موسیٰ (ع) کے پاس سونے کے گنگن کیوں نہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
حضرت موسٰی علیہ السلام کی منطق ایک طرف ، ان کے مختلف معجزات دوسری طرف اورمِصر کے لوگوں پرنازل ہو نیوالی بلا ئیں جومُو سیٰ علیہ السلام کی دُعا ء کی برکت سے ٹل جاتی تھیں تیسری طرف ، ان سب اسباب نے مجموعی طورپر اسی ماحول پرگہر ے اثرات ڈالے اور فرعون کے بارے میں لوگوں کے افکار کوڈانواں ڈول کردیا اورانہیں پُورے مذہبی اورمعاشر تی نظام کے بارے میں سوچنے پرمجبور کردیا ۔
اس موقع پر فرعون نے اپنے دھوکہ دہی کے ذریعے موسیٰ علیہ السلام کااثر مِصر ی لوگوں کے ذہن سے ختم کرنے کی کوشش کی اور پست اقدار کاسہارا لیاجواس ماحول پرحکم فرماتھیں .اُنھیں اقدار کے ذریعے اپنا اورموسٰی علیہ السلام کا موازنہ شروع کردیا تاکہ اس طرح لوگوں پراپنی بر تری کو پایئہ ثبوت تک پہنچا ئے .جیساکہ قرآن پاک انہی آ یات میں فر ماتاہے ۔
اور فرعون نے اپنے لوگوں کو پکار کر کہا :اے میری قوم ! آ یامِصر کی وسیع و عریض سرزمین پرمیری حکومت نہیں ہے اورکیا یہ عظیم دریا میر ے حکم سے نہیں بہ رہے اورمیرے محلوں ،کھیتوں اور باغوں سے نہیں گزر رہے ہیں ؟ کیاتم دیکھتے نہیں ہو ( وَ نادی فِرْعَوْنُ فی قَوْمِہِ قالَ یا قَوْمِ اٴَ لَیْسَ لی مُلْکُ مِصْرَ وَ ہذِہِ الْاٴَنْہارُ تَجْری مِنْ تَحْتی اٴَ فَلا تُبْصِرُونَ ) (۱) ۔
لیکن مُوسٰی کے پاس کیاہے ، کچھ بھی نہیں . ایک لاٹھی اورایک اونی لباس اوربس توکیااس کی شخصیّت بڑ ی ہوگی یا میری ؟ آ یا وہ سچ بات کہتاہے یا میں ؟اپنی آنکھیں کھو لو اور بات اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو “ ۔
اس طرح فرعون نے مصنوعی اقدار کولوگوں کے سامنے پیش کیا ، بالکل ویسے ہی جیسے عصر جاہلیّت کے بُت پرستوں نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے مقا بلہ میں مال و مقام کوصحیح انسانی اقدار سمجھ رکھّاتھا ۔
لفظ ” نادٰی “ ( پکار کرکہا ) سے معلوم ہوتاہے ک فرعون نے اپنی محلکت کے مشاہیر کی ایک عظیم محفل جمائی اور بلند آواز کے ساتھ ان سب کو مخاطب کرتے ہُوئے یہ جُملے ادا کیے ، یا حکم دیاکہ اس کی اس آواز کوایک سرکاری حکم نامے کے ذ ریعے پورے ملک میں بیان کیاجائے ۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ در یائے نیل کو ” انہار “ ( نہر کی جمع )سے کیوں تعبیرکیاگیاہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عظیم در یا ایک وسیع سمندر کے مانند ہے جونہر وں میں تقسیم ہوکر مِصر کے تمام آ باو علاقوں کو سیراب کرتاہے ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دریائے نیل سے تین ساساٹھ ( ۳۶۰) نہریں نکلیں تھی جن میں سے زیادہ اہم ” نھرالملک “ ” نھر طولون “ ”نھر دمیاط “ اور”نھر تنیس “ تھیں ۔
آخر فرعون نے نیل کی نہر وں پر زیادہ زور کیوں دیاہے ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ مِصر کی تمام آ بادی ،دولت ،طاقت اور تمدن اس دریا کے مرہون ِ منت تھے . لہذافر عون نے اس پر ناز کیا اور موسیٰ علیہ السلام پرا پنی برتر ی جتائی ۔
” تجری من تحتی“کا مقصد یہ نہیں کہ دریائے نیل اس کے محل کے نیچے سے گزر رہاتھا، جیساکہ مفسر ین نے مراد لیاہے کیونکہ دریائے نیل اس سے بہت بڑاتھا کہ وہ اس کے محل کے نیچے سے گز ر ے اوراگر اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے محل کے پاس سے گز رتاتھا تومصر کے بہت سے محلات ایسے تھے ، جن کے پاس سے یہ دریا گز رتاتھا اورمُلک کی بہت بڑی آ بادی اس کے دونوں کناروں پر آباد تھی ، بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ دریا میرے زیرِ فر مان چل رہاہے اوراس کی تقسیم کانظام بھی میرے حسب منشاء مقرر کردہ قوانین کے تحت چل رہاہے ۔
قرآن آگے چل کرفرماتاہے کہ فرعون نے کہا:میں اس شخص سے برتر ہوں جو ایک پست خاندان اورطبقے سے تعلق رکھتاہے اورصاف طورپر بات بھی نہیں کرسکتا (اٴَمْ اٴَنَا خَیْرٌ مِنْ ہذَا الَّذی ہُوَ مَہینٌ وَ لا یَکادُ یُبینُ) (۲) ۔
حالانکہ اس وقت مُوسٰی کی زبان میں لکنت نہ تھی .کیونکہ خدا نے ان کی دعا کو قبول فرما لیاتھا ،اورزبان کی لکنت کودُور کریاتھا کیونکہ مُوسٰی علیہ السلا م نے مبعوث ہوتے ہی خدا سے یہ دُعامانگی تھی کہ” واحلل عقدة من لسانی “ (خدا وند امیر ی زبا ن کی گرہیں کھول دے) ( ملاحظہ ہوسُورہ ٴطٰہٰ آ یت ۲۷ )اوریقیناان کی دعا قبول ہوئی اورقرآن بھی اس بات پر گواہ ہے ۔
بے پناہ دولت ،فاخرہ لباس اورچکا چوند کرتے محلات مظلوم طبقے پرظلم و ستم کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں .ان کامالک نہ ہوناصرف عیب کی بات ہی نہیں بلکہ باعث صدافتخار شرافت اورعزت کاسبب بھی ہے ۔
پھر فرعون دواور بہانوں کاسہار ا لیتے ہوئے کہتاہے: اسے سونے کے کنگن کیوں نہیں دیئے گئے یااس کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں آ ئے کہ جو اس کی باتوں کی تصدیق کرتے:(فَلَوْ لا اٴُلْقِیَ عَلَیْہِ اٴَسْوِرَةٌ مِنْ ذَہَبٍ اٴَوْ جاء َ مَعَہُ الْمَلائِکَةُ مُقْتَرِنین) (۳) ۔
اگر خدانے اسے رسُول بنا یا ہے تودوسرے رسُولوں کے مانند اسے طلا ئی کنگن کیوں دیئے اوراس کے لیے مدد گار کیوں نہیں مقرر کیے ؟
کہتے ہیں کہ فرعونی قوم کاعقیدہ تھاکہ رو ساء اور سر براہوں کوہمیشہ طلائی کنگنوں اور سونے کے ہاروں سے مزین ہونا چاہیئے اورچونکہ مُوسٰی علیہ السلام کے پاس اس قسم کے زیورات نہیں تھے بلکہ ان زیورات کے بجائے وہ چر واہوں والا موٹا سااُونی کُر تہ زیبِ تن کیے ہُو ئے تھے، لہذا ان لوگوں نے اس بات پرتعجب کااظہار کیا اوریہی حال ان لوگوں کاہوتاہے جوانسان شخصیّت کے پرکھنے کامعیار سونا ، چاندی اوردوسر ے زیورات کو سمجھتے ہیں ۔
لیکن انبیاء کرام علیہم السلا م ایسی چیزوں سے ہٹ کررہتے ہیں . خاص کروہ اپنے کردار سے ایسی جھوٹی اقدار خاتمہ کرکے انکی جگہ صحیح انسانی اقدار یعنی علم ِ ،تقویٰ اور طہارت کی حکرامنی دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ جب تک کسی معاشر ے کی قدروں کانظام درست نہیں ہوگا وہ معاشر ہ کبھی بھی سعادت اور سربلندیوں پر فائز نہیں ہوسکتا ۔
بہر حال فر عون کا یہ بہانہ بھی مشرکین مکّہ کے اس بہانے کے مانند تھا، جس کے متعلق ہم چند آ تاپہلے پڑھ چکے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن مکّہ یاطائف کے کسی دولت مند شخص پر کیوں نازل نہیں ہوا ؟
دوسرا بہانہ وہی مشہور بہانہ ہے جو بہت سی گمراہی اور سرکش امتیں انبیاء کرام علیہم السلام کے سامنے پیش کیاکرتی تھیں ،کبھی توکہتی تھیں کہ ” وہ انسان کیوں ہے اور فرشتہ کیو ں نہیں ؟اورکبھی کہتی تھیں کہ ” اگروہ انسان ہے توپھر کم از کم اس کے ہمراہ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آ یا ؟ “
حالانکہ انسانوں کی طرف بھیجے ہوئے رسُولوں کونوعِ انسانی کاحاصل ہونا چاہیئے تاکہ وہ ان کی ضر ورتوں،مشکلوں اور مسائل کو محسوس کرسکیں اورانہیں ان کا جواب دے سکیں اورعملی لحاظ سے ان کے لیے نمونہ اوراُسوہ قرار پا سکیں( ۴) ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ” اسورة “ ”سوار“ (بر وزن ”ہزار “)کی جمع ہے ، جس کا معنی ” کنگن “ہے خواہ وہ طلائی ہوں یا نقرئی اوراس کی بنیاد ایک فارسی لفظ ” دستوارہ “ ہے . و ہ اور ” اسار “ جمع الجموع ہے ۔
بعد کی آ یت میں قرآن مجید ایک لطیف نکتے کی جانب اشارہ کرتا ہے اوروہ یہ کہ فرعون حقیقت الامرسے قطعًا غافل نہیں تھا اوراِن اقدار کے بے وقعت ہونے کی طرف بھی کم و بیش متوجہ تھا . لیکن ” اس نے ان باتوں کے ذریعے اپنی قوم کواحمق بنایا اوران کی عقلوں کو ہلکا سمجھا اورانہوں نے اس کی اطاعت کی(فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہُ فَاٴَطاعُوہُ) ۔
اصولی طور پرتمام جابر اور فاسد حکو متوں کا طر یق ِکاریہی ہوتاہے اپنی خود سری اورظالما نہ روش کو جاری رکھنے کے لیے لوگوں کی سطح فکر کوپست کردیتی ہیں ،مختلف حیلوں اوربہانوں سے انہیں احمق اور بے و قوف بنائے راہتی ہیں . انہیں حقا ئق کے ادراک سے دُور رکھتی ہیں اورسچی اقدار کی جگہ جھوٹی اقدار کورواج دیتی ہیں . اورہمیشہ حا ئق سے دُور رکھنے کے لیے ان کی برین واشنگ (ingbrin wagh)کر تی رہتی ہیں کیونکہ ملتوں اوراقوام کی بیداری اوران کی فکر ی آگا ہی خود وغرض اورشیطانی حکومتوں کی بہت بڑی دشمن ہوتی ہے جسے یہ حکومتیں اپنی پوری طاقت سے ختم کرنے کے درپے ہوتی ہیں ۔
فرعون کا یہ طریقہ کاریعنی لوگوں کواحمق بنا یااوران کی عقلوں کوہلکاسمجھنا، ہمارے دور کے بھی تمام فاسد معاشروں میں بڑی شدّدمدّکے ساتھ حکم فر ماہے .اس مقصد تک پہنچنے کے لیے فرعون کے پاس تو محُدُور وسائل تھے مگر آج کے طاغوتوں کے پاس اس سے زیادہ وسائل موجود ہیں . ذ رائع ابلاغ عامہ ،اخبارات ورسائل ، ر یڈ یو ،ٹیلیو یژ ن اورطرح طرح سے پوری طرح سے حقائق سے بے خبررہیں اورا ن طا غوتوں کی اطاعت کرتے رہیں .اسی لیے دین دوست دانشو روں اوررہنماؤں پرایک عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کوبے وقوف بنانے کے پرو گرام جاڈٹ کرمقابلہ کریں اور یہی ان کااہم ترین فریضہ ہے ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا آ یات کو اس جُملے کے ساتھ مکمل کیاگیاہے :” بے شک وہ لوگ بد کار تھے “ (إِنَّہُمْ کانُوا قَوْماً فاسِقین) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگریہ لو گ فاسق نہ ہوتے اورخدا کی اطاعت اورمقل کے فیصلوں سے خارج نہ ہوتے ہیں تواس قسم کے پرو پیگنڈ کو قطعاً صحیح نہ سمجھتے اوراپنی ہی گمراہی کے اسباب خود فراہم نہ کرتے. اسی لیے وہ ہرگز معذ ور اورمجبور نہ تھے. یہ ٹھیک ہے کہ فرعون نے ان کی عقلوں پر ڈاکہ ڈال کر اپنی اطاعت پرمائل کرلیاتھا ، لیکن اندھا دھند طریقے سے اس کے آگے سرتسلیم خم کرکے انہوں نے اس ڈاکے کے اسباب ازخودفراہم کیے تھے .یقیناوہ خود بھی فاسق تھے اورایک فاسق کے تابع فرمان بن گئے تھے ۔
یہ تھی خدا کے رسُول حضرت موسٰی علیہ السلام کے مقابلے میں فرعون اوراہل فرعون کی فریب کاری ۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان تمام و عظ نصیحت اور مختلف طریقوں سے اتمام ِ حجّت کے بعد اوران کے حق کے سامنے سرتسلیم خم نہ کر نے کی وجہ سے ان کا انجام کیا ہوا؟۔
اس بار ے میں خدا تعالیٰ فرماتاہے : جب ان لوگوں نے اپنے کر توتو ں کی وجہ سے ہمیں غضب ناک کردیا توہم نے بھی ان سے بدلہ اوران سب کو غرق کردیا (فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْہُمْ فَاٴَغْرَقْناہُمْ اٴَجْمَعین) ۔
خدا وند ِ عالم نے ان کے لیے اپنے تمام عذابوں میں سے غرق بی کے عذاب کو خاص طورپر منتخب کیا، کیونکہ ان کی تمام عزت و عظمت اور شان و شوکت در یائے نیل اوراس کی عظیم و وسیع نہروں کی وجہ سے تھی کہ اپنے تمام قدر تی وسائل میں سے فرعون نے صرف اسی کاذکر کیااور کہا :
”اٴَ لَیْسَ لی مُلْکُ مِصْرَ وَ ہذِہِ الْاٴَنْہارُ تَجْری مِنْ تَحْتی “
” آ یامصر پر میری حکومت نہیں ہے اور کیایہ نہریں میر ے حکم کے مطابق نہیں چل رہیں ؟“ ۔
تو جو چیز یں ان کی زندگی اور طاقت کا سبب تھیں ، انہیں کوان کی فنا و بربا دی کاموجب اور گو رستان بنناچاہیئے تھا تاکہ سب لوگ اس سے عبر ت حاصل کریں ( ۵) ۔
” اٰسفونا “کے مادہ سے ہے جن کامعنی ” غم ‘ ‘ بھی ہے اور ”غصّہ “بھی .بلکہ ” مفردات “میں ” راغب “ کے بقول کبھی ” غم و غصّہ“یعنی دونوںمعانی کے لیے بھی آ تاہے اور کبھی علیٰحدہ علیٰحدہ معانی کے لیے بھی آ تاہے ، کیونکہ درحقیقت ایک اند رونی ہیجان ہوتاہے ، جوا نسان کو انتقام پر آ مادہ کرتاہے اور جب اس کی نسبت اپنے ماتحتو ں کی طرف ہو توغصّے کی صُورت میں ظاہر ہو تاہے اور جب افراد بالا کی طرف ہو تو ” غم “کی صورت میں آشکار ہوتاہے . لہٰذاجب ابن ِ عباس سے پوچھا گیاکہ ” حزن “اورغضب میں کیافرق ہے توانہوں نے جواب دیا :ا ن کی بنیاد اوراصل توایک ہے ، لیکن الفاظ مختلف ہیں ( ۶) ۔
بعض مفسرین نے ” اٰسفونا “کامفہوم ” اٰسفو ر سلنا “لیاہے ( یعنی ہمارے رسولوں کومخرون مغمون کردیا )لیکن یہ تفسیر بعید معلوم ہوتی ہے اورا س قسم کے ظاہری اختلاف کو اپنانے کی ضر ورت بھی معلوم نہیں ہوتی ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ خداکے بار ے میں نہ تو ”رنج و غم “کاکوئی مفہوم ہو تاہے ، اورنہ ہی ” غصّے “کا جیساکہ ہمار ے درمیان مشہور ہے . بلکہ خداکا ” غیظ وغضب “ سزا کا ارادہ “ہوتاہے، اوراس کی رضا مندی ” ثواب کاارادہ “ ہوتاہے ۔
زیر تفسیر آ یات میں سے آخر ی آیت کواس مجموعی گفتگو کے نتیجے کے طورپر بیان کیاگیاہے . چنانچہ فرمایاگیاہے:اور ہم نے انہیںعذاب میں پیش قد م اور دوسروں کے لیے عبرت بنادیا (فَجَعَلْناہُمْ سَلَفاً وَ مَثَلاً لِلْآخِرین) ۔
لغت میں ” سلف “آگے جانے والی چیز کو کہتے ہیں. لہذاآ گے چلی جانے والی نسلوں کو ” سلف “اوران کے بعد آ نے والوں کو ” خلف “کہا جاتاہے اور جوسودے پیشگی طے پاجاتے ہیں انہیں بھی”سلف “کہاجاتاہے ، کیونکہ ان کی قیمت پیشگی ادا کر دی جاتی ہے ۔
نیز ” مثل “کا معنی وہ گفتگو ہے جو لوگوں کے درمیان عبرت کی صُورت میں رائج ہوتی ہے چونکہ فرعون اور فرعونیوں کاماجرا اوران کادرد ناک انجام ایک عظیم عبرت کی حیثیت رکھتاہے اسی لیے اسے دوسری قوموں کے لیے ” مثل “کے عنوان سے یاد کیاگیا ہے ۔
۱۔ ” وَ ہذِہِ الْاٴَنْہارُ تَجْری مِنْ تَحْتی “ میں موجود ” واؤ “ ممکن ہے کہ ” عاطفہ “ اور اس کاعطف ” ملک مصر “ پر اور ممکن ہے کہ ” حالیہ “ پر ہو ( تفسیرکشاف ) لیکن احتمال زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے ۔
۲۔مندرجہ بالا جُملہ میں کُچھ مفسرین نے ” ام “ کو” منقطعہ اور” بل “ کے معنی میں لیاہے اور بعض نے اسے ” متصلہ “ اور” افلا تبصرون “سے متعلق سمجھا ہے ، جو تقدیر ی طور پر یوں ہوگا:
” افلا تبصر ون ام تبصرون اناخیرمن ھٰذا ...“
اس طرح سے اس نے اپنے لیے دوبڑے اعزازات (حکومت مصر اورنیل کی ملکیّت) اورموسٰی کے دو کمزورپہلو(فقر اورلکنت زبان ) بیان کر یئے ۔
۳۔” مقتر نین “ کا معنی ” متتابعین “یا”متعاضدین “بیان کیاگیا ہے اور بعض مفسرین کہتے ہیں یہاں پر ” اقتران “بمعنی ” تقا رن“ہے ۔
۴۔اس بارے میں تفسیر نمونہ کی پانچویں جلد میں سُورہ ٴانعام کی آ یت۹ کے ذیل میں تفصیل سے گفتگوہوچکی ہے ۔
۵۔جیساکہ شاعر کہتاہے ۔
درسرداری کہ باشدّت سر داری
ہم در سر آن روی کہ سر داری
ترجمہ:جس سر دار ی میں تم زور شور سے سر کھپا رہے ہو. اسی چیز کے سر میں تمہیں جانا چاہیئے ، کہ جس کاخیال تم اپنے سر میں رکھے ہُو ئے ۔
۶۔مفر دات راغب مادہ ” اسف “ ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma