دہریوں کے عقائد

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

ان آیات میںمنکر ین توحید کے بارے میں ایک اوربحث کاسلسلہ شروع ہوتاہے ،البتہ یہاں پرمنکرین کے ایک خاص گروہ یعنی ” دہر یوں “ کانام لیاگیاہے جوعالم ِ ہستی اوراس کائنات میںصانع حکیم کے وجود کامطلقاً انکار کرتے تھے ، جبکہ اکثر و بیشتر مشرکین عام طورپر ظاہر میں خدا پرایمان رکھتے تھے اور بتوں کواس کی بارگاہ تک رسائی کے لیے اپنا شفیع سمجھتے تھے ، خدا وند عالم فرماتاہے :انہوں نے کہاہمار ی زندگی توبس دُنیا ہی کی ہے ، ہم میں سے کچھ لوگ مرتے ہیں اور کچُھ پیدا ہوجاتے ہیں اوران کی جگہ لے لیتے ہیں ،اوراس طرح سے انسانی نسل کاسِلسلہ جاری ہے (وَ قالُوا ما ہِیَ إِلاَّ حَیاتُنَا الدُّنْیا نَمُوتُ وَ نَحْیا ) ۔
اور ہمیں تو زمانہ ہی ہلا ک کرتاہے (وَ ما یُہْلِکُنا إِلاَّ الدَّہْر) ۔
اس طرح وہ ایک تو ” معاد “ کاانکار کرتے تھے اور دوسرے ” مبداء “ کا پہلا جُملہ ان کے معاد کے انکار کی غمازی کرتاہے ،جبکہ دوسراجُملہ مبداء کے انکار کی ۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس جیسی آیات قرآن مجید کے دو اور مقا مات پر بھی موجود ہیں ، ایک سُورہ ٴ انعام کی ۲۹ ویں آیت ہے جس میں ہے :
” وَ قالُوا إِنْ ہِیَ إِلاَّ حَیاتُنَا الدُّنْیا وَ ما نَحْنُ بِمَبْعُوثینَ “
” اورانہوں نے کہا کہ ہمار ی زندگی فقط اسی دُنیا کی ہے اور ہم پھر نہیں اُٹھا ئے جائیں گے “ ۔
لیکن ان دونوں آیتوں میںصرف معاد کے انکار کی جھلک ملتی ہے ،جبکہ زیر تفسیرآ یت میں مبداء اورمعاد دونوں کاانکار کیاگیاہے ۔
ظاہر ہے کہ ان کازیادہ زور معاد کے انکار پر تھا، اس لیے کہ وہ اس سے زیادہ خائف اور وحشت زدہ تھے ،اس کے اقرار سے ان کی زندگی میں تبدیلی مُمکن تھی وہ اس سے بھی پریشان تھے ۔
” نموت ونحیا“ (ہم مرتے اور زندہ ہوتے ہیں)کی مفسر ین نے کئی تفسیریں بیان کی ہیں ، پہلی تفسیر تووہی ہے جوہم سطُور بالا میں بیان کرچکے ہیں ،یعنی بڑ ے اور عمرسے سیدہ لوگ چلے جاتے ہیں اور نو مولُود عرصہِٴ زندگی میں قدم رکھتے اوران کی جگہ لیتے ہیں ۔
دوسری یہ ہے کہ یہاں پر یہ جُملہ تقدیم اور تاخر کی صُورت میں ہے ، جس کااصلی معنی یہ ہے کہ ہم زندہ ہوتے اورمرتے رہتے ہیں اوراس زندگی اورموت کے علاوہ اور کُچھ نہیں ۔
تیسر ی یہ کہ بعض لوگ مرجاتے ہیں اور بعض زندہ رہ جاتے ہیں ( ہر چند کہ انجام سب کاموت ہی ہے ) ۔
چوتھی یہ کہ ہم ابتداء میں مُردہ اور بے جان تھے ،پھر ہمیں حیات و زندگی کالباس پہنا یاگیا ،لیکن سب سے مناسب وہی پہلی تفسیر ہے ۔
بہرحال یہ عقیدہ کہ اس کائنات کافاعل حوادث دہر اور زمانہ ہے یاکچھ دوسرے لوگوں کی تعبیر کے مطابق افلاک کی گردش اور ستا روں کی کیفیت ہے ،گزشتہ زمانے میں یہ کُچھ مادہ پرستوں کاعقیدہ تھا . وہ واقعات روز گار کے سلسلے کی کڑی کوافلاک تک جاملاتے تھے . ان کایہ عقیدہ تھاکہ کائنات میں جوکچھ رونما ہوتاہے وہ سب انہی کی بدولت ہے ( 1) ۔
حتٰی کہ دہر یے فلسفی وغیرہ بھی افلاک کے لیے عقل کے قائل تھے اوراس کائنات کے نظم ونسق کاذمہ دا ر انہیں جانتے ہیں ۔
اس قسم کے خرافا تی عقائد مرور ایّام کے ساتھ آہستہ آہستہ ختم ہوتے گئے ، خاص کر” علمِ ہیئت “ کی ترقی سے یہ بات پاپہٴ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ ” افلاک “ (بلو ریں ،پیاز کے تہ تہ چھلکے کے مانند ) نام کی کسِی چیز کا خارجی اورظاہر ی وجُود بالکل نے نہیں ہے عالم بالا کے ستاروں کی بھی کرّہ زمین جیسی ساخت ہے ، یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کچھ بجھے ہُوئے ہیں اور دوسرے کرّوں سے نُورحاصل کرتے ہیں اور کچھ جل رہے ہیں اور نور افشانی کررہے ہیں ۔
دہر ئیے جب کبھی تلخ اور ناخوشگوار حوادث کاشکار ہواتے توزمانے کو برا بھلاکہتے ہیں ،اور تعجب کی بات ہے کہ اس قسم کے عقائد کے آثار آج کی ادبیات میں بھی پائے جاتے ہیں کہ جن میں خداپرست شعرانے ” دھو کے باز زمانے “ اور” فلک کج رفتار “ کوبُرا بھلا کہاہے اور زمانے پرنفرین کی ہے کہ اس نے ان کے ساتھ ایساکیوں کیاہے ؟ ایک مشہور شعر ہے :
فلک بہ مردم ناوان وہدزمام مراد تواہل دانش وفضل ی ہمیں گناہت بس
” فلک تونا دان اور ان پڑ ھ لوگوں کی مرادیں بر لاتاہے ، تم چونکہ اہل علم ِ وفضل ہویہی تمہارا بہت بڑا گناہ ہے “ ۔
ایک اور شاعر کہتاہے :
روز گار ِ است اینکہ گر عِزّ ت وہد گہ خار دارد چرخ باز یگر از ایں باز یچہ ہابسیار دارد
یہ ز مانہ ہے کبھی عزت عطا کرتاہے اور کبھی ذلیل و خوار کرتا ے، باز یگر فلک اس قسم کے کھیل روزانہ کھیلتا رہتاہے ۔
” دھر“ (زمانہ ) کے بارے میں بھی شعراء کا کلام مِلتاہے ۔
دہرچون نیز نگ دارد چرغ چو ن دستان کند مغزرا آ شفتہ سازد عقل راحیران کند
( زمانے کی نیر نگیاں اور فلک کی کج رفتار یاں ہی ذہن کو پریشان اور عقل کوحیران کردیتی ہیں ۔
لیکن احادیث میںپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں منقول ہے کہ :
” لا تسبو الدھرفان اللہ ھوا لدھر “ ۔
” زمانے کو گا لیاں نہ دوکیونکہ خداہی زمانہ ہے “ ( 2) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمانہ توصرف ایک لفظ ہے ،لیکن اس جہان اور عالم کامدبر اوراس کانظم ونسق چلانے والاتو خداوند تعالیٰ ہی ہے ،اگرتم نے اس کائنات اور عالم کے مدبر کو بُرابھلا کہاتو بے سوچے سمجھے خداوند قادر متعال کو برابھلا کہو گے ۔
اس بات پرشاہد ناطق ایک اورحدیث ہے ،جسے حدیث قدسی کے طورپر نقل کیاگیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
” یئوذینی ابن اٰدم یسب الدھر ، وانا الدھر ، بیدی الامر اقلب اللیل والنّھار “۔
’ ’فر زند آدم علیہ السلام جب زمانے کو گالیاں دیتاہے توا س کی یہ بات مجھے تکلیف پہنچاتی ہے کیونکہ زمانہ میں خود ہوں ، ساری چیزیں میر ے ہاتھ میں ہیں اورشب وروز کومیں ہی اُلٹ پھیر کرتاہوں ( 3) ۔
البتہ بعض جگہ ” دہر “ کامعنی ” زمانے والے “ اور ” افرادِ زمانہ “ کیاگیاہے جن کی بے وفائی کاشکوہ بزرگوں نے بھی کیاہے ،جیسے وہ مشہور شعر ہے جوحضرت امام حسین علیہ السلام سے نقل کیاگاہے کہ آپ علیہ السلام نے شب عاشور فر مایا ۔
یاد ھراف لک من خلیل کم لک بالا شراق والاصیل
من صاحب و طالب قتیل والد ھرلا یقنع بالبد یل !
” اے زمانے ! تجھ پرافسوس ہے کہ تواچھا دوست ثابت نہیں ہوا ، کتنی صُبیحں اور شا میں یوں گزرتی رہیں کہ تونے ہمار ے دوستوں اور چاہنے والوں کوقتل کیااور زمانہ بدلہ لے کر بھی راضی نہیں ہوتا “ ۔
اس طرح سے ” دہر“ کے گویا دومعنی ہُوئے .ایک تو” زمانہ اور افلاک “ جوہمیشہ دہریوں کی توجہ کامرکز رہاہے اوروہ اسے آفاقی اورانسانی زندگی پرحکمران سمجھتے تھے ،اور دوسر ے ” اہل زمانہ اور ابنائے روز گا ر “ ۔
یقینی با ت ہے کہ پہلے معنی کے لحاظ سے ” دھر“ صرف ایک خیالی چیزہی ہے اوراگر کوئی چیزہے بھی تو پھراس کی تعبیر میںغلطی کی جاتی ہے اور تمام عالمِ وجُود پر خداوندِ عالم کی حکمرانی ہے ،اسی لیے اسے ” دھر “ کا نام دیتے ہیں ،لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے ” دہر “ وہ چیزہے ، جس کی دینی پیشواؤں اور بزرگوں نے بھی ندمت کی ہے ۔
بہرحال قرآن مجید نے ان لوگوں کی فضول باتوں کاجواب ایک مختصر لیکن جامع جُملے میں دے دیا ہے ، اورقرآن مجید کے اور بھی بہت سے مقامات پریہی جواب ملتاہے ۔
ارشاد ہوتاہے : وہ جویہ کہتے ہیں کہ کوئی معاد نہیں ہے اورجہان کامبداء بھی زمانہ ہی ہے ،اپنی ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے ، بلکہ بے بنیاد وگمان ہی کرتے ہیں (وَ ما لَہُمْ بِذلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلاَّ یَظُنُّونَ ) ۔
اس سے مِلتی جُلتی گفتگو سُورہ ٴ نجم کی ۲۸ ویں آ یت میں ان لوگوں کے بارے میں ہے جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے ،ارشاد ہوتاہے :
”وَ ما لَہُمْ بِہِ مِنْ عِلْمٍ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَ إِنَّ الظَّنَّ لا یُغْنی مِنَ الْحَقِّ شَیْئا “ ۔
” وہ جو یہ بات کہتے ہیں اس پر انہیں خود کو یقین نہیں ہے وہ توصرف بے بنیاد وگمان کی پیروی کرتے ہیں اور گمان توحق سے کبھی بھی بے نیاز نہیں کرتا “ ۔
یہی تعبیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی نسبت کے بارے میں (نساء / ۱۵۷ ) اور مشرکین عرب کے بتوں کے بارے میں عقید ے سے متعلق ( یُونس / ۶ ۶ ) میں بھی بیان کی گئی ہے ۔
یہ آسان ترین دلیل ہے جو اس قسم کے لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے کہ تمہارے پاس اپنے مدعا کے ثبوت میں کومنطقی دلیل اور ناطق گواہ موجود نہیں ہے ،صرف اٹکل پچو باتوں اور تخمینوں سے کلام چلا تے رہتے ہو ۔
بعد کی آ یت میں معاد کےبارے میں ان لوگوں کے عقیدے کے سلسلے میں بہانہ تراشیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فر مایاگیاہے : اور جب ان کے سامنے ہماری کُھلی اورروشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں توان کے مقابلے میں ان کے پاس کوئی دلیل توہوتی نہیں ،سوائے اس کے کہ وہ کہیں کہ اگر تم سچّے ہوتوہمار ے باپ داد ا کو زندہ کرکے لے آؤ تاکہ وہ تمہار ی صداقت کی گواہی دیں (وَ إِذا تُتْلی عَلَیْہِمْ آیاتُنا بَیِّناتٍ ما کانَ حُجَّتَہُمْ إِلاَّ اٴَنْ قالُوا ائْتُوا بِآبائِنا إِنْ کُنْتُمْ صادِقین) (4) ۔
وہ اس بات کے مدعی تھے کہ اگر مردُوں کوزندہ کرناحق ہے تونمونے کے طورپر ہمارے بزرگوں اور آباؤ و اجداد کوزندہ کروتاکہ ہم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھیں اور یقین کریں اوران سے پوچھیں کہ مرنے کے بعد کیاہوتاہے ؟ دیکھتے ہیں ، کہ کیاوہ تمہار ی تصدیق کرتے ہیں ۔
جی ہاں ! ان کی صرف یہی دلیل تھی اور کس قدر بودی اور بے بنیاد دلیل ،کیونکہ خدوندِ تعالیٰ نے تو مردوں کے زندہ کرنے پر اپنی قدرت کی مختلف دلیلیں پیش کی ہیں ،مثلاً سب سے پہلے انسان کی مٹی سے پیدا ئش ،رحم میں نطفہ کی مختلف تبدیلیا وسیع وعریض زمین و آسمان کی آ ر ینش ،نزولِ باراں کے بعد زمینوں کازندہ ہوناجو کہ قرآنی آیات میںقیامت کے قیام پرمنہ بولتی دلیل ہے اب ان دلائل کے باوجود پھرکس بات کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟
اس کے علاوہ وہ عملی طورپر ثابت کرچکے تھے کہ بہانہ تراشی کے علاوہ ان کا کوئی مقصد ہے ہی نہیں اور بالفرض اگریہ سب کُچھ ان کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہو بھی جاتا تووہ فوراً کہہ اٹھتے کہ یہ توجادُو ہے ،جیساکہ اس قسم کے مواقع پر انہوں نے ایساکہا بھی ہے ۔
ان کی بے بنیاد گفتگو کو ” محبت “ سے تعبیر کرنا درحقیقت اس بات کی سے کنایہ ہے کہ ان کے پاس کٹ جحتی کے علاوہ اورکوئی دلیل نہیں ہے ۔
1۔ بعض مفسرین نے ایک پانچواں احتمال بھی ذ کرکیاہے اور وہ یہ کہ تناسخ (آواگون )کے عقیدہ کی طرف اشارہ ہے ،جس کے کئی بُت پرست معتقد تھے ، اور وہ کہتے تھے کہ ہم ہمیشہ مرتے رہتے ہیں اور اسی دُنیا میں دوسر ے دڈھانچوں اور جسموں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور یہیں پرزندہ رہتے ہیں ،لیکن یہ تفسیر ” وما یھلکنا الاّ الدھر “ہم آ ہنگ نہیں ہے ،کیونکہ اس جُملے میں صرف ہلاکت کی بات ہورہی ہے ( غور کیجئے گا ) ۔
2۔ تفسیر مجمع البیان ، جلد ۹،ص ۷۸۔
3۔ تفسیر قرطبی ، جلد ۹،ص ۵۰۹۱۔
4۔ مندرجہ بالا آ یت میں ” جحتھم “ ” کان “ کی خبرہے اور ” ان قالوا ... ” کان “ کا اسم ہے ۔ 
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma