برائی کو اچھائی کے ذریعے دور کیجئے.

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5
گزشتہ آیات میں ان افراد کی با ت ہوئی تھی جولوگوں کو قرآنی آیات سننے سے روکتے تھے ، یعنی گمراہی اورضلا لت کی دعوت دینے والوں سے متعلق گفتگو تھی۔
لیکن ان آیات میں اس کے بالکل رعکس ان لوگوں کاتذکرہ ہے جن لی گفتگو بہترین ہے ، ارشاد ہوتاہے : کس کی گفتگو اس شخص سے بہتر ہوسکتی ہے جوخداکی طرف دعوت دے اور نیک اعمال بجالائے اورکہے کہ میں مسلمانوں سے ہوں اور مکمل طور اسلام کوقبول کرچکاہوں (وَ مَنْ اٴَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعا إِلَی اللَّہِ وَ عَمِلَ صالِحاً وَ قالَ إِنَّنی مِنَ الْمُسْلِمینَ )۔ 
اگر چہ آیت استفہام کی صورت میں ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ استفہام انکار ی ہے . یعنی کسی بھی شخص کی بات ان لوگوں سے بہتر نہیں ہوسکتی جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور توحید کی دعوت دیتے ہیں . وہی مبلغین جواپنے اعمال صالح کے ذریعے اپنی زبان تبلیغ کاعملی ثبوط پیش کرتے ہیں اورالسلام پر اعتقاد رکھ کراورحق کے سامنے سرجھکا کراپنے نیک اعمال پر مہرتو ثیق ثبت کرتے ہیں۔
یہ آیت بڑی صراحت کے ساتھ ان لوگوں کوبہترین گفتگو کرنے والابتارہی ہے جن میں یہ تین صفات پائے جاتے ہوں :
(الف) خداکی طرف دعوت
( ب ) عمل صالح کی ادائیگی ،اور
( ج ) حق کے سامنے سر تسلیم خم کردینا
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں نے ایمان کے تین مشہور ارکان ( زبان کے ساتھ اقرار،ارکان کے ساتھ عمل اور دل کے ساتھ ایمان ) کے علاوہ چوتھے رکن کو بھی مضبوطی سے پکڑ اہوا ہے اوروہ ہے حق کی تبلیغ اوراس کی نشر و اشاعت کہ جس سے دینی بنیادوں پردلیل قائم کی جاتی ہے اورخدا کے بندوں کے دلوں سے شک وشبہ کے آثار و نشا نات کومٹایا جاتاہے . ان چار اوصاف کے حامل مبلغین کائنات کے بہترین مبلغ ہوتے ہیں۔
اگر چہ کچھ مفسرین نے ان اوصاف کوپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورائمہ اطہار علیہم السلام کے ساتھ مختص سمجھا ہے یا بعض مفسرین نے کہاہے کہ یہ آیت موٴ ذنین کے لیے مخصوص ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ آیت کامفہوم وسیع ہے جوان سب منادیان توحید کے بار ے میں ہے جن میں یہ صفات پائی جاتی ہیں. اگرچہ کہ اس کابہترین مصداق پیغمبر السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے (خاص کہ آیت کے نزول کے زمانے کوپیش نظررکھتے ہوئے ) پھر ائمہ اطہار علیہم السلام اوران کے بعد تمام علماء دانشور اورمجاہدین راہ حق میں اور وہ لوگ بھی ہیں جوامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے ہیں اورہرطبقے کے مبلغین اسلام ہیں .اور یہ ایسے سب لوگوں کے لیے ایک عظیم خوشخبری اور بے مثال اعزاز ہے۔
کچھ مفسرین نے کہاہے کہ اس آیت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے موٴ ذن جناب بلال حبشی کی مدح وستائش ہے تویہ بھی اس لیے ہے کہ انہوں نے نہایت تاریک اوروحشتناک دورمیں توحید کانغمہ الا پااور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان وقف کردی. اورراسخ ایمان ، بے نظیر استقامت ،اعمال صالح اورصحیح اسلامی خطوط پرعمل پیراہوکران اوصاف کی تکمیل کی۔
” وقال اننی من المسلمین “ کی دوطرح سے تفسیر کی گئی ہے۔
پہلی کہ یہ یہاں پر” قال “ ”قول“ ( بمعنی اعتقاد ) کے مادہ سے مشتق ہے یعنی اس کااسلام پربختہ عقیدہ ہے . اور دوسری یہ کہ یہاں پر” قو ل “ بات کرنے کے معنی میں ہے یعنی وہ بڑے فخرسے اورعلی الاعلان کہتاہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
پہلامعنی زیادہ مناسب نظر آتاہے ہرچند کہ دونوں معانی کوآیت کے مفہوم میں جمع کرنے کاامکان بھی ہے۔
خداکی طرف دعوت دینے اورخدا کی طرف بلانے والوں کے اوصاف کوبیان کرنے کے بعد اس دعوت کی روش کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے : نیکی اور بد برابرنہیں ہیں (وَ لا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لاَ السَّیِّئَةُ ) (۱)۔ 
جبکہ مخا لفین حق کے پاس بدگوئی ، جھوٹ ، مذاق ،مسخرہ پن اورانواع واقسام کے مظالم کے علاوہ اورکوئی ہتھیار نہیں ہے اوران کے مقابلے میں تمہاراہتھیار پاکیزگی ، تقویٰ ،قول برحق اورمحبت ونرمی ہوناچاہیئے۔
یقینا ضلالت اور گمراہی کے مکتب ان ہتھیاروں کے علاوہ کسی اور چیز کواچھانہیں سمجھتے اورحق کامکتب صرف مذکورہ ذرائع کو ہی بروئے کار لاتاہے۔
اگرچہ ” حسنة “ اور” سیّئة “ کامفہوم وسیع ہے اور ہرقسم کی نیکیاں ،خوبیاں ، اچھا ئیاں اور برکتیں ”حسنہ“ کے مفہوم میں آتی ہیں اورا سی طرح ہر قسم کی لغزشیں ، برائیاں گمراہیاں اورعذاب ” سیّئہ “ کے مفہوم میں ہیں لیکن زیر نظر آیت میں”حسنہ “ اور سیّئہ “ سے وہی مراد ہے جوتبلیغی طریقہ کار سے متعلق ہے۔
البتہ بعض مفسرین نے ”حسنہ “ کی اسلامی اور توحید سے اور’ ’ سیّہٴ “ کی کفر اور شرک سے تفسیر کی ہے جبکہ بعض نے ”حسنہ“ سے اعمال صالحہ اور ” سیّہٴ “ کی اعمال قبیحہ مرادلی ہے ، بعض نے کہا ہے کہ ” حسنہ “ سے انسان کے صبر ،حلم ، اور عفودبخشش جیسی بلندصفات اور” سیّہٴ “ سے غیظ و
غضب ،جہل ونادانی ،ترشروئی وبد مزاجی ،بدلہ اورانتقام جیسی پست صفات مراد ہیں۔
لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔
حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ علیہ السلام نےمندرجہ بالاآیت کی تفسیر میں فرمایا :
الحسنة التقیة والسیّئة الاذاحة
حسنہ تقیہ ہے اور سیّہ ٴ بات کو فاش کردیناہے۔
البتہ یہ حدیث ایسے موقع کے لیے ہے جب عقیدے کے اظہار کی وجہ سے تمام تونائیاں ضائع اورتمام بنے بنا ئے پرو گرام نقش برآپ ہونے کااندیشہ ہو اور مقاصد حاصل نہ ہوسکیں (۲)۔ 
پھر اس بات کی تکمیل کے طورپر فرمایاگیا ہے : بہترطریقہ کار کے ذ ریعے برائی کاجواب دے اوراسے دور کر (ادْفَعْ بِالَّتی ہِیَ اٴَحْسَنُ )۔ 
حق کے ذریعے باطل کودفع کرو،حلم اورحسنِ خلق کے ذیعے جہالت اور بد مزاجی کا، اور عفو ود ر گز رسے ان کی سختیوں کاجواب دو.یاد رکھو کبھی بھی برائی سے اوربدی کا بدی سے جواب نہ دو. کیونکہ یہ منتقم مزاج لوگوں کاطریقہ کار ہوتاہے جس سے گمراہ ، سرکش اورضدی مزاج افراد کی سختی میں اوراضافہ ہوجاتاہے۔
آیت کے آخر میں اس منصوبے کے عمیق فلسفے کوایک مختصر سے جملے میں بیان فر ماتے ہوئے کہاگیاہے : اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ سخت سے سخت دشمن بھی سچے اور پکے دوست بن جائیں گے (فَإِذَا الَّذی بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَداوَةٌ کَاٴَنَّہُ وَلِیٌّ حَمیمٌ )۔ 
قرآن مجید نے اسی چیز کوسورہٴ مومنین کی آیت ۹۶ میں ایک اورصورت میں بیان فرمایا ہے :
ادفع بالتی ھی احسن السیّئة
سب سے اہم ، سب سے مشکل اور سب سے فائدہ مند طریقہ تبلیغ کاطریقہ کار ہے خاص کر جب یہ تبلیغ نادان اور ضدی مزاج دشمن کوکی جائے اور ماہرین نفسیات کی آخری تحقیقا ت بھی یہی کہتی ہیں۔
کیونکہ جو شخص برائی کرتاہے اسے اس جیسے سلوک کاانتظار رہتاہے خاص کربد قما ش لوگ چو نکہ خود ایسے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک برائی کا کئی برائیوں سے جواب دیتے ہیں . جب وہ دیکھتے ہیں کہ فریق مخالف نہ صرف برائی کاجوا ب برائی سے نہیں دے رہا بلکہ اچھا ئی بھی کر رہاہے تواس وقت ان کے اندرایک طوفان موجزن ہوجاتاہے اوران کاضمیر زبردست دباؤ تلے آکر بیدار ہو جاتاہے ان کے اندرانقلاب بر پا ہوجاتاہے ، وہ شرمسار ہوکر اپنے آپ کوحقیر سمجھنے لگتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے مخالف کی عظمت کے تہ دل سے قائل ہوجاتے ہیں . ایسے موقع پر کینے اور عداوتیں دل سے کافور ہوجاتی ہیں اور محبت اور گرم جوشی ان کی جگہ لے لیتی ہے۔
ظاہرہے کہ یہ ایک غالب قانون ہے نہ کہ دائمی،کیونکہ ہردور میں ایک اقلیت ایسی چلی آرہی ہے جواس طریقہ کار سے ناجائز مفاداٹھاتی ہے اورایسے لوگوں کے منہ پر جب تک زور دار طمانچے رسیدنہ کئے جائیں وہ انسان نہیں بنتے اوراپنی بری حرکتوں سے باز نہیں آتے . البتہ ایسے لوگوں کی تعداد ہمیشہ بہت کم ہوتی ہے اوران سے سختی کے ساتھ نمٹنا چا ہیے .لیکن یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایسے افرادہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں جبکہ اکثریت پرحکم فرما قانون ” برائی کواچھائی سے دور کرنے “ کاہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورمعصوم پیشواؤں نے ہمیشہ قرآن مجید کی اس بلندمرتبہ روش سے استفادہ کیاہے .مثال کے طورپر فتح مکہ کے موقع پرصرف دشمنوں ہی کونہیں بلکہ دوستوں کوبھی یہی توقع تھی کہ آج مسلمان اپنے مخالفوں سے سخت انتقام لیں گے . آج مشرک ،کفر اورانفاق کی سرزمین اور بے رحم وسنگد ل دشمنوں کے وطن میں خون کی ندیاں بہ جائیں گی . یہاں تک کہ سپا ہ السلام کے ایک علمبر دار نے توابوسفیان کی طرف منہ کرکے یہ نعرہ لگانا شروع کردیاتھا کہ
الیو م یوم الملحمة ،الیوم تسبی الحر مة ، الیوم اذلی اللہ قریشا ً۔
آج انتقام لینے کادن ہے،آج دشمن کے جان ومال کااحترام ختم ہوجانے کا دن ہے ، آج قریش کی ذلت اورخواری کادن ہے۔
لیکن پیغمبر السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اذھبو افانتم الطلقاء
جاؤ ! کہ تم آزادہو ۔
کہہ رسب کو معاف کردیا . ابوسفیان کی طرف منہ کرکے انتقام پرمبنی تعرے کواس نعر ے میں تبدیل کردیا :
الیوم یوم المرحمة ،الیوم العزاللہ قریشاً
آج رحمت کادن ہے ،آج قریش کی عزت کا دن ہے ( ۳)۔  
اسی طرز عمل نے مشرکین مکہ کے دل کی دنیامیں ایسا طوفان برپا کردیاکہ قرآن کے بقول ” ید خلون فی دین اللہ افواجاً“ (نصر . ۲) وہ گروہ درگروہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگ گئے اور دل جان سے اسلام کو قبول کر لی۔
لیکن تاریخ اسلام کے مطابق اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند لوگوں کانام لے کر انہیں اس عام معانی سے مستثنٰی کردیا، کیونکہ وہ خطر ناک مجرم اورناقابل ِ معافی افراد تھے . جنہیں معاف فرمایا گیا ان سے مخا طب ہوکرآپ نے ارشاد فرمایا :
میں تمہارے بار ے میں وہی کہوں گا جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہاتھا جنہوں نے ان پر ظلم کیاتھا ۔
لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الراحمین
آج تم پر کسی قسم کی کوئی ملامت نہیں ہے خدا تمہیں معاف کرد ے کہ وہی ارحم الرحمین ہے ( ۴) ( یوسف . ۲۹)۔  
” ولی “ یہاں پردوست کے معنی میں ہے اور ” حمیم “ دراصل گرم اور جلا دینے والے پانی کوکہتے ہیں .بدن کے پسینے کو” حمیم“ اس کی گرمی کی وجہ سے کہاجاتاہے ارو ” حمام “ کو بھی اسی لیے حمام کہتے ہیں اورمحبت سے معمور اور گرم جوش کوبھی ” حمیم“ کہاجاتاہے اورآیت میں بھی یہی معنی مراد ہے۔
یہ بات بھی قابل وجہ ہے کہ خدافرماتاہے ” کانہّ ولی حمیم“ ( گو یاوہ ایک گرم جو ش اورپکا درست ہے ) یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر وہ صحیح معنوں میں دوست نہ بھی ہو توکم ازکم بظاہر ایساضر ورہوگا ۔
اور چونکہ مخالفین سے اس قسم کارویہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا اورایسے مقام تک پہنچنا گہری اخلاقی خود سازی کامر ہون منت ہوتاہے لہذا بعد کی آیت میں دشمنوں سے اس قسم کےک رویے اورطریقہ کار کی اخلاقی بنیادوں کوقرآن مختصر اور بامعنی عبارت میں ارشاد فرماتاہے:اس خصلت کوصابراور صاحبان استقامت لوگوں کے سواکوئی نہیں پہنچ سکتا ۔ (وَ ما یُلَقَّاہا إِلاَّ الَّذینَ صَبَرُوا )(۵)۔
” اور اس عظیم خلق وخصلت کوکوئی نہیں پہنچ سکتاسوائے ان لوگوں کے جو ایمان ، تقویٰ اوراخلاق کے عظیم حصّہ سے بہر ہ مند ہیں “ (وَ ما یُلَقَّاہا إِلاَّ ذُو حَظٍّ عَظیم)۔ 
جی ہاں ! انسان کومدتوں سازی کرناچاہیے تاکہ وہ اپنے غیظ وغضب اورغصّے پر قابو پاسکے . ایمان اورتقویٰ کے پر تو میں اس کی روح کو اس قدر وسیع او ر قوع ہونا چاہیئے کہ آسانی کے ساتھ دشمن کی اذیتوں او ر تکلیفوں سے متا ء ثر نہ ہوپائے ، اور اس کے انتقام کی آگ فوراً نہ بھڑک اٹھے ، اس کام کے لیے باعظمت روح اور بہت کشادہ سینے اور دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے . پھر کہیں جاکر انسان کمال اورانسانیت کے اس مرحلے ت پہنچتا ہے کہ برائیوں کاجواب نیکیوں سے دیتاہے اورراہ خدا اپنے مقدس مقاصد تک پہنچنے کے لیے عفوو در گزر کے مراحل سے بھی آگے بڑھ جاتاہے اور ” برائی کاجواب اچھائی “ کے مقام پر جاپہنچتاہے:
اس مقام پر ایک بار پھر’صبر “ کامسئلہ درپیش ہے کہ جو اعلیٰ اخلاق کے تمام ملکات کی بنیاد ہے ( ۶)۔ 
اور چونکہ اس عظیم مقصد تک پہنچنے کے لیے بہت سی ر کاوٹیں درپیش ہوتی ہیں اور شیطانی وسوسے بھی مختلف صورتوں میں انسان کے آڑ ے آتے ہیں لہذا زیرتفسیرآیات میں سے آخری آیت میں نمونے کی حیثیت سے پیغمبر السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کومخاطب کرکے فرمایاگیا ہے : جب بھی اسراہ میں تجھے شیطانی وسوسے درپیش ہوں تو متوجہ رہ اوران کے سامنے ڈٹ جا، خود کوخدا کے سپرد کردے اوراس کی مہر بانی کے سائے میں پناہ لے کیونکہ وہ سننے والا اورصاحب علم ہے۔
(وَ إِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمیعُ الْعَلیمُ )( ۷)۔ 
” نزغ “ ( بروزن ”نزد“ کامعنی ” کسی کام میں فساد کی غرض سے ہاتھ ڈالنا ہے ، اسی لیے شیطانی وسوسوں کو” نزغ “ کہاجاتاہے اوریہ درحقیقت اس لیے ہے کہ ایسے مواقع پر عام طور پر کچھ خیالات ذہن میں اٹھتے ہیں اور یانام نہاد مصلحت اندیش لوگ اس قسم کی ہدایت دیتے ہیں کہ، ” لوگوں کی ڈنڈ ے کے ز ورسے ہی اصلاح کی جاسکتی ہے“ . خون کے دھبے خون ہی سے دھوئے جاسکتے ہیں“ . تیز دانتوں والے بھیڑ یوں پررحم کرنا، بھیڑ بکریوں پرظلم کرنے کے متر ادف ہے “
وغیرہ اس طرح سے وہ ” ایسے کوتیسا “ کے فار مو لے کو ہر جگہ پرعملی جامہ پہنا نا چاہتے ہیں اوربرائی کاجواب برائی سے دینا چاہتے ہیں۔
لیکن قرآن فرماتاہے : کہیں ایسانہ ہو کہ آپ لوگ ایسے وسوسوں کاشکار ہوجائیں . سوائے خاص اوراستثنا ئی مواقع کے سختی سے کام لینا شروع کردیں اور اگر کہیں ایسے مشکل مواقع درپیش بھی ہوں توفوراً خداکی پناہ طلب کریں اوراسی پراعتماد کریں کہ وہی سب کی باتوں کو سنتا اورتمام دنیا کی نیتوں سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
البتہ مندرجہ بالا آیت کامفہوم بہت وسیع ہے اور وہ کہہ رہی ہے تمام شیطانی وسوسوں کے مقابلے میںخدا کی پناہ طلب کریں ، لیکن جوکچھ اوپربتایاگیا ہے اس کے مصداقوں میں سے یہ ایک روشن مصداق ہے۔
۱۔ ” ولا السیّئہ “ میں ” لا“ کونفی کی تاکید کے لیے دوبارہ لایاگیاہے۔
۲۔ تفصیل مجمع البیان انہی آیات کے ذیل میں۔
۳۔ بحا رالا نوار جلد ۲۱ ،ص ۱۰۹۔
۴۔ بحارا لانوار جلد ۲۱ ،ص ۱۳۲۔
۵۔ یلقا ھا کی ضمیر خصلت یاوصیت کے معنی میں جوگزشتہ جملے سے ملتی ہے واپس لوٹتی ہے۔
۶۔بعض مفسرین نے ” وما یلقّا ھاالاّ ذو حظ عظیم “ کوایسے شریف اور معاف کردینے والے لوگوں کی آخرت میں جزا سمجھاہے . لیکن اگراس بات کی طرف توجہ کی جائے کہ آیت تواس عظیم عمل کی اخلاقی بنیادوں کوبیان کررہی ہے ، تو مذ کورہ تفسیر بعید معلوم ہوتی ہے۔
۷۔ ” نزغ “ ” مندرجہ بالاآیات میں ممکن ہے کہ مصدر کے طورپر یہی معنی رکھتاہو ، یہ بھی ممکن ہے کہ ” اسم فاعل “ کے معنی میں ہو ۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma