مغرور دشمنوں کا انجام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 77- 78سوره مؤمن/ آیه 69- 76
ان آیات میں پھران لوگوں کاتذکرہ ہے جو آیاتالہٰی کے بارے میں مجادلہ کرتے ہیں اور نبوت کے دلائل اورابنیاء کی دعوت کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے . ان آیات میں ان افراد کے انجام کی واضح طور پر منظر کشی کی گئی ہے ۔
سب سے پہلے فر مایاگیاہے : آیاتونے ان لوگوں کونہیں دیکھا جو آیا ت الہٰی میں مجادلہ کرتے ہیں کہ وہ کس طرح راہِ حق سے پھرجاتے ہیں (اٴَ لَمْ تَرَ إِلَی الَّذینَ یُجادِلُونَ فی آیاتِ اللَّہِ اٴَنَّی یُصْرَفُونَ)۔
یہ مجادلہ ، ضداور عناد پرمبنی گفتگو ، یہ اندھی تقلید اور بے بنیادتعصبات اس بات کاسبب بن جاتے ہیں کہ وہ صراط مستقیم سے بھٹک کربے راہروی کاشکار ہوجائیں ، کیونکہ حقائق صرف اس وقت واضح ہوتے ہیں جب انسان کے اندرتلاشِ حق کی روح زندہ ہو ۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے استفہامیہ انداز میں اس با ت کابیان اس چیز کوواضح کررہاہے کہ جوبھی غیر جانبدار شخص ان کے حالات پرنگاہ ڈالے گاوہ ان کی بے راہروی اور راہ ِ حق سے بھٹک جانے پر سخت تعجب کرے گا کہ اس قد ربیّن آیات اورواضح نشانیوں کے با وجود وہ حق کوکیوں نہیں دیکھتے ؟
پھر ان کے بار ے میں مزیدوضاحت کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آسمانی کتاب اوراس چیز کو جھٹلایاجوہم نے رسولوں پرنازل کی (الَّذینَ کَذَّبُوا بِالْکِتابِ وَ بِما اٴَرْسَلْنا بِہِ رُسُلَنا )۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس سورت میں بار ہا ” آیات الہٰی کے بار ے میں مجادلہ کرنے والوں “ کا ذکر آیاہے اورتین مقامات ( ۳۵ و یں ۳۶ ویں اور زیرنظر آیا ت ) میں ” الذ ین یجادلون فی اٰیات اللہ “ مذ کور ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ ” اٰیات اللہ “ زیاد تر مرادوہی آیات نبوت اور آسمانی کتابوں کے مندرجات ہیں. نیز چونکہ توحید کی آیات اور معاد سے متعلقہ مسائل آسمانی کتابوں میں مندرجہ ہیں لہذا وہ بھی ا ن کے مجادلہ کی زدمیں آتے ہیں ۔
یہاں پر یہ سوال پیداہوتاہے کہ آیا ت اس جملے کوبار بار دہرانا کسی اہم مطلب کی تاکید ہے یاہرمقام پرکوئی نئی بات بتانی مقصود ہوتی ہے ؟ بظاہر دوسرا احتما ل زیادہ قرین ِ عقل معلوم ہوتاہے کیونکہ ان تینوںآیات میں سے ہرایک میں ایک نئی بات ذکر کی گئی ہے ، جس سے خاص مطلب بتانامقصود ہے ۔
آیت ۵۶ میں اس قسم کے مجادلہ کاسبب تکبر ، غرور او ر نخوت بیان کیاگیاہے جبکہ آیت ۳۵ میں اس کاسبب ان کی دنیاوی سزا کے طور پر ان کے دلوں پرلگی مہروں کاذکر ہے اورزیر نظر آیت میں اس کاسبب ان کی اُخروی سزا اور دوزخ کے مختلف عذاب بیان ہوئے ہیں ۔
اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ ” یجادلون “ کاصیغہ فعل مضارع کی صورت میں بیان ہوا ہے جواستمرار پردلالت کرتاہے اوراس بات کااشارہ ہے اس قسم کے افراد جوآیات الہٰی کی تکذیب کرتے ہیں اپنے غلط عقائد اوربرے اعمال کی توجیہ کے لیے ہمیشہ مجادلہ اور بے بنیاد بحث کاسہار الیتے ہیں ۔
بہر حال آیت کے آخر میں انہیں ان الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے : وہ بہت جلد اپنے غلط اعمال کے انجام سے باخبر ہوجائیں گے ( فَسَوْفَ یَعْلَمُون)۔
جب ان کی گردنوں میں طوق اورزنجیر ڈال کرانہیں کشاں کشاں جہنم میں لے جایاجائے گا (إِذِ الْاٴَغْلالُ فی اٴَعْناقِہِمْ وَ السَّلاسِلُ یُسْحَبُونَ ) ( ۱)۔
” سلاسل “ ” سلسلة “ کی جمع ہے جس کامعنی کامعنی زنجیر ہے . اور” یسحبون “ ”سحب “ ( بروزن ” سہو “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی ” کھینچنا “ ہے ۔
پہلے وہ کھولتے پانی میں اورپھر جہنم میں جلائے جائیں گے (فِی الْحَمیمِ ثُمَّ فِی النَّارِ یُسْجَرُون)۔
” یُسْجَرُون“ ” سجر“ ( بروزن ” فجر “ ) کے مادہ سے ہے جو مفردات میں راغب کے بقول آگ جلانے اوراسے بھڑ کانے کے معنی میں ہے ، بعض دوسرے اربات لغت اور مفسرین کاکہنا ہے کہ ا س کامعنی ہے ” تنور کوآگ سے بھردینا “ ( ۲)۔
اس لیے بعض مفسرین نے آیت کامعنی یہ سمجھا ہے کہ اس قسم کے کفار خود ہی جہنم کاایندھن ہوں گے جیسا کہ سورہ بقرہ کی چوبیسویں ۲۴ آیت میں ہے :
فاتقوا النار التی وقو د ھاالناس والحجارة
اس آگ سے بچو ، جس کا ایندھن بتھر اورانسان ہوں گے ۔
بعض لوگو ں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ ان کاتمام وجود آگ سے بھرجائے گا ( البتہ دونوں معانی میں کوئی تضاد نہیں پایاجاتا)۔
مجادلہ کرنے والوں اور ضدی مستکبر ین کے لیے اس قسم کی سزادرحقیقت ان کے اس دنیامیں اعمال کی مناسبت سے رد عمل ہوگا . کیونکہ وہ دنیا میں تکبراو ر غرور کی وجہ سے خدا ئی آیا ت کوجھٹلایاکرتے تھے اورانھوں نے خود کواندھی تقلید اور تعصبات کی زنجیروں میں جکڑ اہواتھا لہذاسدن نہایت ہی ذلت وخواہی کے ساتھ طوق اور زنجیر ان کی گردنوں میں ڈالے جائیں گے ، پہلے توانہیں کھولتے پانی میں ڈالا جائے گا پھر جہنم کاایندھن بناکر اسی میں دھکیل دیاجائے گا ۔
اس جسمانی عذاب کے علاوہ انہیں روحانی عذاب کے طور پر بھی درد ناک سزا دی جائے گی ، ان کی سزاؤں میں سے ایک وہی ہے جس کے بار ے میں آیت میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیاہے : پھر انہیں کہاجائے گا کہاں ہیں وہ جن کوتم خدا کاشریک ٹھہرایاکرتے تھے (ثُمَّ قیلَ لَہُمْ اٴَیْنَ ما کُنْتُمْ تُشْرِکُون)۔
وہی معبود کہ جن کی تم خدا کے علاوہ عبادت کیاکرتے تھے (مِنْ دُونِ اللَّہ)۔
تاکہ وہ تمہاری شفاعت کریں اورآتش جہنم کی درد ناک سزا اور متلا طم موجوں سے تمہیں نجات دلائیں . کیاتم بار ہایہی نہیں کہاکرتے تھے کہ ہم ان کی اس لیے عبادت کرتے ہیں تاکہ وہ ہمارے شفیع بنیں تو کہاں گئی ان کی شفاعت ؟
لیکن وہ نہایت شرمند گی اور رسوائی کی وجہ سے سرجھکاکرجواب میں ” کہیں گے وہ تو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں اورنیست ونابود اور یوں ہلاک ہوچکے ہیں کہ اب ان کانام و نشان تک باقی نہیں رہا ‘ (قالُوا ضَلُّوا عَنَّا ) (۳) ۔
اس میں شک نہیں ... جیساکہ قرآن مجیدکی دوسری آیات میں بھی آیاہے کہ --- ... یہ جھوٹے معبود جہنم میں ہوں گے اوربعید نہیں کہ ان کے ساتھ ہی ہوں ، لیکن چونکہ وہاں پر نہ تو ان کاکوئی کروار ہوگا اور نہ ہی کسی قسم کااثر ، لہذا ان کاوجود او رعدم وجود یکساں ہوگا ۔
پھر جب وہ دیکھیں گے بتوں کی عبودیت کااعتراف توان کی پیشانی کاداغ ثابت ہو رہاہے لہذا انکا ر پرتُل جائیں گے اور کہیں گے : اس سے پہلے تو ہم باکل کسی چیز کی عبادت ہی نہیں کیاکرتے تھے (بَلْ لَمْ نَکُنْ نَدْعُوا مِنْ قَبْلُ شَیْئاً)۔
جنہیں ہم حقیقت سمجھتے تھ اوہام اورخیالات کے سوا کچھ نہیں تھے ، ہماری زندگی کے صحرامیں ان کی حیثیت سراب کی سی تھی . جنہیں ہم پانی سمجھتے تھے . لیکن آج معلوم ہوا کہ وہ تو اسم بے مسمٰی اورالفاظ بے معنی ومفہوم تھے . جن کی عبادت ضلالت وگمراہی اور فضولیات کے علاوہ کچھ نہیں تھی . بنا بریں وہ ایک ناقابل تردید حقیقت کااعتراف کریں گے ۔
اس آیت کی تفسیر میں ایک اوراحتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ اہل جہنم جھوٹ بولنے پراتر آئیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ جھوٹ بول کر رسوائی سے بچ جائیں گے جیسا کہ سورہ انعام کی آیات ۲۳ اور ۲۴ میں ہے ۔
ثم لم تکن فتنتھم الا ان قالو ا واللہ ربنا ما کنا مشر کین انظر کیف کذبو اعلیٰ انفسھم وضل عنھم ماکانوا یفرون
ان کے عذر کاجواب اس کے سواکچھ نہیں ہوگا کہ کہیں گے اس خدا کی قسم جوہمارا پر وردگار ہے ، ہم مشرکین نہیں تھے . ذ رادیکھئے تو کہ وہ اپنے آ پ پرکیونکہ جھوٹ بول رہے ہیں ؟اور جنہیں وہ جھوٹ موٹ سے خدا کاشریک سمجھتے تھے ان کی نگاہوں سے اوجھل اور گم ہوجائیں گے ۔
آیت کے آخر میں فر مایاگیاہے : اس طرح خدا کافروں کوبھٹکادیتاہے (کَذلِکَ یُضِلُّ اللَّہُ الْکافِرین)۔
ان کا کفر اور ہٹ دھرمی ان کے قلب وفکر پرپردے کاکام دے گی لہذا حق کے سیدھے رستے کوچھوڑ کربے راہر وی کاشکار ہوجاتے ہیں لہذا بروز قیامت بھی بہشت کے رستے سے بھٹک کردوزخ کی راہ اختیار کریں گے . جی ہاں ! اس طرح خدا کافروں کو گمراہ کرتاہے ۔
بعد کی آیت اس گروہ کی اس قدر مصیبتوں اورعذاب می گرفتار ہونے کی وجود ہات بیان کررہی ہے کہتی ہے :تمہیں یہ عذاب اس لیے دیاگیا ہے کیونکہ تم زمین میں ناحق خوشیاں مناتے تھے او ر غرور اورخواہشات نفسانی کی لذ توں میں مگن رہتے تھے (ذلِکُمْ بِما کُنْتُمْ تَفْرَحُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ بِما کُنْتُمْ تَمْرَحُونَ )۔
انبیاء کی مخالفت کرکے ، مو منین کوشہید کرکے اور غریبوں مسکینوں کومشکلات و مصائب میں ڈال کر مز ے لیتے تھے ، گناہوں کا ارتکاب اور دین شکنی کرکے فخرو مباہات کرتے تھے . اب ان نا جائز خوشیوں ، غرو ر ، غفلت اور مستی و شہوات کاکفارہ تم ان طوق اور زنجیروں میں جکڑ کر اور آگ کے بھڑکتے شعلوں میں جل کر اداکرو ۔
” تفرحون “ ” فرح “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی اورخوشی ہے . خوشی کبھی ممدوح اور قابلِ تعریف ہوتی ہے ۔
جیسا کہ سورہ ٴ روم کی چوتھی اور پانچویں آیت میں ہے :
ویو مئذ یفر ح المو ٴ منون بنصراللہ
” جس دن (اہل کتاب رومیوں کومشرک مجو سیوں پر ) فتح حاصل ہوگی تومومنین خوش ہوں گے “ ۔
کبھی خوشی قابل مذمت اور ناجائز ہوتی ہے . جیسا کہ سورہ قصص کی آیت ۷۶ میں قارون کی داستان میں ہے :
إِذْ قالَ لَہُ قَوْمُہُ لا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّہَ لا یُحِبُّ الْفَرِحین
وہ وقت یاد کرو جب اس کی قوم نے اسے کہا : اس قدر مغرور ان خوشیاں نہ مناکیونکہ خداخوشی منانے والے مغرور لوگوں کوپسند نہیں کرتا ۔
البتہ یہ فرق قرائن کے ذریعے ہی معلوم ہوگااورظاہر ہے کہ زیر تفسیر آیت میں ” فرح “ کی دوسری قسم مراد ہے ۔
” تمرحون “ ” مرح “ ( بروزن ”فرح “ کے مادہ سے ہے جوبعض اربابِ لغت اور مفسرین کے بقول حد سے زیادہ اور بے پناہ خوشی کے معنی ہیں ہے ۔
بعض حضرات کے نزدیک بے بنیاد باتوں کی وجہ سے پیداہونے والی خوشی کانام ”مَدَح “ ہے جب کہ بعض لوگ اسے ایسی خوشی کے معنی میں لیتے ہیں جس میں عیش و نشاط پائی جائے اورخدا ئی نعمتوں کو غلط راہ میں استعمال کیاجائے ۔
ظاہر یہ ہے کہ یہ سب معانی ایک ہی مقصود کی طر ف لوٹ جاتے ہیں کیونکہ بے انتہائی اورحد سے زیادہ خوشی کاسرچشمہ اس قسم کے مسائل ہوتے ہیں جومختلف گناہوں ، ناپا کیوں ، عیاشیوں اورخواہشات نفسانی کے ساتھ مخلوط ہوتے ہیں ( ۴)۔
جی ہاں اس قسم کی خوشی میں غرور ، غفلت ، ہوا وہوس اورخواہشات نفسانی پائی جائیں انسان کوبہت جلدخداسے دور کرتی ہے اورحقائق کے ادراک سے روک دیتی ہے لہذا وہ واقعیت کومذاق اورحقیقت کومجاز سمجھنے لگتاہے . اورپھر اس قسم کے لوگوں کا انجام و ہی ہوتا ہے جومندرجہ بالاآیات میں بتا یاگیاہے ۔
ایسے موقع پران سے کہاجائے گا : جہنم کے در وازوں سے داخل ہوجاؤ اوراس میں ہمیشہ رہو (ادْخُلُوا اٴَبْوابَ جَہَنَّمَ خالِدینَ فیہا َ)۔
اور متکبرین کے لیے کیاہی بُرا ٹھکانا ہے (فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرین)۔
یہ جملہ اس بات کی ایک اور تاکید ہ کہ ان کی بد بختیوں کااصلی مرکز تکبر اور غرور ہے . وہی تکبرجوام الفساد ، انسان اورحق کے درمیان پر دہ ، ابنیاء کے مقابلے میں محاذ آرائی اورباطل کی راہ میں اصرار کرنے کاسبب ہے ۔
اس آیت میں ہمیں پھر ” ابواب جھنم “ ( جہنم کے دروازوں ) کاتذ کرہ ملتاہے . کیاجہنم کے دروازوں سے داخل ہونے کایہ معنی ہے کہ ہر ٹولہ ایک علیٰحدہ دروازے سے جہنم میں جائے گا یاایک ٹولہ متعدد دروازوں سے داخل ہوگا ؟گویاجہنم بھی بعض وحشت ناک اور تاریک قید خانوں کی طرح ہے کہ جن کے کمرے ایک دوسرے میں داخل اورپیچھے ہوتے ہیںیاان کے مختلف طبقے ہیں اور زبردست گمراہ لوگوں کے ایک ٹولے کو ان طبقات سے گزر ناپڑے گااور جہنم کے نچلے سے نچلے طبقے میں انہیں ٹھہرا یاجائے گا ۔
اس بات کی شاہدامیرالمو منین علیہ السلام کی ایک حدیث ہے جو آپ علیہ السلام نے ” لھاسبعة ابواب لکل باب منھم جزء مقسوم “ ( سور حجر . ۴۴ ) کی تفسیر میں ارشاد فرمائی ہے ۔
ان جھنم لھاسبعة ابواب اطباق بعضھافوق بعض ، ووضع احدی یدیہ علی الاخرٰی ، فقال ھٰکذا
” جہنم کے ساتھ دروازے ہیں ، سات طبقے جو ایک دوسرے کے اوپر ہیں . پھرآپ نے اپناایک ہاتھ دوسرے کے اوپر کرکے فرمایا : اس طرح ( ۵)۔
اس سلسلے میں ایک اور تفسیر بھی ملتی ہے جس کاخلاصہ یوں ہے :
جہنم کے دروازے ... بہشت کے دروازوں کے مانند ... ان مختلف عوامل کی طرف اشارہ ہے جوانسان کوجنت میں لے جاتے ہیں. ہر قسم کاگناہ یاہر قسم کانیک عمل ایک دروازہ شمار ہوتا ہے . اسلامی روایات میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیاگیاہے اورسات کاعدد ” کثرت “ کے بیان کے لیے ہے نہ کہ تعداد بتانے کے لیے بہشت کے لیے جو کہاجاتاہے کہ ا س کے آٹھ دروازے ہیں تویہ عذاب وغضب کے اسباب کی نسبت رحمت کے اسباب کی کثرت کی طرف اشارہ ہے ( غور کیجئے گا )۔
البتہ دونوں تفسیروں کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے ( ۶)۔
۱۔ ” اغلال “ ” غل “ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ” وہ طوق جوگردن یاہاتھ اورپاؤں میں ڈالے جاتے ہیں “ یہ دراصل ”غلل“ (بروزن اجل ) کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے وہ پانی جو درختوں کے درمیان چلتاہے اگرخیانت کو ” غلول “ اور پیاس سے پیداہونے والی حرارت کو ”غلل“ کہتے ہیں تو اس کی وجہ انسان کے اندر تدریجی نفوذ ہے ۔
۲۔ تفسیرصافی ،تفسیرروح المعانی اورتفسیر کشاف ، انہی آیا ت کے ضمن میں ” لسان العرب“ نے ” سجر“ کااصلی معنی پُر کرنابتا یاہے اور کہاہے کہ ”سجر ت النھر“ یعنی نہرپانی سے بھری ہوئی ہے ۔
۳۔ مفسرین نے یہاں پر ” ضلّوا “ کے دومعانی بتائے ہیں ایک تو ” ضاعوا“ (ضائع ہوگئے ) اوردوسرے ” ھلکوا “ ( ہلاک ہو گئے ) اوربعض مفسرین نے اس کلمہ کو ” غابو ا “ کے معنی میں لیا ہے یعنی ” غائب ہوگئے “ جیسے ہم کہتے ہیں ” ضلت الدابة “ یعنی ” غابت فلم یعرف مکا نھا “ ۔
۴۔ راغب مفردات میں کہتے ہیں : الفرح الشراح الصدر بلذة عاجلة واکثر مایکسون ذالک فی اللذات البد نیة وامرح شدة الفرح والتوسع فیہ ۔
۵۔ مجمع البیان جلد ۵ ، ۶ ص ۳۳۸ (سورہ حجرکی آیت ۴۴ کے ذیل میں ) اس بار ے میں اوربھی بہت سی روایات ہیں جنہیں علامہ مجلسی مرحوم نے بحارالا نوار کی جلد ۸ ،ص ۲۸۹ ،ص ۳۰۱ اور ص ۲۸۵ میں ذکر فرمایاہے ۔
۶۔ اس سلسلے میںمزید تفصیل کے لیے تفسیر نمونہ جلد۱۱ ( سور ہ حجر آیت ۴۴ ) کے ذیل میں مطالعہ فرمائیں ۔
سوره مؤمن/ آیه 77- 78سوره مؤمن/ آیه 69- 76
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma