شان نزُول

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
مفسرین نے زیر تفسیر آیات میں سے پہلی آیت کے متعدد شانِ نزُول بیان کی ہیں ۔
۱۔یہ آیت ابوذر غفاری کے بارے میں ہے ، جومکہ میں اسلام لائے اوران کاقبیلہ بنی غفار بھی اِن کے بعد اسلام لے آیا چونکہ نبی غفار ایک بادیہ نشین اورغریب قبیلہ تھا ،لہٰذا کفارِ قریش کے دولت مند اور شہری لوگوں نے کہاکہ اگر اسلام بہتر چیز ہو تا تویہ بے وقعت اورحقیر لوگ ہم سے سبقت حاصل نہ کرجاتے ، اس موقع پرمندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور انہیں جواب دیا گیا ۔
۲۔ایک رُومی کنیز مکہ میں رہتی تھی ، اس کانام ” ذی النیر ة “( ۱) تھا، اس نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پرلبیک کہتے ہُوئے اسلام قبول کر لیا ، اس کے ردّ عمل میں بڑے بڑے قریشی کہنے لگے ” جو چیز محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) لے کر آیا ہے اگروہ اچھی اور بہتر ہوتی تو “ ” ذی النیرة “ جیسے لوگ ہم پر سبقت نہ لے جاتے ۔
۳۔ مکّہ کے باد یہ نشین قبائل کے کچھ افراد شہر کے لوگوں سے پہلے اسلام لے آ ئے ، مکّہ کے روساء کہنے لگے کہ ” اگر اسلام کو ئی اچھی چیزہوتا ہے تو یہ شتر بان اور چروا ہے ہم پرسبقت نہ لے جاتے “ ۔
۴۔ کچھ نیک دل لیکن غریب اور تہی دست افراد مثلاً صہیب ۻ ، بلال ۻ اور عمارۻ نے کُھلے دل کے ساتھ اسلام کو قبول کیا تو مکہ کے رُوساء کہنے لگے : ” آیایہ بات ممکن ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کادین کوئی اچھی چیزہو اوروہ ہم پر سبقت لے جائیں “ ۔
۵۔جب عبداللہ بن سلام اوران کے کُچھ دوست ایمان لے آ ئے تو مغر ور یہودی کہنے لگے ۔ ” اگراسلام اچھی چیز ہو تا تووہ ہم سے پیش قدم نہ ہوتے ( ۲) ۔
شان ِ نزُول کی پہلی چار قسموں کوصرف ایک جُملے میں خلاصہ کیاجاسکتا ہے اوروہ یہ کہ اِسلامی کی دعوت غرباء ، فقراء اور بادیہ نشین لوگوں میں بہت مقبُول ہوگئی اوران لوگوں نے بڑی تیز ی سے اس کا کھلے دل سے استقبال کیا کیونکہ ایک توان کے ناجائز مفادات نہیں تھے ، جن کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ،دوسرے ان کے دماغ میں تکبر اورغرور کی ہوانہیں تھی اور تیسرے خوشحال ،عیاش اورہوس پرست طبقے کی نسبت ان کادِل زیادہ پاک اورصاف تھا ۔
ایسے غریب غرباء کی طرف سے اسلام کا اس قدر گرم جوشی کے ساتھ استقبال اس دین الہٰی کے طاقت ورہونے کا ایک واضح ثبوت تھا، جسے مغرور اور مستکبر لوگوں نے اس کی بہت بڑی کمزوری پرمحمُول کیا اور کہنے لگے کہ یہ کیسا دین ہے ، جس کے پیر وکار مٹھی بھر با د یہ نشین ، غریب غربا ،فقیر فقراء اور کنیز وغلام ہیں، اگر یہ کوئی معقُول مکتب فکر ہوتاتو اسے نچلی سطح کے لوگ اور معاشر ے کے پست افراد ہرگز نہ اپناتے اور ہم جو کہ بالا ئی سطح کے افراد اور معاشر ے کے چشم وچراغ ہیں کبھی پیچھے نہ رہتے ۔
لائق توجہ بات یہ ہے کہ غلط طرز تفکّر آج بھی مغر ور دولت مندوں اورخوش حال ہوس پر ستوں میں مذہب کے بارے میں پایا جا تا ہے اور بڑی حدتک رائج ہے ، وہ بڑ ے فخر سے کہتے ہیں کہ مذہب توصرف فقراء ومساکین کے ہم کام کا ہے اور یہ دونوں (غر با اور مذہب )ایک دوسرے کے کام کے ہیں اور ہم تو بالاسطح کے لوگ ہیں۔
لیکن قرآن پاک نے زیر تفسیر آیات میں اس طرز ِ عمل کاکفایت کنندہ جواب دیا ہے ۔
ر ہی پانچو یں شان نزُو ل کے بارے میںجوسطورِ بالا میں بیان ہوئی ہے کہ اس سے مراد عبداللہ بن سلام اوران ک ساتھی یں ، اگر چہ طبرسی ۺ نے مجمع البیان میں اور قرطبی نے اپنی تفسیرقرطبی میں بھی اکثر مفسرین سے اسی شان ِ نزُول کونقل کیا ہے لیکن یہ دو لحاظ سے بعید معلوم ہوتی ہے ۔
ایک تویہ کہ ” الّذ ین کفروا“ کاجُملہ مطلق صُورت میں عام طورپر مشرکین کے لیے ا ستعمال ہوتا ہے کہ اہل کتاب یہودی اور نصاریٰ کے لیے ۔
دوسرے یہ کہ یہودیوں میں” عبداللہ بن سلام “کامقام ومرتبہ اورعزّت وحیثیت کوئی معمولی نہیں تھی کہ وہ ا ن کے بارے میں یہ کہتے کہ اگر اسلام اچھادین ہوتاتو وہ اوراس کے ساتھی ہم پر سبقت نہ لے جاتے ۔
۱۔ ” ذی النیرة ان خو اتین میں سے تمہیں ، جنہوں نے بہت جلد اسلام کوقبول کیا، اسی لیے ابوجہل نے ان پر سخت تشدد کیا ۔
۲۔تفسیر قرطبی، جلد ۹، ص ۶۰۰۹۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma