گناہوں کا اعتراف لیکن کب ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 13- 15سوره مؤمن/ آیه 10- 12

گزشتہ آیات میںمو منین کے ” رحمت الہٰی “ میں شامل ہونے کی بات ہو رہی تھی . زیرنظر آیات میں بے ایمان لوگوں پر غضب الہٰی “ کی گفتگوہورہی ہے تاکہ دونوں فریقوں کاتقابل کرکے گفتگو کومزید واضح کردیاجائے ۔
سب سے پہلے فرمایاگیاہے : جو لوگ کافر ہو چکے ہیں انہیں بروزقیامت آواز دی جائے گی کہ تمہارے بار ے میں تمہاریاپنی عداوت اورغصے کی نسبت خداوند عالم کی عداوت اورغصہ زیادہ ہے کیونکہ تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تھے لیکن تم کفر کا رستہ اختیار کرتے تھے (إِنَّ الَّذینَ کَفَرُوا یُنادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّہِ اٴَکْبَرُ مِنْ مَقْتِکُمْ اٴَنْفُسَکُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَی الْإِیمانِ فَتَکْفُرُونَ)۔
ان کفارکو یہ آواز کون دے گا ؟ ظاہراً کہ ان کولغت ملامت ، سر زنش اور رسواکرنے کے لیے عذاب کے فرشتے ہی ایسی آواز دیں گے جبکہ رحمت کے فرشتے ہمیشہ موٴ من اورصالح لوگوں کی عزت واحترام کے لیے کمربستہ نظر آئیں گے ۔
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیاہے کہ یہ آواز خود ان کفار کی ہو جو دوسرے کفار کو دیں گے . لیکن پہلامعنی زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے .بہرصورت کفار یہ آواز ضرور سنیں گے خواہ وہ کسی کی طرف سے ہواور بعد کی آیات اس معنی پر واضح طو ر پرگواہی دے رہی ہیں ۔
لغوی طور پر ” مقت “ کامعنی بعض اور زبردست عداوت ہے ، یہ آیت بتا رہی ہے کہ بے ایمان لوگ جس قدر اپنے بار ے میں سخت اور زبردست عداوت پیدا کرتے جائیں گے خد ا وندقہار کاغضب بھی ان کے بار ے میں اتناہی بڑھتا جائے گا ۔
اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے بار ے میں کافرلوگوں کی عداوت اورغصّہ سے کیامراد ہے ؟تویہاں پر دوتفسیر یں ملتی ہیں ۔
ایک یہ کہ ان لوگوں نے اپنے بار ے میں بہت بڑی دشمنی کاارتکاب کیاہے کیونکہ وہ منادیانِ توحید اور پیامبرانِ الہٰی کی باتوں کوٹھکراتے اور جھٹلاتے رہے ہدایت الہٰی کے چراغوں سے منہ ہی نہیں پھیرا انہیں گل بھی کرتے رہے تو کیا انسان کی اپنی ذات کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اوردشمنی ہوسکتی ہے کہ خواہشات ِ نفسانی کی پیروی کرتے ہوئے اور چند روزہ مادی مفاد کے لیے سعادت ِ ابدی کی راہیں ہمیشہ کے لیے اپنے لیے بند کردے اوردائمی عذاب کےددروازے اپنے لیے کھول دے ؟
اس تفسیر کے مطابق درحقیقت ”اذ تدعون الی الا یمان فتکفرون “ (اس وقت تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کیاکرتے تھے ) کاجملہ ان کی اپنی ذات کے ساتھ عداوت اورغصے کی کیفیت بیان کررہاہے ۔
دوسری یہ کہ ان کی اپنی ذات کے ساتھ دشمنی اورغصّے سے مراد قیامت کے دن کی دشمنی ہے . کیونکہ جب وہ وہاں پر اپنا انجام دیکھیں گے تو سخت پشیمان ہوں گے ،ان کی چیخ وپکار بلند ہوگی زبردست غصے کی وجہ سے اپنے دونوں ہاتھوں کواپنے دانتوں سے کاٹیں گے ۔
و یوم یعضّ الظالم علیٰ یدیہ ( فر قان . ۲۷)۔
آرزو کریں گے کہ :
یالیتنی کنت تراباً
” اے کاش کہ خاک ہوتے “ (نبا ء . ۴۰)۔
زیردست تکلیف کی وجہ سے پیچ و تاب کھائیں گے اور چونکہ فبصرک الیوم حدید (ق . ۲۲ ) کے پیش نظر چشم بیناحاصل کرچکے ہوگے ” یوم تبلی السرائر “ ( طارق . ۹) کے پیش نظر تمام اندرونی بھید منظرِ عام پر آچکے ہوں گے ،” واذ االصحف نشرت“ ( تکویر . ۱۰) کے پیش نظر ہر ایک کانامہٴ اعمال ظاہرہو چکاہوگا - ” کفٰی بنفسک الیوم علیک حسیباً “ ( بنی اسرائیل . ۱۴ ) کے پیش نظر ہر انسان اپنا حساب آپ کرنے کے لیے بلایا جاچکا ہوگا اورخود ہی اپنے خلاف فیصلہ دے گا اوراپنے آپ سے بالکل متنفر ہو کرراہِ فرار اختیار کرے گا۔
اسی موقع پر انہیں آواز دی جائے گی :
” تم پر خدا کی دشمنی اورغضباس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ راہِ حق کی طرف بلانے والے اللہ کے پیغمبر تمہیں ایمان کی دعوت دیتے تھے لیکن تم کفر کی راہ اختیار کرتے تھے اوراسی پر گامزن رہتے تھے ۔
اس تفسیر کے مطابق” اذتد عون الی الا یمان فتکفرون “ کاجملہ ان کے بار ے میں غضبِ خداکی عظمت کی دلیل بن رہاہے (۱)۔
دونوں تفاسیرمناسب ہیں لیکن پہلی تفسیر کئی لحاظ سے زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے ۔
بہرصورت ،حالات خواہ کیسے ہی ہوں گناہ گار لوگ قیامت کی صورت ِ حال اوراپنے بار ے میں غضب ِالہٰی کو مشاہد ہ کرنےکے بعد ایک لمبے خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائیں گے اوراس کے لیے چارہٴ کار کی فکر میں لگ جائیں گے اور کہیں گے” پر ور دگار ا ! تو نے ہمیں دومرتبہ مارا اور دو زندہ کیاہے اورہم نے موت وحیات کے ان مراحل میںبہت کچھ سیکھ لیاہے اب ہم گناہوں کااعتراف کرتے ہیں آیا (دوزخ سے ) باہر جانے اور دنیا میں واپس جاکر ان گناہوں کی تلافی کرنے) کاکوئی راستہ ہے “ ؟(قالُوا رَبَّنا اٴَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَ اٴَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنا بِذُنُوبِنا فَہَلْ إِلی خُرُوجٍ مِنْ سَبیل)۔
جی ہاں ! اب غفلت کے پردے آنکھوں سے ہٹیں گے اورانسان کی حقیقت مین نگاہیں کھلیں گی لہذا اعترافِ گناہ کے سواکوئی چارہ ہی نہیں ہوگا ۔
کفار اس دنیا میں معاد (اورقیامت ) کاسخت انکار کیاکرتے تھے اور اس بارے میں انبیاء علیہم السلام کامذاق اڑایاکرتے تھے لیکن اپنی مسلسل موت و حیات کاسلسلہ دیکھیں گے توان کے لیے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی ان لوگوں کودو موتوں اور دوزندگیوں پر بار بار زور دینا شایداس لیے ہے کہ وہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ ” اے وہ خدا جو مارنے اورجلانے کی قدرت رکھتا ہے ! تجھ میں اس بات کی بھی قدرت ہے کہ تو ہمیں دو بارہ دنیامیں بھیج دے تاکہ ہم وہاں جاکر اپنے اعمال کی تلافی کریں “ ۔
دوموتیں اور دو زندگیا ں
یہاں پر ” دومرتبہ مارنے “ اور ” دومرتبہ زندہ کرنے “ سے کیامراد ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین نے بہت سی تفسیر یں بیان کی ہیں جن میں سے صرف تین احتمال قابل ذکر ہیں ۔
۱۔ دوبارہ مارنے سے مراد ایک موت تو زندگی کے خاتمہ پر ہے اور دوسری موت برزخ کے اختتام پر . اور دو بار جلانے سے مراد ایک تو برزخ میں جلاناہے اوردوسرے بروز قیامت ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب انسان اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرتاہے تو اسے زندگی کاایک اورروپ دے دیاجاتاہے وہی زندگی جو ” بل احیاء عند ربھم یرزقون “ (آل عمران ) کے مصداق شہداء کی زندگی ہے ، وہی زندگی جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آ لہ وسلم اورآئمہ اطہار علیہم السلام کی زندگی ہے اس زندگی میںوہ ہماراسلام سنتے ہیں اوراس کا جواب دیتے ہیں . نیز وہی زندگی جو آل فرعو ن جیسے سرکش اور باغی افراد کی ہے اور النایعر ضون علیھا غدوًّ ا و عشیّاً ( مومن . ۴۶) کے پیش نظر صبح شام انہیں عذاب سے دوچار ہوناپڑتاہے ۔
ادھرہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دنیا کے خاتمے پر جب پہلی مرتبہ صور پھو نکاجائے گا تو نہ صرف تمام انسان بلکہ تمام فرشتے اور مرنے والوں کے تمام وہ ارواح جو ” مثالی قالبوں “ میں ہیں ” فصعق من فی السماوات ومن فی الارض “ (زمر. ۶۸)۔
کے پیش ِ نظر سب کے سب مرجائیں گی اور سوائے ذات ذو الجلال کے کوئی چیز بھی باقی نہیں رہے گی . (البتہ فرشتوں اور ” مثا لی قالبوں ‘ ‘ میں موجود ارواح کی موت اورزندگی ہم انسانوں کی موت اورزندگی سے بالکل مختلف ہے . اس کی تفصیل ہم سورہ ٴ زمر کی آیت ۸۶ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں ) ۔
وہ اس طرح کہ ہماری ایک جسمانی حیات ہے اورایک برزخی حیات.ہم اپنی حیات جسمانی کے خاتمے پر مرجائیں گے اور دوسرے اس دنیا کے خاتمے پربرزخی زندگی کوالوداع کہیں گے.ان دونوں موتوں کے بعد ہمیں دو زندگیاں ملیں گی. ایک برزخی زندگی اور ایک روز ِ قیامت کی زندگی ۔
یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتاہے اور وہ یہ کہ ہماری ا ن دوزندگیوں کے علاوہ اس دنیا میں تیسری زندگی بھی ہے اوراس دنیا میں آنے سے پہلے ہم ایک موت سے بھی دوچار رہے ہیں کیونکہ اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی توہم مردہ ہی تھے ۔
لیکن اگر آیت میںاچھی طرح غور کیاجائے تو اس سوال کاجواب خود بخود واضح ہوجائے گ. کیونکہ اس دنیا میں آنے سے پہلے ( جبکہ ہم مٹی تھے ) کو ” موت “ کہتے ہیں ” اماتہ“( یعنی مارنا ) نہیں کہتے . لیکن اس دنیا کی زندگی اگرچہ احیاء کامصداق ہے لیکن قرآن مجید نے اس طرف اشارہ نہیں کیاکیونکہ یہ احیاء کفار کے لیے چند اں عبرت کاسبب نہیں تھا . جو چیز ا ن کی بیداری اور گناہوں کے اعراف کاسبب بنی تھی ایک تو برزخ کی زندگی ہے اور دوسرے روز قیامت کی زندگی ۔ (غور کیجئے گا )۔
۲۔ دو زندگیوں سے مراد ایک تو کچھ سوالوں کاجواب دینے کے لئے قبر میں زندہ ہوناہے اور دوسرے قیامت کے دن جی اٹھناہے اور دو موتوں سے مراد ایک تو اسی زندگی کا خاتمہ ہے دوسرے قبر میں موت ہے . اسی لیے بعض مفسرین نے اس آیت کو قبر کی عارضی زندگی کی دلیل سمجھاہے ۔
اب یہاں پر یہ سوال پیداہوتاہے کہ قبر کی زندگی کیسی زندگی ہے ؟ آیا یہ زندگی جسمانی ہوگی یابرزخی یانصف جسمانی اورنصف برزخی ؟ اس سلسلے میںخاص لمبی چوڑی بحث ہے جسے یہاں پر درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
۳۔ پہلی موت سے مراد ، انسان کے اس دنیا میں آنے سے پہلے کی موت ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ مٹی تھ. بنابریںاسکی پہلی زندگی بھی یہی دنیاوی زندگی ہوگی . اور دوسری موت اس دنیا کے خاتمے پر ہوگی اور دوسری زندگی بروز قیامت ہوگی ۔
جن لوگوں نے اس تفسیر کو اپنایا ہے وہ سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۸ سے استد لال کرتے ہیں جس میں کہاگیاہے :
کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِاللَّہِ وَ کُنْتُمْ اٴَمْواتاً فَاٴَحْیاکُمْ ثُمَّ یُمیتُکُمْ ثُمَّ یُحْییکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُون
” تم خدا کا کیونکر انکار کرتے ہو جب کہ تم پہلے مردہ تھے پھر اس نے تمہیں پیداکیا ،پھروہ تمہیں ماردے گا اور دوبارہ زندہ کرے گا ،پھر تم اسی کی طرف لوٹ جاؤ گے “ ۔
لیکن اگرذراسا بھی غور سے کام لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ زیر تفسیر آیت میں دو ” اماتہ “( مارنے ) کی بات ہور ہی ہے جب کہ سورہ ٴ بقرہ کی یہ آیت ایک ” موت“ اور ایک ” اماتہ“ کی بات کررہی ہے ( ۲)۔
ان تمام تفاسیروں میں سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ تناسخ (آواگون ) کے قائل کچھ لوگوں نے اس آیت سے اپنے نظر یے کے حق استد لال کر نیکی کوشش کی ہے کہ یہ آیت انسان کی کئی بار کی زندگی اورموت اوراسی دنیا میں نئے ابدان میں ایک ہی روح کے بار با ر عود کر آنے پر دلالت کرتے ہیں . لیکن در حقیقت یہی آیت عقیدہ و تناسخ کی نفی کی ایک زندہ دلیل ہے . کیونکہ وہ موت اورحیات کوصرف دو ہی مرتبہ میں منحصر کررہی ہے جب کہ تناسخ کاعقیدہ رکھنے والے متعدد اور مسلسل کئی زندگیوں اور کئی موتوں کے قائل ہیں ان کانظر یہ ہے کہ ایک انسان کی روح کئی بار نئے نئے ڈھانچوں اور کئی تازہ ترین نطفوں میں حلول کرکے اس دنیا میں لوٹ سکتی ہے ۔
بہرحال یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ کا فروں کی یہ درخواست ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی کہ انہیں دوزخ سے نکال کردنیا میں بھیج دیاجائے تاکہ وہ اپنے گمان کے مطابق اپنے تاریک ماضی کاازالہ کرسکیں اوراس کاناقابل قبول ہونااس حد تک واضح ہے کہ ان آیات میں اس کی بات تک نہیں کی گئی .صرف بعد کی آیت میں ایک بات ہوئی ہے جو ایک دلیل کا عنوان رکھتی ہے ۔
چنانچہ ارشاد ہوتاہے :یہ اس لیے ہے کہ جب خداکی وحدانیت کی طرف دعوت دی جاتی تھی تو تم انکار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کفر کیاکرتے تھے لیکن جب کسی کو اس کاشریک بنایا جاتاتو تم اسے تسلیم کرلیتے تھے اوراس پر ایمان لے آتے تھے (ذلِکُمْ بِاٴَنَّہُ إِذا دُعِیَ اللَّہُ وَحْدَہُ کَفَرْتُمْ وَ إِنْ یُشْرَکْ بِہِ تُؤْمِنُوا)۔
جہاں پربھی توحید ، طہارت ، تقویٰ اور فر مان حق کی بات ہوتی توتم اپنا منہ پھیرلیتے اورجہاں پر کفر ، نفاق ، شرک اور پلیدی کی بات ہوتی توتم نہال ہو جاتے لہذا تمہارا انجام بھی اس سے مختلف ہوگا ۔
یہاں پر یہ سوال پیداہوتاہے کہ اس جواب کا دنیا میں واپس لوٹ جانے کی درخواست سے کیا تعلق ہے ؟
اگر آیت کی تعبیر ات پر غور کیاجائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے اس قسم کے اعمال عارضی اوروقتی نہیں تھے بلکہ وہ ہمیشہ اسی صورتِ حال پر قائم تھے .لہذا اگر اب بھی وہ دنیا میں لوٹا دیئے جائیں تو پھر بھی وہ یہی کام کر یں گے . ان کاقیامت کے دن اس قسم کاایمان مجبوری کی بناء پر ہوگا نہ کہ حقیقی . اس کے علاوہ ان کے گزشتہ عقائد، اعمال اور نیتیں بھی اس بات کی متقاضی ہیں کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں . لہذا دنیا کی طرف باز گشت اب ممکن نہیں ۔
بہرحال یہ ان لوگوں کی مخصوص صورت ھال کا جائزہ ہے ،کفر و شرک اور گناہ جن کے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکے تھے ،جو خدا کا نام سنتے ہی منہ بنالیتے تھے اور بتوں کا نام آجانے پر مسرت کااظہار کرتے تھے . جن کے بار ے میں سورہ ٴ زمرکی آیت ۴۵ میں ارشاد ہوتاہے :
وَ إِذا ذُکِرَ اللَّہُ وَحْدَہُ اشْمَاٴَزَّتْ قُلُوبُ الَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَ إِذا ذُکِرَ الَّذینَ مِنْ دُونِہِ إِذا ہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ
اوریہ کیفیت عصرِ پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہی مخصوص نہیں بلکہ ہمارے اس دور میں بھی دل کے کئی اندھے ایسے ہیں جو ایمان ، توحید اور تقویٰ سے گریز پاہیں جہاں پر کفر،نفاق اوراخلاقی بے رہروی کو بو پالیتے ہیں وہیں پرٹوٹ پڑتے ہیں ۔
اہل بیت علیہم السلام کی بعض روایات میں اس آیت کی ” ولایت “ سے تفسیر کی گئی ہے جن کو بعض لوگ سننے تک گوارا نہیں کرتے لیکن اس کے مخالفین کے نام سے نہال نہال ہوجاتے ہیں . (ظاہر ہے کہ یہ تفسیر آیت کاایک مصداق بیان کررہی ہے نہ کہ آیت کاتمام مفہوم اسی مصداق میں منحصر ہے )۔
آیت کے آخرمیں ان تاریک دل مشرکین کو ہمیشہ کے لیے مایوس کرنے کے لیے ارشاد ہوتاہے : فیصلے کاکلی اختیار خداوند برتر و بزرگ کے ہاتھ میں ہے (فَالْحُکْمُ لِلَّہِ الْعَلِیِّ الْکَبیرِ )۔
فیصلے کی اس سند کا مالک ، قاضی ،داد خواہ اور داد رس صرف خدا وندعلی واعلیٰ ہے اور چونکہ وہ ” علی “ ( بلند مرتبہ) اور ” کبیر “ (صاحب ِ عظمت و بزرگی ) ہے لہذا نہ تو کسی سے مغلوب ہوتاہے ،نہ کسی کی سفارش اس پر اثر کرتی ہے اور نہ ہی کوئی فدیہ ، تاوان وغیرہ جیسی چیزیں اس کے فیصلے کوروک سکتی ہیں . وہی حاکم مطلق ہے اوراس کے علاوہ کائنات کی ہرچیز اس کے زیر فرمان ہے لہذا اس کی حکم عدو لی اوراس کے فیصلے سے روگردانی کوئی بھی نہیں کرسکتا۔
دعاجوقبول نہیں ہوگی
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ہم قرآنی آیات میں کفار یااہل جہنم کے دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی درخواست اوراس کے مسترد کردیئے جانے کے بار ے میں پڑھ رہے ہوں ، بلکہ قرآن مجید کے متعددمقامات پر یہی بیان ہوئی ہے ۔
سورہ ٴ شور یٰ کی آیت ۴۴ میں ہے :
ظالم لوگ عذاب الہٰی کو دیکھنے کے بعد کہیں گے کہ
ھل الیٰ مردّ من سبیل
کیاواپس لوٹ جانے کاکوئی راستہ ہے ؟
سورہ ٴ زمر کی ۵۸ ویں آیت میں گناہ گار اور بے ایمان افراد کے بار ے میں ہے :
جب وہ عذاب الہٰی کو دیکھیں گے تو کہیں گے اگرہم ایک مرتبہ پھر دنیا میں چلے جائیں تو نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔
اٴَوْ تَقُولَ حینَ تَرَی الْعَذابَ لَوْ اٴَنَّ لی کَرَّةً فَاٴَکُونَ مِنَ الْمُحْسِنین
سور ہٴ مومنون کی آیت ۹۹ اور ۱۰۰ میں ہے کہ جب کچھ لوگ موت کے فرشتو ن کو دیکھتے ہیں تو خداسے یہ در خواست کرتے ہیں :
ربّ ارجعون لعلّی اعمل صالحاً فیما ترکت
پروردگار ا ! مجھے واپس بھیج دے تاکہ میں نے جوبھی کوتاہی کی ہے اورجو کام چھوڑ آیاہوں اس کی تلافی کے لیے عمل صالح انجام دوں ۔
لیکن انہیں ” کلّا“ (ایساہرگز نہیں ہوسکتا ) یااس جیسے الفاظ کے ساتھ جواب دیاجائے گا ۔
تو گو یاقرآن مجید یہ کہناچاہتاہے کہ” اگر مرنے کے بعد ہمیں شدید ردِعمل کاسامناکرناپڑاہے تو کیا ہوا واپسی اور تلافی کی راہیں تو کھلی ہوئی ہیں “نہیں ایساہر گز نہیں ۔
اس کی دلیل واضح ہے ،قانون تکامل وار تقاء اوراس کی پیش رفت کے سلسلے میں رجعت پسندی اور پیچھےکوہٹنا ناممکن ہوتا ہے.اس قانون کے تحت جس طرح نومولود کاشکم مادر میں واپس لوٹ جانامحال ہے،خواہ اس نے شکم مادر میں ارتقائی مراحل طےکرلیے ہوں یاقبل ازاں ساقط ہوجائے،واپسی تو کسی بھی صورت میں ناممکن ہے.موت بھی اسی طرح کاایک دوسرا تولد ہے جس سے انسان ایک جہان سے دوسرے جہان میں منتقل ہوجاتاہے.لہذا وہاں پر بھی واپسی کاامکان مفقود ہے . اس کے علاوہ مجبوری کی بیداری کوصحیح معنوی میںبیداری نہیں کہاجاتا، جب بھی اس کے اسباب ختم ہوجائیں گے فر ا موشی دوبارہ عود کر آئے گی اورپھر وہی کام شروع کردیں گے. جیساکہ اسی دنیا میں بہت سے لوگوں کے بار ے میں بہت سے ایسے موارد دیکھنے میں آتے ہیں کہ جب وہ کسی مصیبت میںپھنس جاتے ہیں تو پر ور دگار عالم کے لطف وکرم کاسہارا لیتے ہیں اور توبہ کے در وازے میں داخل ہوجاتے ہیں لیکن جو نہی طوفان مصائب تھما وہ فوراً ان مصائب کو بھول کرپرانی ڈگر پر چل نکلتے ہیں ۔
۱۔ پہلی تفسیر کے مطابق ”اذ “ ظریفہ“ ہے اور ” مقتکم انفسکم “ سے متعلق ہے اوردوسری تفسیر کے مطابق ”اذ“ ” تعلیلیہ “ ہے اور” مقت اللہ “ سے متعلق ہے . یہ بات بھی قابل تو جہ ہے کہ آیت مندرجہ بالا میں لفظ ” مقت “ کے بارے میں چار احتمال موجود ہیں اور ہر مفسرنے ا ن میں سے ایک احتمال اپنایاہے.پہلا یہ کہ دونوں کاظرف قیامت ہو. دوسرا یہ کہ دونون کاظرف دنیا ہو .تیسرا یہ کہ پہلے کاظرف دنیا ہو اور دوسرے کاقیامت ہو چوتھا یہ کہ اس کے بر عکس ہو . لیکن مندرجہ بالاتفسیر کے مطابق پہلاآخر ت سے اوردوسرا دنیاسے یادونوں آخرت سے مربوط ہوں ( غور کیجئے گا )۔پ
۲۔ بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیاہے کہ ممکن ہے یہ آیت ”رجعت “ کی طرف اشارہ ہو . لیکن اگر آیت کی عمومیت پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ تمام کفار کے بار ے میں ہے جب کہ رجعت میں عموم کا پہلو مفقود ہے ، لہذا یہ تفسیربھی بحث طلب ہے ۔
سوره مؤمن/ آیه 13- 15سوره مؤمن/ آیه 10- 12
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma