گرداب بلا میں!

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 17
سوره لقمان / آیه 33 - 34سوره لقمان / آیه 31 - 32

ایک بار پھر زیرِ بحث دوآیات میں خدا کی نعمتوں اور آفاق ونفس میں تو حید کے دلائل کے متعلق گفتگو ہے۔
پہلی آیت میں دلیل نظم کے متعلق ہے اور دوسری آیت میں توحید کے، اور مجموعی طورپر ان مبا حث کی تکمیل کرتی ہے جو گذشتہ آیات میں ہو چکی ہیں۔
کہتاہے ”کیا تونے نہیں دیکھا کہ کشتیاں دریاؤں کے سینے پر خدا کے حکم اور اس کی نعمت کی برکت سے چلتی ہیں۔“
(اٴَلَمْ تَریٰ اٴَنَّ الْفُلْکَ تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَةِ الله) ۔(۱)
مقصدیہ ہے کہ اپنی عظمت کی آیات کا ایک پہلو تمھیں دکھائے: (لِیُرِیَکُمْ مِنْ آیَاتِہ) ۔
جی ہاں ”ان میں نشانیاں ہیں، ان کے لیے جو بہت صبر کرنے والے، شکیبا اور شکر گزار ہیں، “ (إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ) ۔
اس میں شک نہیں کہ کشتیوں کا سمندردں کے سینہ پر چلنا قوانین آفرینش کے ایک مجموعہ کا نتیجہ ہے۔ وہ یوں کہ:
۱۔ ہواؤں کا منظم ہو کر چلنا۔
۲۔ مخصوص وزن کی لکڑی یاوہ مواد جس سے کشتی بنا تے ہیں۔
۳۔ خود پانی کا اپنابوجھ۔
۴۔ پانی پر تیرنے والے اجسام پر پانی کا دباؤ۔
اور جس وقت ان امور میں سے کسی ایک میں خلل پیداہوجائے تو کشتی سمندر میں ڈوب جاتی ہے یا الٹ جاتی ہے اور یاوسط سمندر میں حیران سرگرداں رہ جاتی ہے۔
لیکن جس خدا نے سمندروں کو انسان کی مسافرت اور ایک حصے سے دوسرے کی طرف اشیاء کے حمل ونقل کے لیے بہترین شاہراہ قراردیا ہے، وہی خدا مذکورہ حالات پیدا کرتا ہے، جن میں سے ہرایک یقینا خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
سمندروں میں قدرت خدا کی عظمت اور اس کے مقابلے میں انسان کی پستی اس قدرہے کہ گذشتہ زمانہ میں جب کہ صرف ہوا کی قوت سے کشتی چلانے میں استفادہ ہوتا تھا، اگر ساری دُنیا کے لوگ جمع ہو کر بھی تندہوا کی حرکت کی مخالف کی سمت میں اسے چلاکر سمندرکے اندرتک لے جاناچاہتے تو نہیں لے جاسکتے تھے۔

موجود زمانہ میں بھی جب کہ بحری جہازوں میں انجن کی طاقت ہواکی جگہ لے چکی ہے پھر بھی سمندری طوفان اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ وہ عظیم ترین جہازوں کو بھی اپنی راہ سے ہٹا دیتے ہیں اور بسا اوقات ان کا ستیاناس کردیتے ہیں۔
اور یہ جو آیت کے آخر میں ”صبّاً“ اور ”شکور“ (بہت زیادہ صبر کرنے والے اور بہت زیا دہ شکر گزار) ا یسی صفات ہیں کہ وہ عظیم ترین جہازوں کا ذکرہواہے تویہ اس بناء پر کہ دنیا وی زندگی مجموعہ ہے ”بلا“ و”نعمت“ کا ، جن میں سے ہر ایک آزمائش کا ذریعہ ہے۔ سخت حوادث کے مقابلہ میں صبرواستقامت اور نعمتوں کے مقابلہ میں شکرگزاری انسان کے مجموعی فرائض کو تشکیل دیتے ہیں۔
اس لیے ایسی ایک حدیث ہے جسے بہت سے مفسرین نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نقل کیا ہے کہ :
”الا یمان نصفان نصف صبر و نصف شکر“
”ایمان کے دوحصّے ہیں۔ آدھا صبر اور آدھا شکر ہے“ (۲)
اور یا اس طرف اشارہ ہے کہ خلقت کے خدا کی باعظمت آیات کے ادر اک کرنے لیے کسی سبب کی ضرورت ہے۔ جیسے منعم کا شکر جوزیادہ سے زیادہ غوروفکر کے لیے صبرو شکیبائی کے ساتھ ملاہوا ہو۔
کشتیوں کے دریا میں چلنے کی نعمت کے بیان کے بعد گذشتہ زمانہ میں بھی اور موجودہ زمانہ میں بھی انسانوں اور مال واسباب کے حمل ونقل کا عظیم اور مفیدترین وسیلہ ہیں، اسی مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: جس وقت وہ کشتی پر سوارہوں اور سمندوں کے درمیان پہنچ جائیں اور سمندر میں طوفان آ جائے اور کوہ پیکرامواج بادلوں کی طرح ان کے سروں پر چھاجائیں تو وہ خدا کو خلوص کے ساتھ پکارتے ہیں : “ (وَإِذَا غَشِیَھُمْ مَوْجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوْا اللهَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّین) ۔
”ظلل“ ”ظلّہ “ (بروزن قلّہ کی جمع ہے، جن کے مفسرین نے کئی معانی بیان کیے ہیں: ”راغب“ مفردات“ میں کہتے ہیں۔ ”ظلّہ “ اس بادل کے معنی میں ہے کہ جوسایہ ڈالتاہے۔ اور زیادہ ترناخوشگوار واقعات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
بعض نے اسے مادہ ”ظل“ سے سائباں کے معنی میں لیاہے۔
اور بعض نے اسے پہاڑ کے معنی میں لیاہے۔ اگر چہ زیربحث آیث کے رابطہ میں ان معانی کا آپس میں زیادہ فرق نہیں، لیکن پھر بھی جب دیکھا جاتاہے کہ قرآن میں بارہایہ لفظ سایہ فگن بادلوں کے معنی میں آیاہے اور ”غشیھم “ (انھیں ڈھانپ لیا) کی تعبیر جو بادل کے معنی سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے لہٰذا یہ تفسیر قریب تر نظر آتی ہے۔
یعنی سمندر کی عظیم موجیں اس طرح اٹھتی اور ان کے اطراف کو یوں گھیرلیتی ہیں گویابادلوں نے ان کے سرپر سایہ کیا ہوا ہے ایسا سا یہ جو وحشت ناک اور ہول انگیز ہے ۔
یہ وہ مقام ہے ، جہاں انسان اپنی تمام ظاہری طاقتوں کے باوجود اس نے جو اپنے لئے جمع کررکھی ہیں اپنے آپ کو ضعیف وناچیز اور ناتواں پاتا ہے، ہر جگہ سے اس کا ہاتھ کٹ چکا ہوتا ہے اور تمام عادی اور مادی وسائل بیکار ہوجاتے ہیں امید کا کوئی پہلو باقی نہیں رہ جاتا ، سوائے اس کے کہ جو اس کی جان کے اندر سوائے اس نور کے کہ جو اس کی جانے کے اندر اور اس کی فطرت کی گہرائی سے چمکتا ہے۔
یہ خلقت کے پردوں کو ہٹا دیتا ہے اور اس کے دل کو روشن کرتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ کوئی ہے، جو تجھے رہائی اور نجات دے سکے؟
وہی ذات کہ سمندر کی موجیں جس کے تابع فرمان ہیں اور پانی اور مٹی اس کے لئے سرگرداں نہیں۔
یہ وہ مقام ہے ، جہاں خالق توحید انسان کے سارے دل کا احاطہ کر لیتی ہے ، وہ دین اور عبادت کو صرف اُسی کے ساتھ مخصوص سمجھتا ہے ۔
اس کے بعد مزید کہتا ہے ”جس وقت خدا نے انھیں اس ہلاکت سے نجات دے دی ، موجیں ماند پرگئیں اور صحیح وسالم ساحل نجات تک پہنچ گئے تو لوگ دو گروہ ہو گئے ۔بعض نے اعتدال کی راہ اختیار کی اور اس عہد وپیمان کے جو دل میں ان حساس لمحات میں خدا سے کیے پابند ووفادار رہتے ہیں“ (فَلَمَّا نَجَّاھُمْ إِلَی الْبَرِّ فَمِنْھُمْ مُقْتَصِدٌ) ۔(۳)
لیکن دوسرا گروہ ہر چیز کو فراموش کردیا ہے اور دبارہ شرک وکفُر کا لٹیرا لشکر اس کے دل کی مملکت پر غلبہ حاصل کردیتاہے ۔
مفسرین کی ایک جماعت اوپر والی آیت کو ”عکرمہ بن ابی جہل “کے اسلام لانے کی طرف اشارہ سمجھتی ہے ۔
فتح مکہ کی موقع پر چونکہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے چارافراد کے علاوہ سب لوگوں کے لیے عام معانی کا اعلان کردیا تھا اور جن چار افراد کے بارے میں سزا ئے موت کا حکم تھا ، ان میں ایک عکرمہ بن ابی جہل تھا ۔ان کے بارے میں حکم تھا کہ جہاں کہیں انھیں پاوٴختم کروو۔ (کےونکہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بر خلاف کسی قسم کی ریشہ دوانی ، کینہ پروری اور جرم وگناہ کا کوئی لمحہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا) یہ حکم سن کر عکرمہ کو مجبوراً مکہ سے بھا گنا پڑا ۔
بحیرہ احمر پر پہنچ کر کشتی پر سوار ہو گیا ، سمندر میں خطر ناک تیر ہوا چلی، اہل کشتی نے ایک دوسرے سے کہا ،آوٴ بُتوں سے اپنا ناطہ توڑ کر صرف لطفِ”خدا “کے دامان سے متمسک ہو جائیں ۔ کیونکہ ہمارے لیے ان خداوٴں سے کچھ نہیں ہوسکتا ۔
”عکرمہ “نے کہا اگر توحید کے علاوہ ہمیں سمندر سے کوئی نجات دے سکتا تو خشکی پر بھی نہیں دے سکتا ۔با رالٰہا !میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تو نے اس مصیبت سے نجات د ے دی تو میں محمد کے پاس جا کران کے ہاتھ دے دوں گا ۔
کیونکہ ایسے میں رحیم اور کریم سمجھتاہوں ۔
آخر کا اس نے نجات پائی اور خدمت پیغمبر میں آکر مسلمان ہوگیا ۔(۴)

آیت کے آخر میں مزید کہتاہے ”ہماری آیات کا سوائے پیمان شکن کفران کرنے والوں کے کوئی انکار نہیں کرتا“(وَمَا یَجْحَدُ بِآیَاتِنَا إِلاَّ کُلُّ خَتَّارٍ کَفُورٍ) ۔
”ختار “”ختر “(بروزن ”چتر) کے مادہ سے ہے جو عہد شکنی کے معنی میں ہے۔ یہ لفظ مبالغہ کا صیغہ ہے، کیونکہ مشرکین اور گناہ گار بارہا مصائب میں خدا کی طرف رجوع کرتے اور خدا سے عہدوپیمان باندھتے ہیں اور نذریں مانتے ہیں لیکن جس وقت طوفان حوادث تھم جاتے ہیں تو اپناعہدوپیمان توڑدیتے ہیں اور خدا کی نعمتوں کو کفران کے سپرد کردیتے ہیں اور یہ ان کا بارہا کا معمول ہے۔
حقیقت میں ”ختار“ وکفور“ کہ جو اس آیت کے ذیل میں آتے ہیں ”صباّر“ اور ”شکور“ کے بالکل مقابل آئے ہیں ۔ جوگذشتہ آیت کے ذیل میں آچکے ہیں (کفران شکر گزاری کے مقابلہ میں، اور” عہدشکنی “ شکیبائی اور عہدو پیمان پر باقی رہنے کے مقابلہ میں ہے) جو اپنے اندر فطری ایمان کے جلوہ گرہونے کے وقت کو شش کرتے ہیں کہ اس نورِالٰہی کو دوبارہ خاموش نہ ہونے دیں اور اس کے اُوپر حجاب اور پردے نہ پڑنے دیں۔
۱۔ ”بنعمة الله“ میں ہوسکتا ہے ”باء سببیت“ ہو اور یا ”بامصاحبت“ ہو لیکن پہلا احتمال زیادہ مناسب ہے۔
۲۔ تفسیر مجمع البیان، قرطبی، فخر رازی اور صافی۔
۳۔ ”مقتصد “کے مادہ سے کام میں اعتدال اور وعدا وفاء کے معنی میں ہے ۔
۴۔ ”مجمع البیان “ذیل آیہ زیر بحث ”اسد الغا بہ فی معرفة الصحابہ “جلد ۴ ص۵ میں بھی ماجرا مختصر سے فرق کے ساتھ آیا ہے (عکرمہ عین کے کسرے) زیر کے ہے ۔
سوره لقمان / آیه 33 - 34سوره لقمان / آیه 31 - 32
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma