تم خدا کی مدد کرو گے تووہ بھی تمہاری مدد کریگا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
یہ آیات مثل سابق موٴ منین کودشمنان حق کے خلاف قیام کی ترغیب دے رہی ہیں اوردلکش تعبیر کے ساتھ انہیں جہاد پرآمادہ کررہی ہیں ، ارشاد ہوتا ہے : ” اے وہ گروہ لوگوں جوایمان لے آ ئے ہو! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تووہ بھی تمہاری مدد کریگا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا (یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اٴَقْدامَکُم) ۔
” ایمان کے مسئلے پرتاکید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچے دل سے ایما ن کی ایک علامت دشمنانِ دین کے ساتھ جنگ ہے ۔
خدا کی مدد کرنے کامطلب واضح ہے کہ اس کے دین کی مدد کی جائے ، اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کی جائے ،پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت اور تعلیمات کی نصرت کی جائے ، اسی لیے قرآن مجید کی دوسری آیات میں خدا اوررسُول کی نُصرت ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ مذکورہوئی ہیں ، جیسا کہ سُورہ ٴ حشر کی آٹھویں آیت میں ہے :
” وَ یَنْصُرُونَ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ اٴُولئِکَ ہُمُ الصَّادِقُون“
’باوجود یکہ خدا کی قدرت بے انتہا ہے اور مخلوق کی قدرت اس کے مقابلے میں بالکل ہی ناچیز ہے ، لیکن پھربھی ” خدا کی مدد “ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں تاکہ جہاد اورآ ئین حق کے دفاع کی ا ہمیّت واضح کی جائے وراس سے بڑھ کر اس موضو ع کے لیے کوئی اور باعظمت تعبیر نہیں مِل سکتی ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ خدا نے اپنے دین کے دفاع کے بدلے جووعدہ مجا ہدین سے کیا ہے وہ کیا ہے ؟ ارشاد ہوتا ہے : ” خدا تمہاری مدد کر ے گا “ لیکن کِس طریقے سے ؟ بہت سے طریقے ہیں ! تمہارے دل میں نور ایمان ، تمہاری روح میں تقویٰ ، تمہارے ارادوں میں قوّت اور تمہارے افکار میں اطمینان ڈال کر۔
پھر یہ بھی کہ فرشتے تمہاری امداد کے لیے بھیجتا ہے ، حالات کا دھاراتمہارے حق میں موڑ دیتا ہے ،لوگوں کے دِلوں کوتمہاری طرف پھیر دینا ہے ، تمہاری باتوں میں تاثیر بخشتا ہے ،تمہاری سرگر میوں کومفید اور نتیجہ خیز ہوتا ہے ،غرض خدا کی مد د تمہارے جسم وجان اور تمہارے ظا ہر وباطن پرچھا جاتی ہے ۔
لیکن امداد کی مذکورہ تمام صورتوں میں ” ثبات قدم “ کے مسئلے پرزیادہ زور دیاگیا ہے ،کیونکہ دشمن کے مقابلے میں استقامت اور پامرد ی میں کامیابی کاسب سے زیادہ اور ا ہم راز پوشیدہ ہے اور میدانِ جنگ میں انہیں کامیابی حاصل ہوتی ہے جوثبات ِ قدم اوراستقامت کازیادہ ثبوت پیش کرتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ بنی ا سرائیل کے عظیم سپہ سالار حضرت طالوت کی ایک ستم گار ،خوتحوار اور طاقت ور بادشا ہ جالُوت کے ساتھ جنگ کے واقعے میں ہے کہ جب مومنین کی مختصر سی تعداد جوطالوت کے ساتھ تھی ، طاقتور دشمن کے مقابلے میں آ ئی توکہا :
” رَبَّنا اٴَفْرِغْ عَلَیْنا صَبْراً وَ ثَبِّتْ اٴَقْدامَنا وَ انْصُرْنا عَلَی الْقَوْمِ الْکافِرینَ“
” خدا وندا! تو ہمارے لیے ضبرو استقامت کی فر ا وانی کردے اور ہمار ے قدموں میںثبات عطافر ما اور کا فرقوم کے مقابلے میں ہماری مدد فر ما“ (بقرہ / ۲۵۰) ۔
چنانچہ اس کے بعد کی آیت میں ہے ۔
”فَہَزَمُوہُمْ بِإِذْنِ اللَّہِ “
” طالوط کے ساتھیو ں نے جالُوت کے طاقت ورلشکر کوحکم الہٰی سے شکست دے دی “۔
یقینا ! ثبات قدم کانتیجہ دشمن پرمکمل فتح اور کامرانی ہوتا ہے ۔
چونکہ بعض اوقات دشمن کاجرم غفیر اور ان کی افرادی قوّت قسم کے اسلحہ جات مجا ہدین را ہ حق کے افکارکو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں ،لہذا بعد کی آیت میں فرمایاگیا ہے : اور جولوگ کافر ہیں وہ ہلاک ہوں اور ان کے اعمال برباد ہوں (وَ الَّذینَ کَفَرُوا فَتَعْساً لَہُمْ وَ اٴَضَلَّ اٴَعْمالَہُمْ)(۱) ۔
” تعس “ (بروزن ” نحس “) کامعنی ڈگمگانا اور منہ کے بل گرنا ہے ،بعض لوگوں نے اس کامعنی ہلاکت ، انحطاط اورپستی بیان کیا ہے ، انہوں نے درحقیقت اس کے نتیجے کوبیان کیا ہے ۔
بہر صُورت ان دنووں گروہوں کے درمیان تقابل بڑی حد تک بامعنی ہے ،سچّے موٴ منین کے بارے میں فر مایاگیا ہے ہے : ” انہیں ثابت قدم رکھے گا“ ،لیکن کافروں کے متعلق فرمایاگیا ہے : ” انہیں سقوط و لغزش نصیب ہو “ اورو ہ بھی نفرین کی صُورت میں کہ جس کی گہرائی واضح ہے۔
جی ہاں ! جب بے ایمان لوگ لعزش کرتے ہیں توکوئی بھی انہیں سہارا نہیں دے سکتا ، جس کانتیجہ یہ ہو تا ہے کہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ شکست کھاجاتے ہیں، لیکن موٴ منین کی امداد کے لیے فرشتے موجُود ہوتے ہیں جوانہیں بڑھ کرتھام لیتے ہیں اور انہیں لغز ش اور ڈگمگاہٹ سے فوراً بچالیتے ہیں ، جیساکہ ایک اور جگہ پرخدا تعالیٰ فرماتا ہے :
” إِنَّ الَّذینَ قالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلائِکَةُ“
مو منین کے اعمال میں برکت ہوتی ہے ، لیکن کفار کے اعمال برکت سے خالی ہوتے ہیں جو بہت جلدنیست ونابُود ہوجاتے ہیں )حٰمہ سجدہ : ۳۰) ۔
بعد کی آیت ان کے سقوط اوران کے اعمال کی بر باد ی کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے : یہ اس لیے کہ خدا نے جو چیز نازل فرمائی انہوں نے اسے ناپسند کیاتوخدا نے بھی ان اعمال کو اکارت کردیا (ذلِکَ بِاٴَنَّہُمْ کَرِہُوا ما اٴَنْزَلَ اللَّہُ فَاٴَحْبَطَ اٴَعْمالَہُمْ ) ۔
خدا نے ہرچیز سے پہلے آ ئین توحید کونازل فرمایا، لیکن انہوں نے اس کے مُنہ موڑ لیا اورشرک کی طر ف متوجہ ہوگئے خدانے حق وعدالت اور طہارت و تقویٰ کاحکم دیا، لیکن انہوں نے اس کی طرف بھی پیٹھ کرلی اور ظلم وفساد کو اپنا لیا، حتّٰی کہ جب ان کے سامنے خداوند وحدہ لاشریک کانام لیا جاتاتووہ اس سے بھی اظہار نفرت کرتے ، جیسا کہ سُورہ ٴ زمر کی ۴۵ ویں آیت میں ہے :
” وَ إِذا ذُکِرَ اللَّہُ وَحْدَہُ اشْمَاٴَزَّتْ قُلُوبُ الَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَة“
جی ہاں ! جب یہ لوگ ان چیزوں سے متنفر ہیں تواس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس را ہ میں قدم بھی نہیں اُٹھا تے بلکہ ان کی تمام سعی کوشش باطل کی را ہوں پر گامزن ہونے میںصرف ہوتی ہے ، جس کالازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے اعمال اکارت ہوجاتے ہیں ۔
ایک روایت میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ :
” کوھوا ما انزل اللہ فی حق علی “ ۔
” ا ن لوگو ں نے ہراس چیز کوناپسند کیاجوخدا نے علی علیہ السلام کے حق میں نازل کی “ (2) ۔
البتّہ ” ما انزل اللہ “ کی تعبیر ایک وسیع معنی کی حامل ہے ، جس کا ایک روشن اورواضح مصداق امیر المو منین علیہ السلام کی ولایت کامسئلہ بھی ہے نہ یہ کہ مفہوم اسی میں منحصر ہے ۔
قرآن مجید بہت سے مقامات پر ظالموں کو ” حسّی نمانے “ دکھاتا ہے لہذا یہاں پر بھی انہیں گذشتہ اقوام کے حالات کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتے ہُوئے فرماتا ہے : توکیایہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ،تاکہ دیکھتے کہ جولوگ ان سے پہلے تھے ان کاکیا انجام ہوا ، وہی جنہوں نے کُفر وسرکشی کی را ہیں اختیار کیں اور خدانے انہیں ہلاک کردیا (اٴَ فَلَمْ یَسیرُوا فِی الْاٴَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کانَ عاقِبَةُ الَّذینَ مِنْ قَبْلِہِمْ دَمَّرَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ ) ۔
وہ یہ گمان نہ کریں کہ اس قسم کادردناک انجا م گذشتہ اقوام کے سرکش لوگوں کے لیے مخصوص تھا اور وہ بچ جائیں گے ، نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے ” مشر کین اور کفار کے لیے بھی اس قسم کی سزا ہوگی “ (وَ لِلْکافِرینَ اٴَمْثالُہا)(۳) ۔
وہ اس بات کی توقع ہرگز نہ رکھیں کہ ان جیسے کر دار کامظا ہرہ بھی کریں گے اوران جیسے انجام سے دو چار بھی نہیں ہوںگے ، انہیں چا ہیئے کہ گزشتہ لوگوں کے آثار بھی دیکھیں اوراپنے مستقبل اورانجام کابھی ان کی زندگی کے آئینے میں مشا ہدہ کریں ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ” دمر“ ” تد میر“ کے مادہ سے ہے ، جس کا اصل معنی ” ہلاک کرنا“ ہے ، لیکن جب ” علی “ کے ساتھ مذکور ہوتو اس کا معنی ہرچیز کوحتّٰی کہ انسان کا اپنی اولاد ، خا ندان اورمخصوص اموال کوملیا میٹ اورنیست ونابود کرنا ہوتا ہے (۴) اس طرح سے یہ تعبیر ایک بہت بڑی درد ناک مصیبت کی نشاندہی کررہی ہے اورخاص کرجب لفظ ” علی “ پر تو جہ مرکوز کی جائے کہ جوکسی کام پرتسلط اور غلبہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ،تواَب پورے جُملے کامفہوم یہ ہوگا کہ خدانے ان اقوام پر ، ان کے اموال پر اوران کی تمام پسندیدہ چیزوں پر ہلاکت اور تبا ہی و بربادی کو گرادیا۔
” زمین میں چلنے پھرنے “کے بارے میں ہم نے تفسیر نمونہ جلد سو م ( سورہٴ آل ِ عمرن کی ۱۳۷ ویں آیت ) کے ذیل میں تفصیل سے گفتگو کی ہے ، اسی طرح سولہویں جلدمیں اس ضمن میں بات کی گئی ہے۔
اسی سلسلے کی آخر ی آیت میں خدانے موٴ منین کو اپنی مکمّل حمایت کی یقین دہانی کرواتے ہُوئے سرکش کفّار کی نابودی کی خبر دی ہے ،یہ اس لیے ہے کہ خدا ایمان داروں کامولا اورسرپرست ہے ،لیکن کافروں کاکوئی مولانہیں ہے (ذلِکَ بِاٴَنَّ اللَّہَ مَوْلَی الَّذینَ آمَنُوا وَ اٴَنَّ الْکافِرینَ لا مَوْلی لَہُمْ)(۵) ۔
” مولیٰ “بمعنی ’ ’ دلی “سرپرست ، دوستاور مدد گار ہے ،تواس لحاظ سے خدانے مومنین کی ولایت ،سر پرستی اورامداد کواپنے ذمہ لے لیا ہے اورکافروں کواس اپنی ولایت کے دائرے سے نکال دیا ہے ظا ہر سی بات ہے کہ جولوگ اس کی ذات پاک و لایت کے زیر سایہ ہوتے ہیں ، خدا ان کے ہرآ ڑ ے وقت میں مدد فرماتا ہے اور ثبات قدمی عطافر ماتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے گوہر مراد کوپالیتے ہیں ،لیکن جولوگ اس دائرہ سے خارج ہوتے ہیں ان کے اعمال کواکارت کردیتا ہے اور انجام کاروہ ہلاکت سے دوچار ہوتے ہیں ۔
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ زیرتفسیر آیت میں اللہ کوصرف ” مومنین کامولا“ کی حیثیت سے ذکر کیاگیا ہے جب کہ دوسر ی بعض آیات میں کا فروں کامولا بھی بتایاگیا ہے ، مثلاً سُورہ ٴ یونس کی تیسویں آیت میں ہے ۔
” وَ رُدُّوا إِلَی اللَّہِ مَوْلا ہمُ الْحَقِّ وَ ضَلَّ عَنْہُمْ ما کانُوا یَفْتَرُونَ “۔
” وہ اپنے حقیقی مولا خدا کی طرف لوٹا ئے جائیں گے اور جن بُتوں کووہ جُھوٹ سے خدا کاشریک گردانتے تھے وہ غائب ور نابُود ہوجائیں گے “۔
اگرایک نکتے کوپیش ِ نظر رکھا جائے تویہ ایک بات واضح ہوجاتی ہے اوروہ یہ ہے کہ خداکی ” ولایت عامہ “ یعنی خالق اور مدبّر ہوناسب کے لیے ہے ، لیکن اس کی ” ولائیب خاصہ “کی جس میں اس کی طرف سے حمایت بھی شامل ہے ، صرف مومنین کے شاملِ حال ہوتی ہے (6) ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت قرآن کی تمام دوسری آیات سے زیادہ امید بخش ہے یعنی ” ارجی اٰیة فی القراٰن “ہے ، کیونکہ یہ تمام مومنین ہیں ، خوا ہ وہ عالم ہیں یا جاہل ، زا ہد ہیں یاراغب ،چھوٹے ہیں یابڑی ، مرد ہیں یاعورت اور بوڑھے ہیں یاجوان ، یہ آیت ان سب مومنین کے لیے پروردگار عالم کی خاص عنایت اورحمایت کی نشاندہی کرتی ہے ، حتّٰیکہ گنا ہگار مومنوں کی بھی اس سے مستثنٰی نہیں کرتی ، خدا سخت سے سخت حوادث اور جانکا ہ مصائب میں اپنی حمایت کے نمونے ِدِکھاچکا ہے اورہرشخص اپنی زندگی میں اس چیزکو ضرور محسُوس کرتا ہے اور تاریخ میں بھی اس کی بہت سی مثالیں مِلتی ہیں ۔
ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسِی جنگ سے واپسی پرایک درخت کے نیچے اکیلے بیٹھے ہُوئے تھے کہ اچانک ایک مشرک نے تلوار نیام سے نکال کرآپ برتان کرکہا:
” من یخلصک مِنّی“۔
” اب بتاؤ کہ تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے “۔
تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے برجستہ فرمایا :اللہ ! یہ سُن کراس مشرک کے پاؤں ڈگمگاگئے،وہ زمین پرگرپڑا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھُوٹ گئی ۔
رسُول اللہ (صلی اللہ علی وآلہ وسلم)نے وہ تلوار اُٹھا کرفرمایا :اب تم بتاؤں کہ تمہیں میرے ہاتھوں سے کون چھڑ اسکتا ہے ؟ تواس نے کہا، کوئی نہیں ! یہ کہا اورایمان لے آیا ( ۷) ۔
۱۔ ” تعساً “ ایک فعل مقدر کا مفعول مطلق ہے جس کی تقدیر یوں ہے ” تعسھم تعساً “ اور ”اٴَضَلَّ اٴَعْمالَہُم “ کاجُملہ اس فعل مقدر پرعطف ہے اور دونوں جُملے نفرین کی صورت میں ہیں ، جیسے قاتلھم اللہ“ اور ظا ہر ہے کہ خداکی طرف سے نفرین س کے وقوع پذیر ہونے کے معنی میں ہے ۔
۲۔ تفسیر مجمع البیان انہی آیات کے ذیل میں ۔
۳۔ ” امثالھا ‘ کی ضمیر ” عاقبة “ کی طرف لوٹ رہی ہے ، جوپہلے جُملے سے سمجھی جاتی ہے ۔
۴۔ تفسیر روح المعانی ،تفسیررُوح البیان اور تفسیرفخر الرازی ۔
۵۔” ذالک “ کامشارالیہ مومنین کانیک انجام اور کفار کابُرا انجام ہے جن کی طرف گزشتہ آیات میں اشار ہ ہوچکا ہے ۔
۶۔بعض مفسرین مثلاً آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں زیر نظر آیت کی تفسیر کے سلسلے میں ” مولا “ کامعنی ناصر“ اور سورہٴ یونس کی آیت جیسی آیا ت میں مولا کامعنی ” مالک “ لکھا ہے ۔
۷۔تفسیر روح البیان،جلد۸، صفحہ ۵۰۳۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma