تقلید آ باء کی دلیل

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21

گزشتہ آ یات میں بُت پرستوں کے اس خرافا تی عقید ے کا منطقی جواب دیاگیاہے جووہ فرشتوں کے بار ے میں رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں اور وہ یہ کہ کسی دعوے کے ثبوت کے لیے سب سے پہلے موقع پر موجو د ہونا ، کسی چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا اوراس کامشاہدہ کرناضر وری ہوتاہے ، جبکہ کوئی بھی بت پرست ہرگز اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ فرشتوں کی تخلیق کے وقت وہ اس بات کے شاہد اور ناظر تھے ۔
زیر ِ تفسیر آ یات بھی اسی چیز کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بارے میں مزید تحقیقا ت کا در واز ہ کھولتی ہیں اور اس بے ہودہ خرافات کو دوسر ے طریقوں سے باطل کرتی ہیں . چنانچہ سب سے پہلے ان کے پو رے دلائل میں سے ایک دلیل کوخلاصہ کے طورپر بیان کرتے ہُو ئے اس کاجواب بھی دیاگیاہے . ارشاد ہوتاہے : انہوں نے کہا: ” اگرخدا چاہتا توہم ان کی ہرگز عبادت نہ کرتے “ یہ تو اُن کی مرضی ہے کہ ہم اُن کی عبادت کرتے ہیں (وَ قالُوا لَوْ شاء َ الرَّحْمنُ ما عَبَدْناہُم) ۔
ممکن ہے یہ تعبیراس لیے بھی ہو کہ وہ عقیدہٴ جبر کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں سب خدا کی مرضی اوراس کی منشاء سے انجام دیتے ہیں ۔
یاپھر اس لیے کہ اگر ہمارے عقائد اوراعمال خدا کی مرضی کے مطابق نہ ہُوتے توخدافوراًہمیں ان سے روک دیتا او ر چونکہ اس نے ہمیں اس بات سے روکا نہیں ہے لہذااسی میں اس کی خوشنو دی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ غلط اورخر افاتی عقائد کوصحیح ثابت کرے اورا ن کی توجیہہ کرنے کے لیے کئی اورخر افات کے مرتکب ہوتے تھے اوراپنے جُھوٹے افکار کوسچا ثابت کرنے کے لیے کئی اور جھوٹ بولا کرتے تھے . مذ کورہ دونوں احتمالا ت میں سے جوبھی ان کامقصود اوران کی مراد ہو غلط اور بے اساس ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ کائنات میں کوئی بھی چیز خدا کے ارادہ کے بغیر واقع پذیر نہیں ہوسکتی لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ کائنات میں جبر حکم فر ماہے کیونکہ یہ بات فراموش کرنے کے قابل نہیں ہے کہ خدا کی مرضی اورمنشاء اسی بات میں ہے کہ ہم صاحب اختیار ارادہ اورصاحب آزادی ہوں تاکہ وہ ہمیں آ زمائے اورہماری پر ورش کرے ۔
یہ بات درست ہے کہ خدا کواپنے بندوں کے اعمال پرنظر رکھنا چاہیئے اوراس بات سے بھی انکار ناممکن ہے کہ تمام انبیاء نے شرک اور دوئی پرستی کی نفی کی ہے ۔
اس بات سے قطع نظر انسانی عقل سلیم بھی اس بات کاانکار کرتی ہے . تو کیاانسان کے باطنی وجود میں ” عقل “ خد ا کا پیغمبر نہیں ہے ؟
اسی آیت کے آخر میں بُت پرستوں کے اس بے ہودہ عقیدے کاایک مختصر سے جُملے کے ذریعے یوں جواب دیاگیاہے : وہ اپنے اس دعوے پر یقین نہیں رکھتے اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں کہتے (ما لَہُمْ بِذلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلاَّ یَخْرُصُون) ۔
انہیں تومسئلہ جبر اوراپنے اعمال پر خدا کی رضامندی کاعلم اوریقین بھی نہیںہے ، بلکہ بہت سے دوسر ے نفس پرستوں اور مجر مین کے مانند اپنے سرسے گناہ کابوجھ ہلکا کرنے کے لیے جبر کے موضوع کاسہارالیتے ہیں اورکہتے ہیںکہ تقد یر کے ہاتھ نے ہمیں اس راہ پر لا کھڑا کیاہے ۔
حالانکہ وہ خود بھی جانتے ہیںکہ جُھوٹ بو ل رہے ہیں اور یہ ان کاصرف ایک بہانہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے حقوق پامال کرتاہے تووہ ہر گز اس بات کے پیشِ نظر چشم پوشی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ اپنے اس کام میں مجبُور تھا ۔
” یخر صُون “ ” خرص “ ( بروزن ” غرس “ ) کے مادہ سے ہے جس کااصلی معنی انداز ہ لگانا ہے .پہلے تواس کااطلاق پھل میووں کے بار ے میں تخمینہ لگانے پرہو تا تھاپھر ہرقسم کے انداز ے کے بار ے میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا . چونکہ بعض اوقات اندازے اور تخمینے غلط ثابت ہوتے ہیں اسی لیے یہ لفظ جُھوٹ کے معنی میں بھو بولا جاتاہے اور زیر نظر آ یت میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
بہرحال قرآن مجید کی متعدد آ یات سے ظاہر ہوتاہے کہ بُت پرست لوگ اپنے خرافاتی اورغلط عقائد کی توجیہہ کے لیے کئی بار مشیّت الہٰی کے عقیدے کاسہارا لیتے تھے اوراس سے اپنے لیے استد لال کیاکرتے تھے ، حتی کہ جہاں انہوں نے اپنے لیے کئی چیزوں کوحلال اور کئی چیزوں کوحرام کردیاتھا تواس کی نسبت بھی انہوں نے خداکی طرف دے دی تھی جیساکہ سُورہ ٴ انعام کی آیت نمبر ۱۴۸ میں ہے ۔
سَیَقُولُ الَّذینَ اٴَشْرَکُوا لَوْ شاء َ اللَّہُ ما اٴَشْرَکْنا وَ لا آباؤُنا وَ لا حَرَّمْنا مِنْ شَیْء ٍ
” مشر ک لوگ بہت جلد یہ کہیں گے کہ اگر خدا چاہتا تونہ ہم مشرک ہوتے اور نہ ہی ہمارے آ باؤ اجداد اورکسی چیز کو حرام بھی نہ کرتے “ ۔
سورہٴ نحل کی آ یت ۳۵ میں بھی اس چیز کو دہر ایاگیاہے ، ارشاد ہوتاہے ۔
وَ قالَ الَّذینَ اٴَشْرَکُوا لَوْ شاء َ اللَّہُ ما عَبَدْنا مِنْ دُونِہِ مِنْ شَیْء ٍ نَحْنُ وَ لا آباؤُنا وَ لا حَرَّمْنا مِنْ دُونِہِ مِنْ شَیْء ٍ
قرآن مجید سورہ انعام کی آ یت کے ذیل میں ان کی تکذیب کرتے ہُو ئے فرماتاہے :
کَذلِکَ کَذَّبَ الَّذینَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتَّی ذاقُوا بَاٴْسَنا
” اس قسم کاجُھوٹ اس سے پہلے لوگ بھی بولا کرتے تھے لیکن انہوں نے ہماری سزا کا مزہ چکھ لیا۔
سورہ نحل کی آ یت کے ذیل میں تصریح کرتے ہُو ئے فرماتاہے :
فَہَلْ عَلَی الرُّسُلِ إِلاَّ الْبَلاغُ الْمُبینُ
” تو کیاخدا کے رسولوں پر تبلیغ رسالت کے علاوہ کچھ اور فرض ہے ؟ “
زیر تفسیر آ یت کے سلسلے میں بھی جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں قرآن ان کی طرف جُھوٹے تخمینوں کی نسبت دے رہاہے یہ حقیقت سب ایک ہی سلسلے کی کڑ یاں ہیں ۔
بعد کی آیت میں ایک اور دلیل کی طرف اشارہ کیاگیاہے کہ ممکن ہے وہ اِس کے ذریع ے استد لال کریں چنانچہ ارشاد ہوتاہے : یا یہ کہ ہم نے اس کتاب سے پہلے انہیں کتاب دی ہے اور وہ اس سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ (اٴَمْ آتَیْناہُمْ کِتاباً مِنْ قَبْلِہِ فَہُمْ بِہِ مُسْتَمْسِکُونَ) (۱)
یعنی انہیں اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے یا تو عقلی دلائل سے کام لینا چاہیئے یاپھر نقلی دلائل سے . حالانکہ نہ توان کے پاس کوئی عقلی دلیل موجود ہے اور نہ ہی نقلی . تمام عقلی دلائل توحید کی دعوت دیتے ہیں اور تمام انبیاء اور آسمانی کتابوں نے بھی توحید کی طرف دی ہے ۔
اس سلسلے کی آخری آ یت میں ان کے اصل بہانے کی طرف اشارہ کیاگیاہے اور یہ بہانہ بھی محض ایک خرافات اورایک اورخرافات کی بنیاد ہے . چنانچہ فر مایاکیاگیاہے : بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آ با ؤ و اجداد کوایک مذہب پر پایا ہے اور ہم بھی ان کے آثار کی طرف ہدایت کئے گئے ہیں ۔ (بَلْ قالُوا إِنَّا وَجَدْنا آباء َنا عَلی اٴُمَّةٍ وَ إِنَّا عَلی آثارِہِمْ مُہْتَدُون) ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس صرف اپنے آ با واجداد کی اندھی تقلید کے سوا اور کوئی دلیل نہیں تھی اور پھر تعجب اس پرہوتاہے کہ اس تقلید کے ذ ریعے وہ خود کو ہدایت یافتہ بھی سمجھتے تھے . حالانکہ اعتقاد ی مسائل میں آ زای خیال انسان کے افکار و عقائد کی بنیاد تقلید پر نہیںہوتی اور تقلید بھی ” جاہل کی “ ۔
کیونکہ واضح سی بات ہے کہ ان آ باء و اجداد کے پاس نہ تو علم تھا اور نہ ہی دانش ،بلکہ ان کے دماغ خرافات اور تو ہمات سے بھر ے ہُو ئے تھے . ان کے معاشر ے او ر افکار پر بھی جہالت ہی حکم فرماتھی جیساکہ قرآن جیسا کہ سُورہ ٴ بقرہ کی آ یت ۱۷۰ میں ہے :
وَ لَوْ کانَ آباؤُہُمْ لا یَعْقِلُونَ شَیْئاً وَ لا یَہْتَدُون
” کیاایسانہیں ہے کہ ان کے آ باء اجداد نہ توکچھ سمجھتے تھے اور نہ ہی ہدایت یافتہ تھے “ ۔
تقلید توصرف فر وعی اورغیر اقتصاد ی مسائل میں ہوتی ہے اوروہ بھی صحیح بنیاد وں پر اور پھر یہ کہ عالم کی تقلید کی جاتی ہے . یعنی جاہل کوعالم کی طرف رجوع کرناپڑ تا ہے جیسے بیمار ڈاکٹرکی طرف رجوع کرتاہے یاغیر ماہر افراد ماہرین کی طرف رجوع کرتے ہیں .اسی لیے مشرکین کی یہ اندھی تقلید دو طرح سے باطل اورقابل مذمت ہے ۔
” امة “ کالفظ جیساکہ راغب ، مفرادت میںکہتے ہیں ، اس جماعت پر بولا جاتاہے ، جس کے افراد ایک دوسر ے کے ساتھ ایک قسم کا رابط رکھتے ہیں. یاوہ رابط دینی بنیاد وں پر ہوتاہے یامکان کے لحاظ سے یازمانے کے اعتبار سے ، اگر چہ ان کا باہمی اتصال اختیار یامجبوری کی صُورت میں ہو ( اسی لیے بسااوقات اس کو ” مذہب “ کے معنی میں بھی لیا جاتاہے . جیساکہ اسی آیت میں ہے . لیکن اس کاصل معنی وہی جماعت اور گروہ ہے اوراس کلمہ کامذہب پر اطلاق قرینے کا محتاج ہوتا ہے ( ۲) ۔
۱۔ یہاں پر ” ام “ متصلہ ہے اور ” اشھد و ا خلقھم “ پراس کاعطف ہے اور ” من قبلہ “ کی ضمیر ” قرآن “ کی طرف لوٹ رہی ہے . بعض مفسرین نے جو یہ احتمال ذکر کیاہے کہ ” ام “ منقطعہ ہے یاضمیر ” رسول “ کی طرف لوٹ رہی ہے ، قرینے کے لحاظ سے قطعاً مناسب نہیں ہے ۔
۲۔” إِنَّا عَلی آثارِہِمْ مُہْتَدُون“ میں لفظ ” مھتدون “ ” ان “ کی خبر ہے اور ” علیٰ اٰثار ھم “ اس سے متعلق ہے . یہ جو بعض مفسرین نے احتمال ذکر کیا ہے کہ ” عَلی آثارِہِم“ ” ان “ کی پہلی خبر اور ” مھتدون “ اس کی دوسری خبرہے ،بعید معلوم ہوتاہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma