جو جی چاہے اورجس سے آنکھ لذّت اُٹھا ئے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
یہ آ یات خدا کے ان خالص بندوں اورصالح موٴ منین کی جزا ء بیان کررہی ہیں جن کا تذکرہ پہلے ہوچکاہے اور بہشت بریں کی سات قیمتی نعمتوں کو خوشخبری دے رہی ہیں ۔
پہلے فر مایاگیاہے : خدا وند عظیم ومنّان کی طرف سے انہیں خطاب ہوگا: بہشت میں داخل ہوجاؤ (ادْخُلُوا الْجَنَّةَ ) ۔
اس طرح ان کاحقیقی میز بان خود خدا ہی ہوگا جواپنے مہمانوں کودعوت دے کر فرمائے گا کہ تشریف لائیے اور جنت میں داخل ہو جایئے ۔
پھر پہلی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہُو ئے فر مایاگیاہے : تم بھی اور تمہاری بیو یاں بھی (اٴَنْتُمْ وَ اٴَزْواجُکُمْ ) ۔
ظاہر سی بات ہے موٴ من اورمہر بان بیویوں کااپنے شوہروں کے ساتھ ہونا مردوں کے لیے بھی خوشی کی بات ہوگی اور عورتوں کے لیے بھی ،کیونکہ اگروہ دُنیا میں ایک دوسرے کے دُکھ درد کے شریک تھے تو آ خرت کوخوشیوں میں بھی ایک دوسر ے کے ہمر کاب ہوں گے ۔
بعض مفسرین نے یہاں پر ” ازواج “ کا معنی ہم رکاب ، دوست اورنزدیکی لوگ کیاہے اوراگرایسابھی ہو تو یہ بات بجائے خود ایک عظیم نعمت ہے . لیکن آ یت کاظاہری معنی وہی پہلاہے ۔
پھر فر مایاگیاہے : تم سب خوشی اور شا دمانی میں مستغرق رہو ، اوراس طرح کہ اس خوشی کے آثار تمہار ے چہروں سے ظاہر ہوں (تُحْبَرُونَ ) ۔
” تحبرون “ ” حبر ( بروزن ” ابر ‘ ‘ ) کے مادہ سے ہے ، جس کامعنی ہے ” حسب دل خواہ اثر“ اور کبھی اس کااطلاق سنگھار اورخوشی کے ان آثار پر بھی ہوتاہے جوچہر ے پر نمایاں ہوتے ہیں اوراگر ” عطا “ کو ” احبار “ ( جَر بروزن اَبر کی جمع ) کہاجاتاہے ، تو ان آثار کی وجہ سے جوانسانی معاشر وں میں باقی ر ہ جاتے ہیں ، جیسا کہ امیر الموٴ منین علی علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
” العلماء با قون مابقی الد ھر اعیا نھم مفقود ة وامثالھم فی القلوب موجودة “۔
” جب تک دُنیا باقی ہے ،علماء زندہ ہیں . وہ بذاتِ خود تو ہمارے درمیان موجود نہیں ہوتے لیکن ان کے آثار دلوں میں موجُود ہوتے ہیں ( ۱) ۔
تیسر ی نعمت کے بارے میں فرمایاگیاہے : خاص خدمت گاروں کے ذریعے بہترین غذا اور بہشتی مشرو بات سے بھرے کھانوں کے طلائی برتن اورشراب طہو ر کے زرین جان ان کے گرد اگر گھمائے جائیں گے (یُطافُ عَلَیْہِمْ بِصِحافٍ مِنْ ذَہَبٍ وَ اٴَکْوابٍ) ۔
بہترین ظروف اور بہترین کھانوں سے نہایت ہی آرام ، اطمینا ن اورصدق وصفا کے ساتھ اور کسِی قسم کی پریشانی کے بغیر ان کی تواضع کی جائے گی ۔
”صحاف “”صحفة “( بروزن ”صفحہ“کی جمع ہے جودراصل ”صحف “کے مادہ سے لیاگیاہے ،جس کامعنی ”وسعت دینا“ ہے اور یہاں پر بڑے بڑے اوروسیع ظروف کے معنی میں ہے ۔
” اکواب “ ” کوب “ کی جمع ہے ، جس کامعنی ہے ” پانی کے ایسے برتن جن کادستہ نہیں ہوتا .” اورآج کی اصطلاح میں انہیں’ ’جام “ یا” پیالہ “ کہاجاتاہے ۔
اگرچہ مذ کورہ بالا آ یت میںصرف طلائی برتنوں کی بات گئی ہے اورخوراک و مشرو بات کی بحث نہیں کی گئی لیکن ظاہر ہے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے خالی برتنوں کادور کبھی نہیں چلتا ۔
چو تھے اور پانچویںمرحلے پر دو اور نعمتوں کی طرف اشارہ ہوتاہے کہ جن تمام مادی اور معنوی نعمتں جمع ہیں ، ارشاد ہوتاہے : اور بہشت میں جس چیز کو جی چاہے اور جس سے آنکھیں لذّت اٹھائیں ، سب کچھ موجود ہوگا (وَ فیہا ما تَشْتَہیہِ الْاٴَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاٴَعْیُنُ ) ۔
تفسیر مجمع البیان میں مرحوم طبرسی کے بقول اگر کائنات کی تمام مخلوق جمع ہو کرہر طرح کی بہشتی نعمتو ں کی تعریف و توصیف کرنے لگے پھر بھی اس حد کو نہیں پہنچ سکے گی جواس جُملے میں موجودہے ۔
اس سے بڑھ کر اور کیازیبا اور جامع تعبیر ہوسکتی ہے ؟ ایسی تعبیر جو کائنات کی وسعتوں اوران تمام تصورات کی وسعتوں کواپنے دامن میں سمیٹے ہُوئے ہے جوہمار ے ذہن میں آسکتے ہیں اور جونہیں آسکتے .ایسی تعبیرجس سے بڑھ کر اورکوئی تعبیر نہیں ہوسکتی ۔
پھر یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ دل پسند چیزوں کوآنکھ کی لذ توں سے علیٰحدہ بیان کیا گیاہے . اور یہ علیٰحدگی بھی بڑی معنٰی خیز ہے .یہاں پرپہلے ایک عمومی اور ہمہ گیرچیز بیان کرنے کے بعد اس میں سے کچھ خاص چیزوں کوجدا کرکے بیان کیاگیا ہے بایں معنٰی کہ ” آنکھ کی لذّت “کی اہمیّت سب سے زیادہ اوردوسر ی تمام لذ توں سے برتر اور بالاتر ہوتی ہے ، یااس لحاظ سے کہ ” ما تَشْتَہیہِ الْاٴَنْفُس “ کاجُملہ ذائقہ (چکھنے کی ) ، شا مہ ( سُو نگھنے کی )سَا مِعہ (سُننے کی )اور لامسہ ( مَس کرنے اور چُھونے کی )لذتوں کوبیان کر رہاہے ، لیکن ” تَلَذُّ الْاٴَعْیُنُ“
کا جملہ آنکھ کی لذّت کو بیان کررہا ہے ۔
بعض مفسرین یہ سمجھتے ہیں کہ ” ما تَشْتَہیہِ الْاٴَنْفُس“ تمام جسمانی لذتوں کی طرف اشارہ ہے ، جبکہ ” تلذ الاعین “ رو حا نی لذات کا بیان کر رہا ہے اور بہشت میں اس سے بڑھ کر اور کیالذّت ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے دل کی آنکھوں سے پروردگار کے جمال بے مثال کامشاہدہ کرلے کہ جس کاایک لمحہ بہشت کی تمام مادی نعمتوں سے افضل اور برتر ہے ۔
ظاہر ہے کہ شوق ِ وصال جس قدر زیادہ ہوگا دیدار کی لذّت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔
ایک سوال اوراس کا جواب
یہاں پر مفسرین کوایک سوال د ر پیش ہے اوروہ یہ کہ آ یااس آیت کاعمومی مفہوم اس بات کی دلیل ہے کہ جن چیزوں کواس دُنیامیں خدا نے حرام کیاہے اگران چیزوں کاوہ بہشت میں تقاضا کریں گے تووہ بھی انہیں ملیں گی؟
اس طرح کاسوال درحقیقت ایک نکتے کی طرف توجہ نہ کر نے کی وجہ سے ذہن میں اٹھتاہے اوروہ یہ کہ حرام کردہ اور بُر ی چیز یںدرحقیقت اس خوراک کے مانند ہیں جوانسانی رُوح کے لیے قطعاً مناسب نہیں ہوتیں اور یقینا صحیح وسالم رُوح اس قسم کی غذ اکی خواہش نہیں کرتی . یہ تو بیماررُوحیں ہوتی ہیں جوزہر یلی اورنامناسب غذاؤں کی خواہش کااظہار کرتی ہیں ۔
ہم ایسے بیمار وں کو بھی یکھتے ہیں جو بیماری کی حالت میں مٹی یااس قسم کی دوسری چیزوں تک کھا نے کی خواہش کااظہار کرتے ہیں لیکن جونہی یہ بیماری بر طرف ہوجاتی ہے ، اس قسم کی غلط خواہشیں از خودختم ہوجاتی ہیں . یقینا لوگ ہر گز اس قسم کے اعمال کی خواہش نہیں کریں گے ، کیونکہ ایسے اعمال کی خواہش بیمار جہنمی کی خصوصیات میں شامل ہے ۔
یہ سوال بالکل اس طرح ہے جیسے روایت میں آ یاہے ۔
” ایک اعرابی پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا : آ یابہشت میں اونٹ بھی ہوں گے ،کیوں کہ میں اونٹو ں سے بہت محبت کرتاہوں ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تو جانتے تھے کہ وہاں پرایسی ایسی نعمتیں ہوں گے کہ جنہیں دیکھ کر یہ اعرابی اپنے اونٹو ں کو بُھول جائے گ. لہذا آ پ (صلی للہ علیہ وآلہ وسلم )نے مختصر مگرجامع الفاظ میں اسے یوں جواب دیا :
” یااعرابی ان اد خلک اللہ الجنّة اصبت فیھا مااشتھت نفسک ولذة عینک “۔
” اے اعرابی ! اگر خدانے تجھے بہشت میں بھیج دیاتوتجھے وہاں پر کُچھ ملے گا جوتمہار ا جی چاہے گا اور تمہار ی آنکھیں جس سے لذّت اُٹھا ئیں گی ( ۲) ۔
دوسرے لفظوں میں وہاںپرایسا عالم ہوگا کہ انسان اپنے آپ کوحقائق سے پورے طرح ہم آہنگ کرے گا اور بقول شاعر :
آنچہ بینی دلت ھمان خواھد وآنچہ خواہد دلت ھمان بینی
” جوکچھ تمہاری آنکھیں دیکھیں گی تمہاراجی بھی وہی چاہے گا اورجو کچھ تمہار ا جی چاہے گا ، تمہار ی آنکھیں بھی وہی کُچھ دیکھیں گی ۔
بہرحال نعمت کی صحیح قیمت تب ہوتی ہے جب وہ پائیدار اور دائمی ہو. اس لیے چھٹی صفت میں اہل بہشت کواس لحاظ سے بھی اطمینان خاطر دلاتے ہو ئے فرمایاگیاہے :تم وہاں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہو گے (وَ اٴَنْتُمْ فیہا خالِدُون) ۔
کہیں ایسانہ ہو کہ نعمتوں کے زوال کی فکر انھیں آئندہ کے لیے پر یشان کردے ۔
یہاں پراس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کہ بہشت کی یہ سب نعتیں” قیمت “ کے بدلے میں دی جاتی ہیں نہ کہ کسی بہانے کے ذریعے ارشاد فرمایا گیاہے : یہ وہی بہشت ہے کہ جس کے تم اپنے انجام دیئے گئے کی وجہ سے وارث کردیئے گئے ہو (وَ تِلْکَ الْجَنَّةُ الَّتی اٴُورِثْتُمُوہا بِما کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ) ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف تواعمال کے بدلے کی بات کی گئی ہے اوردوسر ی طرف ” وراثت “ کاذکر کیاگیاہے ، جو عام طورپر ایسے مواقع پراستعمال ہوتاہے جہاں پر محنت اور بھاگ دوڑ اور تکلیف اُٹھائے بغیر کوئی نعمت کوحاصل ہوتی ہے . یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمہار ی نجات کااصل سبب توتمہار ے اعمال ہی ہیںلیکن جوکچھ تمہیں مل رہاہے وہ تمہار ے اعمال کے مقابلے میں اس قدر زیاد ہ ہے گویا وہ تمہیں بالکل مفت مل رہاہے ۔
بعض مفسرین اس تعبیر کو اس بات کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جِسے ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ ہر انسان کاایک مقام بہشت میں ہوتا ہے اور دوسر اجہنم میں چنانچہ بہشتی لوگ جہنمیوں کے وارث ہوں گے اورجہنمی اہل بہشت کے ۔
لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ۔
ساتویں اور آخری نعمت بہشتی پھلوں کی ہے جواللہ کی سب سے اہم اور بہترین نعمت ہے ارشاد ہوتاہے : بہشت میں تمہار ے لیے بہت سے پھل ہیں جنہیں تم کھاؤ گے (لَکُمْ فیہا فاکِہَةٌ کَثیرَةٌ مِنْہا تَاٴْکُلُون) ۔
درحقیقت ظروف اورجام مختلف کھانوں اورمشر وبات کے وجود کو بیان کررہے تھے . لیکن پھلوں کی بات اپنی جگہ ہے .لہذا زیر تفسیر آ یات کی آخری آیت میں اسی چیز کی طرف اشارہ کیاگیاہے ۔
دِل چسپ بات یہ ہے کہ ” منھا “ کے لفظ سے یہ حقیقت بیان کی کی جارہی ہے کہ بہشت کے پھل اس قدر زیادہ ہوں گے کہ تم ان میں صرف کُچھ ہی کھاؤ گے اوراس طرح وہاں پر فنا وخاتمہ کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا . اس کے درخت ہمیشہ پھل دار اور لدے ہونگے ۔
ایک حدیث میں ہے ۔
” لا ینزع رجل فی الجنة ثمرة من ثمر ھاالا نبت مثلا ھا“۔
” کوئی بھی شخص بہشتی درختوں سے کوئی بھی پھل نہیں توڑے گا مگر یہ کہ اس کی جگہ دوپھل اورپیدا ہو جائیں گے “ ۔
یہ تھی جنت کی رُوح پردو نعمتوں کی ایک جھلک جوا ن لوگوں کے انتظار میں ہے جن کا ایمان روشن اوراعمال صالح ہیں ۔
۱۔ نہج البلاغہ ،کلمات قصار جُملہ نمبر ۱۴۷۔
۲۔تفسیر روح البیان ،جلد ۸ ،ص۲۹۱۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma