نکته:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

۱۔ نبوّت سے پہلے آنحضرت (ص) کس دین پر تھے ؟:

اس بات میں توشک کی گنجائش ہی نہیں کہ بعثت سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ تو کسی بت کو سجدہ کیااور نہ ہی توحید کی راہ سے سرموانحراف کیا . لیکن سوا ل یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ کس دین پر کار بندتھے ؟ تو اس بار ے میں علماء کی آ راء مختلف ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دین مسیح علیہ السلام پر تھے،کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی بعثت سے پہلے مستقل،قانونی اور غیر منسوخ دین تھا وہ حضرت عیسٰی مسیح علیہ السلام کادین ہی تھا ۔
بعض علماء آپ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دین ابراہیمی پرکاربند سمجھتے ہیں.کیونکہ جب ابراہیم شیخ الا نبیاء اوررابو الانبیاء تھے اورقرآن کی بعض آیا ت میں بھی دین اسلام کادین ابراہیم کے نا م سے تعارف کروایاگیاہے . جیساکہ سورہٴ حج کی ۷۸ ویں آیت میں ہے۔
مِلَّةَ اٴَبیکُمْ إِبْراہیمَ
بعض علماء نے اس بار ے میں اپنی لاعلمی کااظہار کیاہے اور دلیل یہ دی ہے کہ آپ یقینا کسی دین پر توکار بند تھے لیکن یہ نہیں معلوم کہ وہ کونسا دین تھا ؟
اگر چہ ان احتمالات میں سے ہر ایک کی اپنی جگہ پردلیل تو ہے لیکن مسلّم کوئی بھی نہیں . البتہ ان تینوں اقوال سے ہٹ کر ایک چوتھا احتمال زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے اور وہ یہ کہ ” آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) خداوند عالم کی طرف سے اپنے لئے ایک خاص پرو گرام رکھتے تھے،اوراسی پرعمل پیراہ تھے اوردرحقیقت یہ ان کی ذا ت کے لیے مخصوص ایک دین تھا،جب تک کہ اسلام نازل نہیں ہو گیا۔
اس قول پروہ حدیث شاہد ہے جونہج البلاغہ میں موجود ہے اور ہم بھی اسے اوپر بیان کرچکے ہیں کہ ” جس وقت سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی دودھ بڑھائی ہوئی اللہ نے اپنے فر شتو ں میں سے ایک عظیم فرشتے کو آپ کے ساتھ ملادیا،جوشب و روز مکارم اخلاق اور نیک راستوں پرآ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کوا پنے ساتھ رکھتا “ ۔
اس فرشتے کی ماموریت رسو ل اللہ کے لیے مخصوص پر و گرام کی دلیل ہے۔
اس قول کاایک اور گواہ یہ ہے کہ کسی بھی تاریخی میں نہیں ملتاکہ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود یانصاریٰ یاکسی اور مذہب کے عبادت خانوں میں عبادت کے لیے تشریف لے گئے ہوں ، نہ تو کفار کے ساتھ مل کرکبھی کسی بت کانے میں گئے اور نہ ہی اہل کتاب کے ساتھ کسی عبادت خانے میں ! بلکہ ہمیشہ راہ توحید پر گامزن رہے اور آپ اخلاقی اصولوں اورعبادت الہٰی کے سخت پانبدتھے ۔
بحاالانوار میں علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ کے مطابق،بہت سی اسلامی روایات اسبات کاپتہ دیتی ہیں کہ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اپنی عمر کے آغاز ہی سے روح القدس کے ساتھ موٴ ید تھے اوراس تائید کے ساتھ یقینا وہ روح اللہ کی راہنمائی کے مطابق عمل کیاکرتے تھے ( 1).
علامہ مجلسی ذاتی طورپر اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) رسالت کے مرتبے پرفائز ہونے سے پہلے مقام نبوت پر فائز تھے،کبھی توفرشتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے باتیں کرتے تھے اور کبھی آ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان کی آوازسناکرتے تھے اور کبھی سچے خواب کی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پرخدائی الہام ہوا کرتا تھا.چالیس سال کے بعد اعلان رسالت کاحکم ہوا اوراسلام وقرآن باقاعدہ طورپر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پرنازل ہوئے.علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ نے اپنے اس مد عاپر چھ دلائل ذکرکئے ہیں جن میں سے کچھ ان دلائل کے ساتھ ملتے جلتے اور ہم آہنگ ہیں جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ ( مز یدتفصیل کے لیے بحارالانوار جلد ۱۸ ،ص ۲۷۷ ملاحظہ فرمائیں )
اگرچہ اس سوال کاجواب تو کسی حد تک ہم آیت کی تفسیر کے دوران میں ہی دے چکے ہیں لیکن پھر بھی مزید وضاحت کے طورپر اس سوال پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں:
اس آیت سے مراد یہ ہے کہ نزول قرآن واسلام سے پہلے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس دین کی تفصیلات اورقرآن مجید کے مضامین سے باخبر نہیں تھے ۔
لیکن جہاں تک ” ایمان “ کاتعلق ہے چونکہ ” کتاب“ کے بعد ذکر ہوا ہے اوران جملوں کوپیش نظررکھتے ہوئے جوآیت میں اس کے بعدآئے ہیں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد آسمانی کتاب کے مضامین پرایمان ہے نہ کہ مطلقاً ایمان ، لہذا مذ کورہ گفتگواوراس آیت کے درمیان تضاد پیدا نہیں ہوتا.اور نہ ہی ان دل کے اندھے لوگوں کے لیے کوئی دستاویز ثابت ہوسکتی ہے جوپیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بار ے میں قبل ازبعثت مطلقاً ایمان کی نفیکرناچاہتے ہیں اور تاریخی حقائق کوپس پشت ڈالناچاہتے ہیں۔
بعض مفسرین نے اس سوال کے کئے اورجواب بھی دیئے ہیں،جن میں سے کچھ جواب یہ ہیں :
الف :ایمان سے مراد صاف تصدیق اورعقائد ہی نہیں ہے بلکہ اسلامی تعبیرات کے مطابق مجموعی طور پر دل سے اعتقاد ،زبان سے اقرار اوراعضاء سے عمل کا نام ہے۔
ب:ایمان سے مراد تو حید ورسالت پراعتقاد ہے اور ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ) قبل ازاعلان رسالت توحید پرست تو تھے لیکن ابھی تک انہیں اپنی رسالت پرایمان نہ تھا ۔
ج: اس سے مراد ارکان ایمان کاوہ حصہ ہے جن تک انسان کی رسائی عقلی دلائل کے ساتھ نہیں ہوتی اور صرف نقلی دلائل سے انہیں تسلیم کیا جاسکتاہے ( جیسے معاد کی بہت سی خصو صیات )
د: اس آیت میں ایک محذوف موجد ہے جو اس طرح ہے ” ماکنت تدری کیف تد عو الخلق الی الایمان “ ( تجھے معلوم نہیں تھا کہ لوگوں کو ایما ن کی دعوت کیسے دے ( 2).
لیکن ہمار ے نزیک تمام جوابات سے زیادہ مناسب اورآیت کے مفہوم سے زیادہ ہم آہنگ وہی پہلا جواب ہے۔

1۔ بحا رالا نوار، جلد ۱۸ ،ص ۲۸۸۔
2۔ ” آلوسی “ نے تفسیر روح المعانی ، جلد ۲۵ ،ص ۵۵ میں کچھ اوراحتمالات بھی کیا ہے لیکن چونکہ ان کی زیادہ اہمیت نہیں ہے لہٰذا یہاں پر وہ ذکر نہیں کئے گئے۔

۳۔ ایک ادبی نکتہ :

” لکن جعلنا ہ نوراً...“ (لیکن ہم نے اسے نور بنا یاہے ) کے جملے میں ضمیر کامرجع کیاہے ؟ اس بار ے میں مختلف اقوال ملتے ہیں . بعض مفسرین نے کہا ہے اس سے مراد قرآن مجید ہے لیکن یہ احتمال بھی ہے ک اس نورسے مراد ، نورایمان ہے جوخدا کا نور ہے۔
لیکن اندونوں میں سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس سے مراد ” قرآن “ اور ” ایمان “ دونوں میں ہیں ، اورضمیر ان دونوں کی طرف لوٹ رہی ہے اور چونکہ یہ دونوں ایک حقیقت پر ہی جاکر ختم ہوتے ہیں لہذااس مقام پر مفرد کی ضمیر لائی جا سکتی ہے۔
پروردگارا ! ہمارے دلوں کو ہمیشہ کے لیے نورا یمان کے ساتھ منوّر فرمااور ہمیں اس طرف ہدایت فرما جہاں خیر اور سعادت ہے۔
بارالہٰا ! ہمیں اس قدربلند ظرفی اورصبر فرما کہ نعمتوں کے موقع پر سرکشی نہ کریں اورمصائب و مشکلات میں ہمت نہ ہاردیں۔
خداوند ا ! جس دن ظالم اور مستکبر لوگ حیران وسر گردان اور بغیر کسی جائے پناہ کے ٹھو کریں کھاتے پھریں اورموٴ منین تیری پناہ اورحمایت میں محفوظ مامون ہوںگے ہمیں مخلص موٴ منین کی صف میں قرار دینا۔
امین یارب اللعالمین
 
تفسیر نمونہ کی بیسویں جلد ختم ہوئی ۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma