۲۔ اموال کاخدائی بیمہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 18
۳۔ ” انفاق “ کے مفہوم کی وسعت ۱۔ انفاق زیادتی کاباعث ہے نہ کہ کمی کا

ایک مفسرنے یہاں ایک عمدہ تجز یہ پیش کیا ہے ، وہ کہتا ہے کہ :

تعجب کی با ت یہ ہے کہ جب تاجر یہ جانتا ہو ، کہ ا س کے اموال میںسے کوئی مال تلف ہونے والا ہے ،تووہ اس بات پر بھی تیار ہوجاتا ہے کہ اُسے ادھار کے طور پرفروخت کردے ، چاہے لینے والا کوئی فقیر آدمی ہی ہو .وہ کہتا ہے : یہ بات اس سے بہتر ہے کہ اس مال کو یونہی چھوڑدوں اور وہ نا بود ہوجائے . اور اگر کوئی تاجر اِن حالات میں اپنے مال کوفروخت کرنے کااقدام نہ کرے یہاں تک کہ وہ تلف اور نابو دہوجائے ،تواسے ”خطاکار “ شمارکرتے ہیں ۔
اوراگر ان حالات میں کوئی سرمایہ دار خریدار مل جائے اوروہ ا س کے پاس فروخت نہ کرے تو اُسے بے عقل کہتے ہیں ۔
اور اگران تمام باتوں کے ساتھ وہ خریدار مضبوط مالی حیثیت رکھتے ہوئے ہرقسم کاوثیقہ اسے سپر د کردے ، اور ایک قابلِ اطمینا ن سندبھی اُسے لکھ دے ،اور وہ تاجر اس کے پاس نہ بیچے تواس کو دیوانہ کہتے ہیں ۔
لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ ہم سب کام انجام دیتے ہیں اورکوئی اسے جنون شمار نہیںکرتا ۔
کیونکہ ہمارے تمام اموال معرضِ تلف میں ہیں اورخواہ مخواہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے ، حالانکہ راہِ خدامیں خرچ کرناایک قسم کاخدا کو قرض دینا ہے اورایک بہت ہی معتبر ضامن ،یعنی خدائے بزرگ فرماتا ہے کہ : ( وماانفقتم من شیء وفھو یخلفہ ( ” اورجو کچھ بھی تم خر چ کرو گے وہ اس کاعوض دے گا “ . اور یہ اس حالت میں ہے جبکہ اُس نے اپنے اموال ہمارے پاس گروی رکھے ہوئے ہوں ، کیونکہ جو کچھ انسان کے ہاتھ میں ہے وہ اس کی طرف سے عاریتہ ہے (اور کتبِ آسمانی میں سے ایک محکم ترین سند اس سلسلے میں اس نے ہمارے حوالہ کی ہوئی ہے )لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہم میں سے بہت سے اپنے اموال راہِ خدامیں خرچ نہیں کرتے ، اورانہیں رہنے دیتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں ، جس کے لیے نہ ہم کوئی اجر رکھتے ہیں نہ کوئی شکر (1) ۔
 1۔ تفسیر فخر رازی ،جلد ۲۵ ، ص ۲۶۳ ، زیربحث آیات کے ذیل میں ۔
۳۔ ” انفاق “ کے مفہوم کی وسعت ۱۔ انفاق زیادتی کاباعث ہے نہ کہ کمی کا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma