محلات ، باغات اورخز انوں کوچھوڑ کرچلے گئے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
حضرت موسیٰ علیہ السلام ان مجرموں کے تاریک دلوں میں اثر پیدا کرنے کے لیے ہدایت کے تمام وسائل برو ئے کار لائے لیکن فرعو نیوں میں ان کاذرہ بھر بھی اثرنہ ہوا ، ہرایک کا د ر وازہ کھٹکھٹایالیکن کہیں کچھ شنوائی نہ ہوئی ۔
اسی لیے وہ ان سے مایُوس ہوگئے اوران پر نفر ین کے علاوہ انہیں اورکوئی رستہ دکھائی نہ دیا ، کیونکہ جس فاسد قوم کی ہدایت کی کوئی امید باقی نہ رہے ، نظامِ آفرینش میں اسے جینے کا کوئی حق حاصل نہیں ،اس کے لیے صرف ایک ہی راہ ہوتی ہے کہ اس پر عذابِ الہٰی نازل ہو کہ جواس کا ستیاناس کرکے اس کے نپاک وجُود کوصفحہ ٴ ہستی سے مٹادے ۔
اسی لیے زیر نظر پہلی آیت میں فرمایاگیا ہے : موسیٰ نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یہ مجر م اور گناہگار لوگ ہیں (فَدَعا رَبَّہُ اٴَنَّ ہؤُلاء ِ قَوْمٌ مُجْرِمُونَ) ۔
کیسی عمدہ بد و عاہے ؟ مُوسیٰ علیہ السلام یہ نہیں کہتے کہ خدا یاان کے ساتھ یہ کر اوروہ کربلکہ صرف یہی کہتے ہیں کہ یہ مجرم لو گ ہیں ان کی ہدایت کی کوئی امید باقی نہیں رہ گئی ۔
خدانے بھی ان کی دُعا قبول فرمائی اور فرعونیوں پرعذاب کے نزُول اور بنی اسرائیل کی اس عذاب سے نجات کے مقدمے کے طورپر مُوسیٰ کوحُکم دیا:تو میرے بندوں کوراتوں رات لے کرنکل جا، کیونکہ فرعون اوراس کے لشکر والے تمہار ے پیچھے آ ئیں گے (فَاٴَسْرِ بِعِبادی لَیْلاً إِنَّکُمْ مُتَّبَعُونَ ) ۔
لیکن گھبراؤ نہیں ! ضروری ہے کہ تمہارا پیچھا کریں تاکہ اس انجام کودیکھ لیں ، جس کے وہ منتظر ہیں ۔
حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کوحکم ہوتاہے کہ راتوں رات خداکے موٴ من بندوں یعنی بنی اسرائیل کوکہ جوان پرایمان لاچکے تھے اور کچھ دوسرے مصریوں کوجوایمان لانے پر آ مادہ تھے اوران کی آ واز پرلبیک کہہ چکے تھے ، اپنے ساتھ لے کر چل پڑ یں اورنیل کے ساحل پرپہنچ جائیں اورمعجزانہ طریقے پر دریائے نیل کو عبور کرکے اپنی موعود سرزمین یعنی فلسطین ،پہنچ جائیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام اوران کے پیرو کار وں نے رات کویہ سفر اختیار کیا، لیکن یہ بھی مسلّم ہے کہ اتنی بڑی تعداد کاسفراختیار کرنازیادہ عرصے تک فرعونیوں کی نگاہوں سے مخفی نہیں رہ سکتاتھا، شا یداس واقعے کوچند ہی گھنٹے گزرے ہوں گے فرعون کے جاسوسُوں نے اُسے اس عظیم واقعے یابا الفاظِ دیگر ”غلاموں کے اجتماعی فرار “کی خبر پہنچا دی ، فر عون نے حکم دیاکہ ایک عظیم لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیاجائے . دِل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام مطالب اور یہ سب کچھ مند رجہ با لاآ یت میں ایک نہا یت ہی مختصر سے جُملے میں بیان کردیاگیا ہے اور وہ ہے :
” انکم متبعون “۔
” تمہاراتعاقب کیاجائے گا “۔
جوکُچھ یہاں پر اختصار کے لیے حذف ہواہے وہ قرآن کی دوسری آ یات میںمختصر عبارتوں کے ساتھ بیا ہوا ہ ،جیسے کہ سُورہ ٴ طٰہٰکی ۷۷ ویں آ یت ہے ۔
” وَ لَقَدْ اٴَوْحَیْنا إِلی مُوسی اٴَنْ اٴَسْرِ بِعِبادی فَاضْرِبْ لَہُمْ طَریقاً فِی الْبَحْرِ یَبَساً لا تَخافُ دَرَکاً وَ لا تَخْشی“
” ہم نے مُوسیٰ کووحی کی کہ ہمار ے بندوں کوراتوں رات باہر لے جا اوران کے لیے دریامیں خشک راستہ کھول ، نہ تو تجھے دشمن کے تعاقب کاخوف ہوگا اور نہ ہی غرق ہونے کا خدشہ “۔
پھرزیرِ تفسیر آیات میں بیان فرمایاگیا ہے :جب تم سلامتی کے ساتھ دریاکو عبور کرلو تو دریاکوکھلا اورٹھہراہوا رہنے دو (وَ اتْرُکِ الْبَحْرَ رَہْوا) ۔
ان آ یات میں دریاسے مراد وہی عظیم دریائے نیل ہے ۔
مفسرین کرام اوراربابِ لغت نے ” رھو“( بروزن ” سہو“ )کے دو معانی ذکرکیے ہیں ، ایک معنی ہے ” ٹھہراہوا “ اوردوسرا ” کھُلا ہوا “اس مقام پر دونوں معانی کوجمع کردینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔
لیکن حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم کیوں دیاگیا؟تویہ ایک فطر ی سی بات ہے کہ جناب مُوسیٰ اور بنی اسرائیل تو یہ چاہتے تھے کہ جب وہ اس دریا سے گزر جائیں توفوراً دونوں طرف کاپانی آپس میں مِل جائے اور یہ خشکی کاراستہ فوراً بھرجائے ،تاکہ وہ جلدی اورسلامتی کے ساتھ لشکر ِ فرعون سے دُور ہوجائیں اور موعود سرزمین کی طرف چل پڑیں،لیکن انہیں حُکم ملتاہے کہ دریا کہ عبورکرتے وقت جلد بازی سے کام نہ لیں اور دریا کواسی حال پر رہنے دیں ،تاکہ فرعون اوراس کی فوج کاآخر ی شخص تک اس میں داخل ہو جائے ،کیونکہ نیل کی ٹھا ٹھیں مارتی ہوئی موجوں کوانکی تباہی اور بربادی کاحکم دیاجاچکا ہے ۔
اسی لیے آ یت کے آخر میں ارشاد فر مایاگیاہے : وہ سب غرق شدہ لشکر ہیں (إِنَّہُمْ جُنْدٌ مُغْرَقُون) ۔
خدا کا یہ حتمی فرمان ان مغرور اورسرکش لوگوں کے بارے میں ہے کہ انہیں نیل کے اس عظیم دریا میں غرق ہوناچایئے جواُن کی ثروت اور طاقت کاسرچشمہ ہے اورجوان کی زندگی اورحیات کاعامل ہے اسے ہی خداکے ایک فرمان کے ذریعے موت اور تباہی و بر بادی کاسبب بننا چاہیئے ۔
چنانچہ ایساہی ہوا ،جب فرعون اوراس کے لشکر والے نیل کے ساحل پرپہنچے تواس وقت تک بنی اسرائیل و دوسرے کنارے سے دریا سے عبور کرچکے تھے ، چونکہ اس قسم کے راستے کانیل کے درمیان میں نمودا ر ہونا ہر ابجد خواں بچّے کو خدا کے ایک عظیم معجزہ ہونے کی جانب متوجہ کرنے کے لیے کافی تھا لیکن غر ور اورتکبّر نے ان عقل کے اندھو ں کواس کھلّم کھلا حقیقت کوسمجھنے کی اجازت نہیںدی کہ وہ اپنی غلطی کومحسُو س کرتے اورخداکی بارگاہ میں سر سجود ہوجاتے ، شاید انہوں نے یہ سمجھ لیا تھاکہ نیل میں اس قسم کی تبدیلی بھی فرعون کے حکم سے عمل میں آ ئی ہے ، اور شاید فرعون یہی بات اپنے پیرو کاروں سے کہہ کراس در یائی راستے پر چل پڑ ااوراس کے پیرو کا روں کاآخری فردبھی اس کے پیچھے آ گیا ، وہ سب کے درمیانی حِصّے میں پہنچ گئے تو اچانک نیل کی ٹھاٹھیں مارتی موجیں بوسید ہ عمارت کی طرح یک دم ان پر آ گریں اور سب کو دریا میں غرق کردیا ۔
ایک نکتہ جوان آ یات میں انسان کی توجہ اپنی جانب مبذُول کرواتاہے وہ ان آ یات کانہایت ہی اختصار ہے اوروہ اپنے اس اختصار کے باوجودجامع بھی ہیں ،کیونکہ ان اضافی جُملوں کوحذف کردیاگیا ہے جو یاتو قرائن کی وجہ سے یاپھردوسرے جُملو ں کی وجہ سے سمجھ میں آ جاتے ہیں ،ایک مفصّل داستان کو تین آ یتوں یاتین مختصرجُملوں میں بیان کیا جارہاہے اوروہ تین جُملے صرف یہی کہہ رہے ہیں کہ :
” مُوسیٰ نے اپنے رب کی بارگاہ میں عرض کی یہ لوگ مجرم ہیں “۔
” اسے کہاگیا کہ میرے بندوں کوراتوں رات یہاں سے نکال لے جا کہ تمہارا تعاقب ہوگا “ ۔
” دریا کوکھُلااورٹھہراہواچھوڑ دے کہ وہ غرق شدہ لشکر ہیں “۔
باوجود یکہ وہ ابھی غرق نہیں ہُوئے تھے ان کے لیے ” غرق شد ہ “ کی تعبیر خداکے اس فرمان کے قطعی اورحتمی ہو نے کی طرف اشارہ ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فرعون اور فر عونیوں کے غرق ہونے کے بعد کون کون سے عبرت انگیز واقعات رُونما ہوئے ۔
قرآن کریم نے بعد کی آیات میں ان کی اس عظیم دولت کوپانچ موضوعات کی صُورت میں بیان کیا ہے جوان کی تمام زندگی کی فہرست بنتی ہے اوروہ بنی اسرائیل کومیراث کوصُورت میں ملے ۔
پہلے فر مایاگیاہے:وہ لوگ کتنے باغات اورچشمے چھوڑ کر چلے گئے (کَمْ تَرَکُوا مِنْ جَنَّاتٍ وَ عُیُون) ۔
باغات اورچشمے اُن کے تمام اموال میں زیادہ قیمتی اورنہایت اہم سرمایہ تھے کیونکہ نیل ہی کی بدولت مِصر کی سرزمین زر خیز اورثمر آور تھی ، ان چشموں سے مرا د ممکن ہے وہ چشمے ہوں جو بعض پہاڑ وں سے پُھوٹ کرزمینوں کوسیراب کیاکرتے تھے یاپھروہ چھوٹے بڑے ندی نالے ہوں جودریائے نیل سے نکالے گئے تھے اوران کے سر سبز وشاداب اور خرم و آ باد باغوں سے گزر تے تھے اوران ندی نالوں پر ” عین “ (چشمے )کااطلاق بعید نہیں ۔
پھرفر مایاگیاہے : اور کھیتیاں اور دل کش ، خوبصُورت اور گراں قیمت محلّات (وَ زُرُوعٍ وَ مَقامٍ کَریمٍ)۔
یہ دونوں بھی ان کااہم سرمایہ تھے ، عظیم ترکھیتی باڑی جس کی نیل کے پانی سے آ بپاشی کی جاتی تھی اور پُور ے مصرکا اس پردار و مدار تھا . انواع واقسام کی اجناس کی پیدا واراور دوسر ی زرعی چیزیں جن سے خود بھی استفادہ کرتے تھے اوردوسر ے مُلکو ں کو بھی برآمد کیاکرتے تھے اورپُورے مُلک کااقتصاد ی نظام اسی ز راعت کامرہون ِ منّت تھا ۔
یہی حا ل اونچے محلات اور آ بادیوں کاہے ،کیونکہ انسانی زندگی میں انہیں بھی بہت اہمیّت حاصل ہے ۔
البتہ ان محلّات کا” کریم “ اورقیمتی ہوناظا ہری نقطئہ نظر سے ہے اورخودان کے اپنے نظر یئے کا بیان ہے ، و گرنہ قرآنی منطق کی رُو سے تو اس قسم کے طاغوتی تھاٹھ باٹھ اوریادِ خداسے غافل کرنے والے مکانات اورمحلّات کی قسم کی ” کریمی “ کے حاصِل نہیں ہیں ْ
بعض مفسرین کاخیال ہے ہ ” مقام ِ کریم “ سے مراد جشن و شادمانی کی محفلیں ہیں اور وہ منبر ہیں جن پرقصیدہ خواں اور شعراء لوگ بیٹھ کرفرعون کی قصیدہ خوانی کرتے تھے ، لیکن پہلامعنی زیادہ مناسب ہے ۔
چونکہ ان کے پاس مذ کورہ چاراہم امور کے علاوہ بڑی مقدار میں حصُول ِ نعمت کے اور بھی بہت سے وسائل تھے ، جن کی طرف ایک مختصر سے جُملے میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیاہے :اور دوسری بہت سی نعمتیں جن میں عیش وعشرت کیاکرتے تھے اورناز و نعمت کے ساتھ زندگی بسر کیا کرتے تھے ( وَ نَعْمَةٍ کانُوا فیہا فاکِہینَ) ( ۱) (۲) ۔
” قومااٰخرین“ سے مراد بنی اسرائیل ہیں کیونکہ سُورہٴ شعراء کی آ یت ۵۹ میں اس بارے میں تصریح ہوچکی ہے اورلفظ ، ” ارث “ سے اس بات کی طرف اشارہ مِلتا ہے کہ وہ کسِی دکھ درد اور تکلیف اُٹھا ئے اور خونِ جگردیئے بغیر ان تمام اموال اور ثروت کے مالک بن گئے ، جس طرح انسان کوکسِی تکلیف بغیر وارثت ملتی ہے ۔
یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ اسی آ یت سے اور اس جیسی سُورہٴ شعراء کی آ یت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فرعون اور فرعون کے ساتھیوں کے غرق ہوجانے کے بعد بنی اسرائیل سرزمین مِصر کی طرف لوٹ آ ئے اور فراعنہ کی میراث کے وارث بنے اور وہیں پر اپنی حکومت قائم کی اورحالات کا رُخ بھی یہی بتاتا ہے کہ مصر میں فرعونیوں کے اقتدار اورحکومت کے خاتمے کے بعد مو سیٰ علیہ السلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے تھے وہ مُلک کسی قسم کے سیاسی خلفشار کا شکار ہوجائے ۔
لیکن یہ بات قرآن مجید کی ا ن تصریحات کے منافی نہیں ہے جن میں بتایاگیا ہے ، جن میں بتاگیاہے کہ بنی اسرائیل،فرعون والوں کے چنگل سے آزاد ہوجانے کے بعد فلسطین کی موعود وسرزمین کی طرف چل دیئے ، جس کے واقعا ت بھی قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ مذکورہیں، کیونکہ اس بات کاامکان ہے کہ ان میں سے کچُھ لوگ جن کے قبضے میںمِصر کی زمین آچکی تھی ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نمائندوں کی حیثیت سے وہیں پررہ گئے ہوں اور دوسرے بہت سے لوگ راہی دیارِ فلسطین ہوگئے ہوں ۔
( اس سلسلے میںمزید تفصیل کے لیے سُورہٴ شعراء کی ۵۹ ویں آ یت کے ذیل میں تفسیر نمونہ کی ۵ ۱ دیں جِلد کا مطالعہ فرمائیں ) ۔
اسی سلسلے کی آخری آ یت میں فر مایاگیاہے : نہ توآسمان نے ان پر گریہ کیااورنہ ہی زمین نے اور نہ ہی انہیں بلاؤں کے نازل ہونے کے وقت کوئی مہلت دی گئی (فَما بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّماء ُ وَ الْاٴَرْضُ وَ ما کانُوا مُنْظَرینَ) ۔
ان پر آ سمان و زمین کے گر یہ نہ کرنے سے شاید ان کی حقارت ، اوران کے لیے کسی دوست اورہمدرد کانہ ہونا مراد ہے کیونکہ عربوں یہ معمُول ہے کہ جب کسی پر واقع ہونے والی مصیبت کے موقع پر اس کے مقام کی عظمت اوراہمیّت کو جتلا چاہیں توکہتے ہیں ” اس پر آسمان و زمین روئے اوراس کے فقدار پرسُورج اور چاند تاریک ہوگئے “۔
یہ احتما ل بھی ذکر کیاگیاہے کہ اس سے مُراد ” زمین و آسمان والوں کا گریہ ہے “ کیونکہ وہ مومنین اورخدا کے مقر بین کے لیے گر یہ کرتے ہیں نہ کہ فرعونیوں جیسے جابروں کے لیے ۔
بعض مفسرین نے کہاہے کہ آسمان و زمین کا گر یہ حقیقی گریہ ہوتاہے جو ایک قسم کی تبدیل اورمخصوص سُرخی کی صُورت میںظاہر ہوتاہے (طلوع وغروب کے موقع پر رو نما ہونے والی سُرخ کے علاوہ ) (۴) ۔
۔
جیساکہ ایک روایت میں ہے :
” لما قتل الحسین بن علی بن ابی طالب بکت السّمآ ء علیہ و بکا ئھا حمرة اطرافھا “ ۔
” جب حسین علیہ السلام بن علی بن ابی طالب کوشہید کردیاگیا توآسمان نے آ پ پر گریہ کیا اور یہ روناایک خاص سُرخ کی صُور ت میں تھا جواس کے کناروں پر نمایاں ہوئی ۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ایک روایت میں ہے ۔
” بکت النسماء علی یحییٰ بن زکر یا و علی الحسین بن علی (علیھماالسلام ) اربعین صباحاً ولم تیک الا علیھما ،قُلت وما بکاءِ ھا ؟ قال کانت تطلع حمراء وتغیب حمراء “ ۔
آسمان یحییٰ بن زکر یا علیہ السلام (جواپنے زمانے ک طاغوت کے ہاتھوں نہایت ہی دردناک صورتِ حال شہید کے گئے ) اور حسین بن علی علیہماالسلام پر چالیس دن روتارہا اوران دونو ں کے علاوہ کسی اورپر نہیں رویا ،راوی نے کہا: میں نے امام سے پوچھا کہ آسمان کارونا کِس قسم کا تھا ؟ توامام نے فرمایا: طلُوع اورغروبِ آفتاب کے وقت ایک خاص سُرخی آسمان پر ظاہر ہوجایا کر تی تھی (۵) ۔
لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے منقُول ایک اور حدیث ہے :
” ما من موٴ من الاولہ باب یصعد منہ عملہ و باب ینزل منہ رزقہ فاذ امات بکیا علیہ “ ۔
” کوئی مومن ایسانہیں ہے جس کے لیے آسمان میں ایک دروازہ نہ ہو کہ جس سے اس کے اعمال اوپر جاتے ہیں اورایک دروازہ ایساہے جس سے اس کا رزق نازل ہوتاہے جب وہ مر جاتاہے تویہ دونوں دروازے اس پر گِر یہ کرتے ہیں ( ۶) ۔

ان روایات میں کسی قسم کاباہمی تضاد نہیں ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام اورحضرت یحییٰ بن زکر یا کی شہادت کے بارے میں مسئلے کی عمومی حیثیت ہے کہ تمام آسمانوں نے ان پر گر یہ کیا، جب کہ آخر ی روایت ایک خاص اورمحدُود پہلو کی نشاندہی کرتی ہے ( ۷) ۔
بہرصُورت ان تفاسیر کاآپس میں کوئی تضاد نہیں ہے اور سب آیت کے مفہوم میںجمع ہوسکتی ہیں ۔
ہاں البتہ ! یہ بات یقینی ہے کہ ظالموں اور تباہ کاروں کی موت پر نہ توچَشمِ فلک کو رونا آ یااورنہ ہی سُورج پژ مردہ ہوٴا ، کیونکہ وہ ایسے خبیث افراد تھے گو یاان کا کائنات اور عالم بشریت کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا ۔
جب عالم سے یہ بیگانے دھتکا ر یئے گئے توکسی کو بھی ان کی جُدائی کاصدمہ نہ ہوٴا ، نہ تورُوئے زمین پر اور نہ ہی افلاک کی بلندیوں پر اور نہ ہی انسانی دِلوں کی گہرائی میں ، اسی لیے کسی نے بھی ان کی مَوت پرایک آنسُو تک نہیں بہایا ۔
ہم ان آ یات کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام کی ایک روایت نقل کرکے اپنی بات ختم کرتے ہیں ، روایت میں ہے کہ جب امیر امومنین علیہ السلام مدائن سے گز ررہے تھے توآپ کا گُزر کسریٰ ( نوشیر واں اور سا سانی باد شاہوں کے ) آثار سے ہوا ، آپ نے ان آثار کامشاہدہ فرمایا جوگرنے کے بالکل وقریب تھے ، توآپ کے ہم رکاب لوگوں میں سے ایک شخص نے عبرت کے عنوان سے یہ شعر پڑھا :
جرت الریاح علی رسوم د یار ھم فکاٴ نھم کانواعلی ععیاد
’ ’ ہوائیں ان کی سرزمین کے باقی ماندہ آثار چلنے لگیں (اوران کے محلّا ت سے سوائے ہواکی سنسنا ہٹ کے اور کُچھ سُنائی نہ دیا) گو یاان سب کی ایک وعدہ گاہ تھی جس کی طرف وہ روانہ ہو چکے ہیں “۔
حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے فر مایا تم نے اس شعر کے بجائے یہ آ یت کیوں نہیں تلاوت کی :
” کم ترکوامن جنات وعیون وزروع و مقام کریم ونعمة کانُوا فیھا فا کھین ... فما بکت علیھم السّماء والارض و ما کانُوا منظر ین ( ۸) ۔
۱۔ ” نَعْمَةٍ “ (نون پر زبر کے ساتھ ) کامعنی حصُولِ نعمت ہے ،اوران کی زیر کے ساتھ ہو تومعنی نعمت کا بھیجنا ہے ، یہ تصریح بیشتر مفسرین اور اربابِ لُغت کی ہے ، جب کہ دوسر ے مفسرین کانظریہ ہے کہ دونوں کاایک ہی ہی معنی ہے اور ہرقسم کااہم فائدہ اس کے مفہوم میں شامل ہے ۔
۲۔ ”فاکِہینَ “ کامعنی کبھی تو ” فواکہ “ یعنی پھلوں سے استفادہ کرنے کے معنی میں آ تاہے اور کبھی فکاہی اوردل لگی کی باتوں کے معنی میں اور کبھی کبھی ہر قسم کی لذّت اُٹھا نے اور نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے ، البتہ آ خری معنی دوسرے تمام معنوں سے زیادہ جامع ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گیاہے : جی ہاں ! ان کے ساتھ ایساہی ہوا اورہم نے فرعون والوں کی تمام دولت وسلطنت اور اموال کاوارث دوسرے لوگوں کو بنادیا (کَذلِکَ وَ اٴَوْرَثْناہا قَوْماً آخَرینَ ) (۳) ۔
۳۔ ”کَذلِکَ “ مقتدائے محذوف کی خبرہے اوراس کی تقدیر یُوں ہے ،الامر کذالک “ اوراس طرح کے الفاظِ تاکید کے لیے استعمال ہوتے ہیں ،بعض مفسرین نے اس کی ترکیب کے متعلق اور بھی کئی احتمالات کاذکر کیاہے ۔
۴۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۹، ص ۶۵ ( اسی آ یت کے ذیل میں )
۵۔ تفسیر مجمع البیان ، جلد ۹ ،ص ۶۸ ۔( اسی آ یت کے ذیل میں) ۔
۶۔ تفسیرمجمع البیان ، جلد ۹، ص ۶۸۔
۷۔ تفسیر ” درمنثور “ میں ایک حدیث بیان کی گئی ہے ، جس میں ان روایات کوجمع کی صُورت میں پیش کیاگیاہے ( منقول از تفسیر المیزان ، جلد ۸ ۱ ،ص ۱۵۱) ۔
۸۔ سفینة البحار، جلد ۲، ص ۵۳۱ ( مادہ مو ن ) ۳۰۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma