توحید۔انبیا ء کا د ائمی پیغام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

ان آ یات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سر گزشت اور بابل کی بُت پرست قوم کے واقع کی طرف اشارہ ہے تا کہ اس طرح سے گزشتہ آ یات میں مذ کور تقلید کی خدمت کو مکمل کیاجاسکے ۔ کیونکہ :
ایک توحضرت ابراہیم علیہ السلام ملّت عرب کے سب سے بڑے بزرگ اور جدّ امجد تھے . سب لوگ ان کو قد ر کی نگاہ سے دیکھتے اورانکی تاریخ پرفخر کیا کرتے تھے . جب وہ تقلید کے پر دوںکوچاک کرتے ہیں تواگر یہ لوگ اپنے اس دعوے میں سچے ہیں توانہیں ان کی اقتداء کرنی چاہیئے ۔
اگر یہ بات طے ہے کہ آ باء واجداد کی تقلید کی جانے چاہیئے توپھر بُت پرستوں ہی کی تقلید کیوں کریں ، ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کیوں نہ کریں ؟
دوسر ے ؛ جو بُت پرست حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں آگے تھے وہ بھی اسی بے مقصد اور کھوکھلی دلیل ( باپ داد ا کی تقلید ) کا سہارا لیتے تھے . لیکن جناب ابراعلیہ السلام نے ان کی اس کی دلیل کو یکسر مسترد کر دیا ، جیسا کہ سُورہ ٴ انبیاء کی ۵۳ ویں اور ۵۴ویں آ یت میں ہے :
”قالُوا وَجَدْنا آباء َنا لَہا عابِدینَ قالَ لَقَدْ کُنْتُمْ اٴَنْتُمْ وَ آباؤُکُمْ فی ضَلالٍ مُبین“
” بُت پرستوں نے کہا :ہم نے اپنے باپ داد کو دیکھا ہے کہ وہ ان ( بُتوں) کی پرستش کرتے ہیں تواس ( ابراہیم علیہ السلام نے )کہا:یقیناتم اور تمہارے باپ داد ا آشکار اورواضح گمراہی میں ہو “ ۔
تیسرے یہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اورابتدائے اسلام کے مسلمانوںکے لیے ایک قسم کی تسلّی اور دِل جوئی کی صُورت ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ اس قسم کی مخالفین اور حیلے بہانے ہمیشہ رہے ہیں اُنھیں دل تنگ اور مایوس نہیں ہونا چاہیئے ۔
پہلے ارشاد ہوتاہے : اس وقت کو یاد کیجیے ٴ ، جب ابراہیم نے اپنے ( مُنہ بولے )باپ ( آذر )اوراپنی بُت پرست قوم سے کہا:میں اس چیز سے بیزار ہوں ، جس کی تم عبادت کرتے ہو ( إِبْراہیمُ لِاٴَبیہِ وَ قَوْمِہِ إِنَّنی بَراء ٌ مِمَّا تَعْبُدُونَ )( ۱) ۔
چونکہ بہت سے بُت پرست خداکی پرستش بھی کیا کرتے تھے لہذ ا ا ُنہوں نے فوراًان کو مُستثنٰے کرتے ہُو ئے فرمایا : سوائے اس خدا کے کہ جس نے مُجھے پیدا کیاہے اوروہی میری راہنمائی کرے گا (إِلاَّ الَّذی فَطَرَنی فَإِنَّہُ سَیَہْدینِ) ۔
انہوں نے اس مختصر سی عبار ت میں ایک توعبودیت کوپروردگار عالم میں منحصر کردیا کیونکہ معبُود وہی ہو سکتاہے جوخالق کائنات اورمد بر عالم ہو اور یہ بات سب مانتے تھے کہ خالق ، خداہے اور ساتھ ہی خداکی تکوینی او ر تشر یعی ہدایت کی طرف اشارہ بھی ہے ، کیونکہ لُطف کا قائدہ اسی بات کامتقا ضی ہے ( ۲) ۔
کو اس کاشریک سمجھتے تھے . البتہ یہ احتمال بھی ذکر کیاگیاہے کہ یہ استثنائے منقطع ہے اور” اِلا “ ” لٰکن “ کے معنی میں ہے کیونکہ ” ماتعبدون “
تعبیر بتوں کی طرف اشارہ ہے اس لیے کہ خدا کے بار ے میں عموماً یہ تعبیر نہیں ہو تی ( غور کیجئے گا ) ۔
اس قسم کی باتیں سُورہ ٴ شعراء کی آ یات ۷۷ تا ۸۲ میں بھی ذکر ہو چکی ہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام فقط اپنی زندگی میں اصول توحید کے طرف دار اور ہر قسم کی بُت پرستی کے دشمن نہیں تھے . بلکہ انہوں نے سر توڑ کو شش کی کہ کلمئہ توحید دُنیا میںہمیشہ کے لیے باقی اور بر قرار رہے . جیساکہ بعد کی آ یت میں ارشاد ہوتاہے : انہوں نے کلمئہ توحید کوباقی رہنے والے کلمہ کی صُورت میں اپنی اولاد میں مقرر کردیاتاکہ وہ خدا کی طرف رجوع کریں (وَ جَعَلَہا کَلِمَةً باقِیَةً فی عَقِبِہِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ ) (۳) ۔
یہ بات بھی قا بل ِ توجہ ہے کہ آج روئے زمین پر جو دین بھی توحید کا دم بھرتاہے وہ ابراہیم کی توحید پر مبنی تعلیمات سے ہدایت لیتاہے اور خدا کے تینوں عظیم پیغمبروں یعنی جناب موسٰی علیہ السلام ، جناب عیسیٰ علیہ السلام ، اورحضرت محمد مصطفٰے علیہم السلام انہی کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اوراس بار ے میں قرآن مجید کی یہ ایک سچی پیش گوئی ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کے انبیاء مثلاً نوح علیہ السلام نے بھی شرک اور بُت پرستی کے خلاف نبر و آزمائی کی اور دُنیا والوں کوتوحید کی دعوت دی لیکن جس پیغمبر نے کلمئہ توحید کواستحکام بخشا اوراس کے پرچم کوہر جگہ بلند کیاوہ ابراہیم علیہ السلام بُت شکن ہی تھے ۔
انہوں نے نہ صرف اپنے زمانے میں راہ ِ توحید کو دوام بخشنے کی جدّ وجہد کی بلکہ اپنی دعاؤں میں بھی پروردگار عالم سے اسی بات کی درخواست کرتے رہے کہ :
”وَ اجْنُبْنی وَ بَنِیَّ اٴَنْ نَعْبُدَ الْاٴَصْنامَ“ ۔
” مجھے اورمیری اولاد کو اس بات سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں “ ۔ ( ابراہیم ۔ ۳۵(
یہاں پر ایک اور تفسیر بھی مِلتی ہے اور وہ یہ کہ ” جعل “ میں جوضمیر ہے وہ خدا کی طرف لوٹ رہی ہے اس لحاظ سے اس جُملے کامعنی یوں ہوگا : خدانے کلمئہ توحید کوابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں بر قرار رکھا ۔
لیکن پہلی تفسیر یعنی ضمیر کاابراہیم علیہ السلام کی طرف لوٹنا زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے کیونکہ پہلے جُملے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کار ناموں کاایک جزو قرار پا ئے - . خصوصاً قرآن جید کی دوسری بہت سی آ یات میں اس بات کو زیادہ زور دے کر بیان کیاگیاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کااس بات پر اصرار رہاہے کہ ان کی اولاد اور نسلیں خدائی دین پر باقی رہیں . جیساکہ سورہٴ بقرہ کی آ یات ۱۳۱ اور ۱۳۲ میں ہے ۔
إِذْ قالَ لَہُ رَبُّہُ اٴَسْلِمْ قالَ اٴَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمینَ وَ وَصَّی بِہا إِبْراہیمُ بَنیہِ وَ یَعْقُوبُ یا بَنِیَّ إِنَّ اللَّہَ اصْطَفی لَکُمُ الدِّینَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَ اٴَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ۔
” اس وقت کو یاد کرو جب جب ابراہیم کے ربّ نے ان سے کہا کہ اسلام لے آ ؤ اورحق کے آگے جھک جاؤ توانہوں نے کہاکہ میں عالمین کے پرو ردگار کے سامنے سرتسلیم خم کرچکا ہوں اورابراہیم نے اپنے اولاد سے بھی اسی توحید دین کی و صیّت کی اور یعقوب نے بھی اور کہا اے میرے بیٹوں ! خدانے اسی دین کوتمہارے لیے منتخب کیاہے . لہذا تم ہرگز نہ مر نا مگر مسلمان ہی ۔
اگریہ تصورہو کہ ” جعل “ کی تعبیر ، تخلیق اورآ فرینش کے معنی میںہے اورخدا وند ِ عالم ہی کے ساتھ مخصوص ہے تویہ تصوّر غلط ہوگ. کیونکہ ” جعل “ کا اطلاق انسانوں اور غیر انسانوں دونوں پرہوتاہے اورقرآن مجیدمیں اس قسم کے بہت سے نمونے ملتے ہیں مثال کے طوپر یوسف علیہ السلام کی داستان میں ملتا ہے کہ جب انہیں بھائیوں نے کنویں میں ڈالنے کی ٹھا ن لی توقرآن مجید نے وہاں بھی لفظ ” جعل “ ( قرار دینا) استعمال کیاہے ، جیسے :
” فَلَمَّا ذَہَبُوا بِہِ وَ اٴَجْمَعُوا اٴَنْ یَجْعَلُوہُ فی غَیابَتِ الْجُب“ ( یوسف ۔ ۱۵) ۔
ہماری اس گفتگو سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ” جعلھا “ میں مفعول کی ضمیر کلمئہ توحید اور” لاالہٰ الا اللہ“ کی گواہی کی طرف لوٹ رہی ہے . کیونکہ ” اننی براء مِمّا تعبدون “ ( میں اس چیز سے بیزار ہوں جس کی تم پرستش کرتے ہو ) سے یہ بات سمجھی جاتی ہے اورابراہیم علیہ السلام کی آ ئندہ نسلوں میں توحید ی نظر یئے سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں بھی ضمیر کامرجع مسئلہ امامت کو بتایا گیاہے .ظاہر ہے کہ ایسی تعبیرمیں فاعل کی ضمیرخدا کی طرف لوٹے گی . یعنی خدا وند ِعالم نے مسئلہ امامت کوابراہیم علیہ السلام کی نسل میں دائم و بر تر قرار کریا . جیساکہ سُورہ ٴ بقرہ کی آ یت ۱۲۴ سے معلوم ہوتاہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خدا وند ِ عالم نے ارشاد فرمایا : میں نے تمہیں امام بنادیاہے ۔
توانہوں نے عرض کی کہ ان کی اولا د میں بھی امام ہونے چاہئیں ، چنانچہ خداوند تعالیٰ نے ان کی دُعا کوقبول فر مالیا .البتہ ظالم اورستم گار لوگوں کو اس سے مستثنٰی قرار دے دیا . ملاحظہ ہو :
”قالَ إِنِّی جاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی قالَ لا یَنالُ عَہْدِی الظَّالِمینَ “ ۔
لیکن بادی النظر میں جو مشکل معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ زیرتفسیر آ یت میں امامت کی بات نہیں ہو رہی ،مگر یہ کہ یہ کہا جائے کہ ” شیھدین“ (خدا مجھے ہدایت کرے گا )کے جُملہ کواس معنی کی طرف ایک اشارہ سمجھیںکیونکہ انبیاء اورآ ئمہ علیہم السلام کی ہدایت بھی خدا کی ہدایت مُطلقہ کی ایک شعاع ہے اورامامت اور ہدایت کی حقیقت ایک ہے ۔
اس سے بھی بہتر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ کہاجائے کہ امامت کا مسئلہ کلمئہ توحید ہی مند رج ہے کیونکہ توحید کی کئی فرد عات ہیں جن میں سے ایک فرع حاکمیت کرتے ہیں، نہ کہ ازخود امام اوررہبر بن جاتے ہیں.اسی لیے یہ روایات ” جعلھاکلمة باقیة “ کاایک مصداق اوراس کے کلی مفہوم کی ایک فرع سمجھی جائیں گی . بنا بریں یہ تفسیرپہلی تفسیر سے متضاد نہیںہوگی جوہم ادائل میں بیان کرچکے ہیں ( غور کیجئے گا ) ( ۴) ۔
یہ نکتہ بھی قابل غورہے کہ مفسرین نے ” فی عقبد “ کی تفسیر میںکئی احتمالات کاذکر کیاہے . بعض نے رہتی ” دنیا تک ابراہیم علیہ السلام کی تمام ذریّت اورنسل “ سے اس کی تفسیر کی ہے . بعض نے کہاہے کہ یہ صرف ابراہیم علیہ السلام کی قوم اوران کی اُمّت سے مخصوص ہے ، بعض نے آل محمد علیہم السلام سے تفسیر کی ہے .لیکن جوبات بظاہر نظر آ تی ہے وہ یہ ہے کہ اس کامفہوم وسیع اورعمومی ہے جوتاقیام قیامت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد پرمحیط ہے اور آ ل محمد کی تفسیر اس کا ایک واضح اور روشن مصداق ہے ۔
بعد کی آ یت درحقیقت کئی سوالوںکاایک جواب ہے اور وہ یہ کہ ان حالات کے باوجود آ خر کیاوجہ ہے کہ خدا وند عالم کیاہم اس سے پہلے کی آ یات میں یہ نہیں پڑھ چکے ” فانتقمنامنھم “ (گذشتہ اقوام میں سے جنہوں نے انبیاء کی تکذیب کی اوراپنے اس کام پرمصر رہے ہم نے ان سے انتقام لے لیا) ۔
اس سوال کے جواب میں فر مایاگیاہے : بلکہ ہم نے ( مشر کین مکّہ کے )اس گروہ اوران کے باپ داد ا کو دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند کیا حتی اورخدا کاواضح رسُول ان کے پاس آ گیا (بَلْ مَتَّعْتُ ہؤُلاء ِ وَ آباء َہُمْ حَتَّی جاء َہُمُ الْحَقُّ وَ رَسُولٌ مُبین) ۔
ہم نے شرک و بُت پرستی کے باطل ہونے میں صرف عقلی حکم پر اکتفا نہیں کیااور نہ ہی توحید کے بار ے میں صرف ضمیر کے حکم کوکافی سمجھا بلکہ اتمام حجت کے لیئے اُنہیں مہلت دی حتی کہ یہ آسمانی کتاب جوسر تاپاحق ہے اور یہ عظیم الشان پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )یعنی حضرت مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ان کی ہدایت کے لیے آ گئے۔
دوسرے لفظوں میں گزشتہ آ یت میں” لعلھم یرجعون “ اس بات کی نشاندہی کررہاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تمام کوششوں کامقصد یہی تھا کہ انکی تمام نسلیں راہ توحید کی طرف رجوع کریں . حالانکہ عرب اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس طرف رجوع نہیں کیا . مگر پھر بھی خدانے انہیں مہلت دی، یہاں تک عظیم رسُول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور نئی کتاب ان کے پاس پہنچ گئی تاکہ وہ اس گراں خوابی سے بیدار ہو ں ، چنا نچہ بہت سے لوگ بیدار ہو بھی گئے ۔
لیکن تعجب کی بات ہے کہ ” جب (قرآن مجید )ان کے پاس پہنچ گیا ، تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی اصلاح کرتے اور گزشتہ غلطیوں اور گناہوں کاازلہ کرتے ، اُلٹا بہت سے لوگوں نے مخالفت پرکمر باندھ لی اور کہا یہ تو جادُو ہے اور ہم اس کاانکار کرتے ہیں“ (وَ لَمَّا جاء َہُمُ الْحَقُّ قالُوا ہذا سِحْرٌ وَ إِنَّا بِہِ کافِرُون) ۔
جی ہاں ! انہوں نے قرآن کوجاد ؤ کہا اورخدا کے عظیم الشان پیغمبر کوجاد ؤ گر .اگروہ اپنی اس روش سے باز آ تے توعذاب الہٰی ان کے دامن گیر ہوجاتا۔
۱۔ ” براء “ ( بروزن ” سواری “ )مقصدر ہے اور ” تبریٰ “ کے معنی میںہے اورایسے مقامات پروصفی معنی میں تاکید اور مبالغہ پایا جاتاہے ، جیسے ” زید عدل “ اور چونکہ مصدر ہے لہذااس میں مفرد اور جمع مذکر اورموٴ نث یکساں ہیں ۔
۲۔اس تفسیر کے مطابق ” الاّ الّذی قطرنی “ میں استثنا ء ِ متصل ہے کیونکہ بہت سے بُت پرست اللہ کے منکر نہ تھے . بلکہ اس کے غیر
۳۔ ” عقب “ بنیاد ی طورپر پاؤں کی ایڑھی کے معنی میں ہے . البتہ بعد ازاں اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہو گئی اور یہ لفظ اولاد اور پھر اولاد کی اولاد کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔
۴۔صاحب تفسیر نور الثقلین نے ان احادیث کوجلد چہارم ،ص ۵۹۶ میں ذکر کیاہے .اور یہ تفسیر برہان جلد ۴ ،ص ۱۳۸ و ۱۳۹ میں بھی مذ کور ہیں ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma