مخلصین کا اجر وثواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 41 - 49گمراہ پیشو اؤں اوران کے پیر و کاروں کاانجام
قرآن کریم کی آیات میں غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ” مخلص “ زیا دہ “ ترایسے مواقع پر استعما ل ہواہے ،جب انسان تربیّت و اصلاح اورخود سازی کے مرحلوں میں ہوتاہے اورابھی ضروری تکامل وارتقاء کی منزل تک پہنچا ہوانہیں ہوتا . لیکن ” مخلص “ اس مرحلے کے لیے کہاجاتاہے،جب انسان ایک مدّت تک جہاد بالنفس کرنے اورمعرفت وایمان کے مراحل طے کرنے کے بعد اس منزل پر فائز ہوجاتاہے جہاں شیطان کے وسوسوں کے اثر سے محفوظ ہو جاتاہے جیساکہ قرآن ابلیس کے قول کونقل کرتاہے۔
َ فَبِعِزَّتِکَ لَاٴُغْوِیَنَّہُمْ اٴَجْمَعینَ ،إِلاَّ عِبادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصینَ
تیر ی عزّت کی قسم ! تیرے مخلص بندوں کے سو. میں ان سب کو گمراہ کردوں گا ( ص . ۸۲ ، ۸۳) ۔
یہ جملہ جو بار ہاقرآن کی آیات میں آیا ہے ” مخلصین “ کے مقام کی عظمت کوواضح کرتاہے . یہ یوسف علیہ السلام جیسے صدّیق افراد کا مقام ہے جو عظیم آز مائش کے میدان کوعبور کرتے ہیں :
کَذلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوء َ وَ الْفَحْشاء َ إِنَّہُ مِنْ عِبادِنَا الْمُخْلَصین
ہم نے یوسف علیہ السلام کو اس طرح سے اپنی برہان دکھائی تاکہ برائی اوربدی کو ہم اس سے دُور کردیں ،کیونکہ وہ ہمار ے مخلص بندوں میں سے تھا ( یوسف .۲۴) ۔
یہ ان لوگوں کامقام ہے جو جہاد اکبرمیں کامیاب ہوجاتے ہیں اورلطفِ پروردگار کاہاتھ ، تمام غیر خالص باتوں کو ان کے وجود سے پاک کردیتاہے اورحوادث کی بھٹی میں وہ اس طرح سے پگھل جاتے ہیں کہ معرفتِ خالص کے سونے کے سواان میں کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔
یہ وہ منزل ہے جہان ان کااجر عمل کے معیار پر نہیں ہوتابلکہ خدا کے فضل ورحمت کے معیار پرہوتاہے۔
علامہ طبا طبائی نے اس مقام پر ایک بات کہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔
خدا زیر بحث آ یت میں فر ماتا ہے تمام لوگ اپنے اعمال کااجر پائیں گے ،خدا کے مخلص بندوں کے سوا۔
کیونکہ وہ اپنی عبودیت کی بنا پر خود کوکسی چیزکامالک نہیں سمجھتے اورجوکچھ خدا چاہتاہے اس کے سوا کسی اور چیز کاارادہ نہیں کرتے اورجس چیز کاوہ مطالبہ کرتاہے اس کے سوا کسی اور چیز کوانجام نہیںدیتے ۔
مخلص ہونے کی بنا پر خدانے انھیں اپنے لیے منتخب کرلیاہے . و ہ اس کی پاک ذات کے سوا کسی اور چیز کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے ۔
ان کے دل میں اللہ کے سواکوئی چیز نہیں ہے ، نہ رزق و برق دنیا ہے اورنہ ہی آ خرت کی نعمتوں کاخیال ۔
اب یہ بات واضح ہے کہ جوشخص ان صفات کاحامل ہے اس کی لذّت ونعمت اور روزی ایسی چیز ہے جودوسر وں کاحاصل نہیں ہے . جیساکہ
بعد والی آیت میں بیان ہواہے:
اٴُولئِکَ لَہُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ
ان کی روزی ایسی خاص اورمخصوص ہے کہ جو دوسروں سے جُدا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ وہ بھی دوسرے اہل بہشت کی طرح بہشت میں زندگی بسر کتے ہیں لیکن ان کا حصّہِ دوسروں کے حصّے کے ساتھ کوئی مشابہت نہیں رکھتا.( وہ خداکی پاک ذات کے جلووں سے باطنی لذّات محظوظ ہوتے ہیں اوران کا دل اس کے پیما نہ ٴ شوق سے لبر یز ہوتاہے اور وہ اس کے عشق ووصال میں غرق ہوتے ہیں ( 1) ۔
 1۔ المیزان ،جلد ۱۷ ،ص ۱۴۱۔ 
سوره صافات / آیه 41 - 49گمراہ پیشو اؤں اوران کے پیر و کاروں کاانجام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma