” جِنَّات “ ایمان لاتے ہیں :

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

اِن آیات میں، جیساکہ شان ِ نزول میں اشارہ ہوچکا ہے ،پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اور آسمانی کتاب پرجنات کے ایمان لانے کاذِکر تفصیل کے ساتھ آیا ہے تاکہ مشرکین مکہ کواس حقیقت سے آگاہ کیاجائے کہ جنات کا ایک بظا ہر دور افتا دہ ٹولہ اس پیغمبر پرجوانسان ہے اور تمہار ے درمیان رہتا ہے ،کس طرح ایمان لے آیا ہے اور تم ہوکہ اپنے کُفر پرڈٹے ہُوئے ہو اوراس کی مخالفت پرہمیشہ کمربستہ رہتے ہو ۔
” جنات نامی مخلوق اوران کی خصوصیات کے بارے میں انشاء اللہ سورہٴ جن کی تفسیر میں بحث ہوگی ، یہاں پرصرف زیر تفسیرآیات کے بارے میں گفتگو ہوگی ۔
” قوم ِ ہُود کی داستان درحقیقت مشرکین مکّہ کے لیے ایک زبردست تنبیہ کی حیثیت رکھتی تھی ، اورقوم جن کے ایمان لانے کی داستان ایک اور تنبیہ تھی ۔
سب سے پہلے فر مایاگیا ہے : اس وقت کویاد کر جب ہم نے جنّوں میں سے ایک گروہ کوتیر ی طر ف متوجہ کیادِل لگا کرقرآن سنیں (وَ إِذْ صَرَفْنا إِلَیْکَ نَفَراً مِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآن) ۔
” صرفنا“ ” صرف “ کے مادہ سے ہے ، جس کامعنی کسی چیز کوایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کرنا ہے مُمکن ہے یہ تعبیر اس معنی میں کی طرف اشارہ ہو کہ جنّوں کاٹولہ پہلے ” اسراق سمع “(خبر دیں چرانے ) کے ذ ریعے آسمانوں کی خبروں کوسُنا کرتاتھا ،لیکن جب آنحضرت کاظہور رسالت ہُوئے تووہ اس سے روک دیئے گئے اورقرآن کی جانب متوجہ ہُوئے ’ ’ نفر“ کے بارے میں راغب نے مفردات میںلکھا ہے کہ یہ لوگوں کے ایسے گروہ کوکہتے ہیںجومل کرسفر کرسکتے ہوں۔
اور اربابِ لغت کے درمیان مشہور یہ ہے کہ ” نفر “ تین سے تک مشتمل جماعت کوکہتے ہیں اور بعض لوگوں کے نزدیک تین سے چالیس افراد پرمشتمل جماعت کوکہتے ہیں ( ہرچند کہ فارسی زبان میں ایک فرد کو بھی ” نفر“ کہتے ہیں ) ۔
پھرفر مایاگیا ہے : جب وہ قرآن کے سامنے حاضر ہُوئے اوراس کی روح پردر آیات کوسُنا توایک دوسرے سے کہنے لگے خاموش ہوکرسنتے رہو (فَلَمَّا حَضَرُوہُ قالُوا اٴَنْصِتُوا ) ۔
یہ اس وقت تھا جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نصف شب میں یانماز صبح کے دوران قرآنی آیات کی تلاوت کررہے تھے ۔
” انصتوا“ ” انصات “کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے خاموش ہوکر اور دل لگا کرپُوری توجہ سے سُننا۔
آخر الامرجب نو رایمانان کے دل میںچمک اُٹھا توانہوں نے آیات قرآنی کی حقانیت کواپنے اندر محسوس کرلیا ،لہذا ” جب قرآن پڑھنا تمام ہوا تووہ مبلغین کے مانند اپنی قوم کی طرف واپس آگئے اوراسے جاکرڈرایا اورجو حقیقت ان پر نمایاںہوگئی تھی اس سے قوم کوآگاہ کیا (فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا إِلی قَوْمِہِمْ مُنْذِرین) ۔
ایمان کے طلب گار افراد کایہی طریقہ ہوا ہے کہ وہ ہمیشہ ایمان کی تلاش میں رہتے ہیں ، اورجن حقائق سے خود آگاہ ہوتے ہیں ان سے دوسروں کوبھی آگاہ کرتے ہیں اورایمان کے منبع سے انہیں بھی مطلع کرتے ہیں ۔
بعدکی آیت قوم کی طرف پلٹ جانے کے بعد ان جنّوں کی دعوت و تبلیغ کی کیفیّت بیان کررہی ہے ، ایسی دعوت جو جامع ، جچی تلی ، مختصر اور با معنی ہے : انہوں نے کہا اے قوم ! ہم ایک کتاب سُن کرآئے ہیں جومُوسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے(قالُوا یا قَوْمَنا إِنَّا سَمِعْنا کِتاباً اٴُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسی ) ۔
اس کتاب کی کچھ مخصوص صفات ہیں پہلی صفت تویہ ہے کہ اپنے سے پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اوراس کے مضامین ان کے مضامین سے ہم آہنگ ہیں اور سابقہ کتابوں میںجو نشانیاں بیان کی گئی ہیں وہ اس میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہیں (مُصَدِّقاً لِما بَیْنَ یَدَیْہِ)( 1) ۔
اس کی دوسر ی صفت یہ ہے کہ سب کو حق کی طرف ہدایت کرتے ہے (یَہْدی إِلَی الْحَقِّ) ۔
وہ یوں کہ جوشخص بھی اپنی عقل اور فطرت سے کام لے ، اسے اس میں حقانیت کی علا متیں بخوبی نظرآ ئیں گی ۔
اس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ ” سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے “ (وَ إِلی طَریقٍ مُسْتَقیم) ۔
حق کی طرف دعوت اور طراطِ مستقیم کی طرف دعوت میں بھی بظا ہر فرق یہ ہے کہ پہلا (حق )اعتقادات کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا(صراط ِ مستقیم ) صحیح اور سیدھے عملی نظام کی طرف ۔
”اٴُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسی “اور ” مُصَدِّقاً لِما بَیْنَ یَدَیْہ“ کے جملے اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ جنّاتِ کا یہ گروہ گزشتہ آسمانی کتابوں خصوصاً حضرت مُوسیٰ کی کتاب پرایمان رکھتاتھا اورحق کی تلاش میں تھا اوراگرہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کتاب کاتذکرہ نہیںہے حالانکہ وہ مُوسیٰ علیہ السلام کی کتاب کے بعد نازل ہوئی ہے تواس کی وجہ یہ نہیں کہ بقول ابن عباس جنّات عیسیٰ علیہ السلام کی کتاب کے نزُول سے مطلقاً بے خبرتھے ، کیونکہ جنّات توآسمانی خبروںسے بھی باخبر تھے وہ زمین کی خبروںسے کس طرح غافل رہ سکتے ہیں ؟
بلکہ اس لیے ہے کیونکہ ” تورات “ بنیادی کتاب تھی ، حتی کہ عیسائی حضرات بھی اپنے شرعی احکام اسی سے حاصل کرتے تھے اور کرتے ہیں ۔
انہوں نے پھر کہا” اے ہمار ی قوم! خداکی طرف بلانے والے کی بات مانواوراس پرایمان لے آؤ (یا قَوْمَنا اٴَجیبُوا داعِیَ اللَّہِ وَ آمِنُوا بِہِ ) ۔
کہ وہ تمہیں عظیم اجرعطا فرمائے گا ،تمہار گنا ہوں کومعاف کردے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے پنا ہ میں رکھے گا (یَغْفِرْ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ وَ یُجِرْکُمْ مِنْ عَذابٍ اٴَلیمٍ )(2) ۔
” داعِیَ اللَّہِ“ (خدا کادعوت کرنے والا )سے مراد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ہیں ، کہ جوانہیں ” اللہ “ کی طرف رہنمائی کرتے تھے اور چونکہ زیادہ ترخوف گنا ہوں اورقیامت کے دردناک عذاب سے ہوتا ہے ،لہذا انہوں نے ان دونوں چیزوں سے بچاؤ کی بات کی ہے تاکہ قوم کی زیادہ توجہ اپنی طرف مبذول کرواسکیں۔
کئی مفسرین نے ” مِنْ ذُنُوبِکُم“ میں ” من “ کے کلمہ کو” زائدہ “ سمجھا ہے ، جواس بات کی کیدہے کہ تمام گنا ہوں کی بخشش کا ایمان پر دار ومدارہے ۔
لیکن بعض اورمفسرین نے اسے من ” تبعیضیہ “ اوران گنا ہوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے کہ وہ معاف کیے جائیں گے جوانہوں نے ایمان لانے سے پہلے انجام دیئے ہیں یا ان گنا ہوں کی طرف جن میں ” حق اللہ “ کاپہلوہے نہ کہ ” حق النّاس “ کا ۔
لیکن زیادہ مناسب معنی وہی من کے زائدہ ہونے والا ہے جوتاکید ہے اور آیت مجیدہ تمام گنا ہوں کے بارے میں میں ہے ۔
اس سلسلے کی آخر ی آیت میںجِنّ مبلغین کی آخر ی گفتگو کوان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا:اورجوشخص خداکی طرف بلانے والے کی بات نہیں مانے گا وہ ہر گز خدا کے عذاب سے زمین میں قرار نہیں کرسکتا (وَ مَنْ لا یُجِبْ داعِیَ اللَّہِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاٴَرْضِ) ۔
اورخدا کے علاوہ اس کاکوئی یارو مددگار اورسرپرست نہیں ہوگا (وَ لَیْسَ لَہُ مِنْ دُونِہِ اٴَوْلِیاء ُ ) ۔
اور لہٰذ” یہ لوگ کُھلی گمرا ہی میں ہیں “(اٴُولئِکَ فی ضَلالٍ مُبین) ۔
اس سے بڑھ کراورکیا بدترین اورواضح ترین گمرا ہی کہ انسان حق اورپیغمبر خدا حتی کہ خود خدا کے مقابلے پر کمربستہ ہوجائے کہ جس کے بغیر پوری کائنات میں نہ تو کوئی پنا ہ گاہ ہے اور نہ ہی اس کے مُلک سے فرار کرکے کہیں اور جاسکتا ہے ۔
ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ لفظ ” معجز“ (اپنی تمام مشتقات سمیّت )ایسے مقاماپرسزا اور تعاقب سے عاجز کرنے کے معنی میں تا ہے ،بالفاظ دیگر سزکے چنگل فر ار کرنے کے معنی میں۔
” فی الارض “(زمین میں ) کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمین کے کسی خطّے میں چلے جایئے ،خدا ہی کی حکومت ہوگی اورکچھ بھیاس کے احاطہٴ قدر ت سے با ہر نہیںہے اوراگر آسمان کاذکرنہیں کیاگیا ہے تواس وجہ یہ ہے کہ جنّات ہوں یا انسان سب کاٹھکانا بہرحال زمین ہی ہے ۔
1۔ اس جُملے کی تفسیرہم نے تفسیر نمونہ جلد اوّل سورہٴ بقرہ کی آ ۴۱ ویں آیت کی تفسیر میں تفصیل سے بیان کیا ہے ۔
2۔” یجرکم“ ” ایجار“ کے مادہ سے ہے ، جس کے کئی معانی ہیں ،فر یاد کوپہنچنا،عذاب سے بچا نا ،پنا ہ دینا اورحفاظت کرنا۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma