ القرآن “ ابوعبداللہ زنجانی ،اور” فہرست “ ابن ندیم اور کتب تفسیر ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma