دو مختلف سمندر ساتھ ساتھ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
۱۔ صرف ایک قیادتسوره فرقان / آیه 51 - 55

پہلی آیت پیغمبر اسلام کے مقام کی عظمت کے بارے میں ہے ، ارشاد ہوتا ہے : اگر ہم چا ہتے تو ہر شہر اور گاوٴں میں پیغمبر بھیج دیتے ( لیکن ایسا نہیں کیا اور تمام جہان والوں کی ہدایت کی ذمہ داری تیرے شانوں پر ڈال دی(وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِی کُلِّ قَرْیَةٍ نَذِیرًا) ۔
در حقیقت گزشتہ آیات کے مطابق جس طرح خدا اس بات پر قادر ہے کہ بارش کے حیات بخش قطرات کو مردہ زمینوں پر بھیج دیتاہے۔وہ یہ قدرت بھی رکھتا ہے کہ ہرشہر و دیار میں کسی پیغمبر پر وحی و نبوت نازل کر ے اور ہر گروہ کے لئے ” بشیر و نذیر “ بھیجے لیکن خدا وند رکیم بندوں کی بہتری کے لئے ہی سب کچھ کرتا ہے کیونکہ ایک شخص کے اندر نبوت کا تمرکزدینا کہ لوگوں کی وحدت اور تحاد کا سبب بنتا ہے اور اس سے ہر قسم کے اختلاف و انتشار کا سد باب ہو جاتا ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ بعض مشرکین دوسرتے حیلے بہانوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ آیا بہتر نہیں تھا کہ خدا وند عالم ہر شہر اور بستی میں علیحدہ علیحدہ پیغمبر بھیج دیتا ؟قرآن نے ان کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے :اگر خدا چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا ،لیکن اقوام وملل کی بہتری انتشار میں نہیں تھی۔
بہرحال یہ آیت بھی پیغمبر اسلام کے مقام معظم پر ایک بیّن دلیل ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رہبر ایک ہی ہونا چاہئیے اور اس کی ذمہ داری بھی بہت بڑی ہوتی ہے ۔
اسی بناء پر بعد والی آیت میں انبیااء کے دو اساسی فرائض کے پیش ِ نظر خدا وند عالم دو اہم احکام جاری فرماتا ہے اور سب سے پہلے روئے سخن پیغمبر کی طرف کرکے کہتا ہے :پس تو کافروں کی اطاعت نہ کر( فَلاَتُطِعْ الْکَافِرِینَ)۔
کسی بھی صورت میں ان کی بے راہروی کے سلسلے میں ان سے سودے بازی نہ کر کیونکہ گمراہ لوگوں کے ساتھ سودے بازی تبلیغ راہ خدا اور دعوت ِ حق کے لئے بہت بڑی آفت ہے بلکہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جا اور ان کی اصلاح کر اور ان کی خواہشات کے سامنے ہر گز نہ جھکنا ۔
رہا دوسرا حکم تو وہ یہ ہے کہ قرآن کے ذریعے ان کے ساتھ عظیم جہاد کر( وَجَاہِدْہُمْ بِہِ جِہَادًا کَبِیرًا )۔
جس قدر تیری رسالت اور منصب عظیم ہے جہاد بھی اتنا عظیم ہونا چاہئیے جیسے انبیاء ماسبق کا عظیم جہاد رہا ہے یعنی ایسا عظیم جہاد جولوگوں کی تمام روحانی و فکری اور مادی و معنوی پہلووٴں پر محیط ہو۔
اس میں بھی شک نہیں کہ اس جہاد سے فکری ، ثقافتی اور تبلیغی جہاد مراد ہے مسلح جہاد مراد نہیں ہے کیونکہ یہ سورہ مکی ہے اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ مسلح جہاد کا حکم مکہ میں نازل ہوا تھا۔
مرحوم طبرسی نے ”مجمع البیان “ میں تحریر فرمایا ہے کہ یہ آیت گمراہ لوگوں کے وسوسوں اور دشمنانِ حق کے مقابلے میں فکری اور تبلیغی جہاد کی عظمت کے لئے بہت بڑی دلیل ہے حتیٰ کہ پیغمبر اسلام کی یہ مشہور و معروف حدیث :
رجعنا من الجھاد الاصغر الیٰ الجھاد الاکبر
ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ آئے ہیں
اسی جہاد اور تبلیغ دین میں علما ء کے کار ناموں کی عظمت کی طرف اشارہ ہوسکتی ہے ۔
یہ تعبیر قرآن کے مقام عظمت کو بھی بیان کررہی ہے کیونکہ وہ اسی ” جہاد کبیر“کا ایک ذریعہ اور نہایت ہی موٴثر ہتھیار ہے کہ جس کے بیان کی قدرت اور استدلال کی تاثیر اور جاذبیت انسانی قدرتاور تصور سے ماوراء ہے ۔
یہ قرآن روز روشن کی طرح چمکتا ، شب تاریک کی مانند تسکین دہ ، ہواوٴں کی مانند متحرک ،ابر مانند عظیم ، بارش کے قطروں کی مانند حیات بخش ہتھیار ہے جس کی طرف گزشتہ آیات میں اشارہ ہو چکا ہے ۔
ایک مختصر سے فاصلے کے بعد قرآن مجید نے کائنات کے تخلیقی نظام میں خدا وند ِ عالم کی نعمتوں کا ایک بار پھر تذکرہ شروع کیا ہے اور گزشتہ آیات میں بارش کے حیات بخش قطرات کی مناسبت سے ان آیات میں پہلے دو مختلف سمندروں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے :وہ خدا ایسا ہے جس نے دو مختلف سمندروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا ہے ایک خوش گوار اور شیریں ہے جبکہ دوسرا شوراور کڑوا ہے اور ان کے درمیان ایک آڑمقرر کردی ہے (تاکہ وہ آپس میںمل نہ جائیں گویا وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں ) دور ہو اور نزدیک نہ آوٴ( وَہُوَ الَّذِی مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ہَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَہَذَا مِلْحٌ اٴُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا) ۔
”مَرَجَ“ ” مرج“ ( بروزن”فَلَجْ“)کے مادہ سے مخلوط کرنے اور ملادینے کے معنیٰ میں ہے یا کھلا چھوڑ دینے کے معنیٰ میں اور اس جگہ پر دو سمندروں کا پہلو اور ساتھ ساتھ رہنا مراد ہے ۔
”عذاب“ کا معنی ٰ ہے خوش گوار ، پاک و پاکیزہ اورٹھنڈا ہے ۔” فرات“ کا معنی مزیدار اور میٹھا ہے ۔ جبکہ ”ملح“ کا معنیٰ نمکین اور شور اور” اجاج“ کا معنی کڑوا اور گرم ہے ( بنابریں ملح اور اجاج، عذب اور فرات کے الٹ ہیں) ۔
”برزخ“ کا معنیٰ ”پردہ“ ہے اور دو چیزوں کے درمیان حائل آڑکو کہتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم پہلے (اسی سورت کی آیت ۲۲ کے ضمن میں ) بتا چکے ہیں کہ ”حجراً محجوراً“ اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ جب عربوں میں دو شخص آپس میں روبرو ہوتے ہیں ایک کو دوسرے سے خوف ہوتا ہے تو وہ حصول ِ امان کے طور پر ”حجراً محجوراً“ کہتایعنی ہمیں امان دے دیں اور معاف کردیں اور ہم سے دور رہیں ۔
بہر حال یہ آیت کائنات میں قدرت ِ خدا وندی کے ایک عجیب و غریب شاہکار کی نقشہ کشی کررہی ہے کہ کس طرح ایک ان دیکھا اور غیر مرئی حجاب دو میٹھے اورکڑ وے سمندروں کے درمیان موجود ہے جو دونوں کو آپس میں مخلوط ہو جانے سے روک رہا ہوتا ہے ۔
البتہ آج ہمیں یہی سمجھ آرہا ہے کہ یہ دکھائی نہ دینے والی آڑ در حقیقت میٹھے اور کڑوے پانی کا ہلکے اور بھاری پن کا تفاوت ہے اصطلاح میں جسے ”وزن مخصوص کا فرق “ کہتے ہیں جس کی ووجہ سے دو مختلف نوعیتوں کے پانی ایک لمبے عرصے تک ایک دوسرے میں مخلوط نہیں ہوسکتے۔
اگر چہ بہت سے مفسرین نے اس قسم کے سمندروں کی تلاش میں بڑی کاوش سے کام لیا ہے کہ دنیا کے کس خطے میں میٹھے اور کڑوے دونوں سمندر آپس میں مل رہے ہیں اور ایک دوسرے میں مخلوط بھی نہیں ہوتے لیکن آج کے دور میں یہ مشکل ہمارے لئے حل ہو چکی ہے کیونکہ جہاں پرمیٹھے پانی کے بڑے بڑے دریا سمندر میں گر رہے ہوتے ہیں تو وہیں پر ساحل پر ہی میٹھے پانی کا ایک سمندر بن رہا ہوتا ہے اور سمندر کے کڑوے پانی کو دور دھکیل کر دور دور تک آگے چلا جاتا ہے اور اپنے ہلکے اور بھاری پن کی وجہ سے وہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوپاتے گو یا ایک دوسرے کو ” حجراً محجوراً“کہہ رہے ہوتے ہیں ۔
پھر مزیدار بات یہ ہے کہ سمندر کاپانی مد وجزر کی وجہ سے چوبیس گھنٹوں میں دو مرتبہ بڑی مقدار میں گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے ،اسی مقدار سے میٹھے پانی کا یہ سمندر بھی جب بڑتھا ہے تو پیچھے کو ہٹتا ہے اور خشکی پر پھیل جاتا ہے چنانچہ قدیم زمانے سے انسان نے فطرت کے اس عمل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے بہت سی نہریں نکالی ہیں جن سے بہت سے قبے کی آبپاشی کی جاتی ہے ۔
اب بھی جنوب ایران میں ساحلِ سمندر پر کھجور کے لاکھوں درخت ایسے ہیں جو اس میٹھے پانی سے سیراب ہوتے ہیں جن میں سے بہت سے درختوں کو ہم نے بھی بچشم خود ملاحظہ کیا ہے اور ان درختوں کی صرف اسی طریقے سے آبپاشی کی جاتی ہے اور وہ ساحلِ سمندر سے بہت فاصلے پر ہیں ۔جس سال بارش کم ہوتی ہے اور ان دریاوٴں کا پانی کم ہو جاتا ہے تو بعض اوقات کڑوا اور نمکین پانی آبِ شیرں پر غالب آجاتا ہے تو اس علاقے کے کسانوں کو پریشانی اور سخت خطرے کا سامنا کرناپڑجاتا ہے کیونکہ شور پانی ان کی زراعت کے لئے مضر ہوتا ہے ۔
لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا اور یہ ”عذب و فرات پانی “ جس کے پہلو میں “ ملح و اجاج پانی “ ہوتا ہے اور اس میں مخلوط نہیں ہوتا ان کے لئے ایک عظیم نعمت شمار ہوتا ہے ۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ اس قسم کے مسائل فطری اسباب کا وجود ان کے عظمت کو کبھی نہیں گھٹا سکتا ، کیونکہ آخر فطرت کیا چیز ہے ؟کیا خداکے فعل ، ارادے اور مشیت کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ؟ اور خدا کے علاوہ کسی اور نے اشیائے عالم کو یہ خاصیتیں عطا فرمائی ہیں ۔
یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ جب انسان ہوائی جہاز کے ذریعے ایسے علاقوں کے اوپر سے گزرتا ہے تو آپس میں ملنے والے ان دونوں پانیوں کا منظر دلچسپ ، دلکش اور عجیب ہوتاہے جبکہ یہ دونوں اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ شانہ بشانہ سمندر میں بہ رہے ہوتے ہیں تو انسان فوراًقرآن کے اس نکتے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔
ضمنی طورپر یہ بات بھی بیان کرتے جائیں کہ اس آیت کا ”ایمان “ اور ” کفر “ سے متعلق آیات کے درمیان واقع ہونا ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ یہ ایک قسم کی تشبیہ ہے اور کفر و ایمان کے لئے کہ بعض اوقات ایک معاشرے ، ایک شہر حتیٰ کہ ایک ہی خاندان کے مختلف افراد میں صاحبان ِ ایمان لوگ ” عذب وفرات “ کی مانند” ملح و اجاج“ جیسے بے ایمان اور کافر لوگوں کے ساتھ ساتھ رہ رہے ہوتے ہیں جن کی طرز فکر الگ ، عقیدہ الگ ، پاک اور ناپاک عمل کی نوعیت الگ ہوتی ہے اس کے باوجود وہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہو پاتے ۔
بعد والی آیت میں بارش کے نزول اور اسی طرح میٹھے اور کڑوے پانی کی بحث کے پیش ِ نظر انسان کی پانی سے تخلیق کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ، چنانچہ فرمایا گیا ہے : خدا تو وہ ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا ( وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنْ الْمَاءِ بَشَرًا)۔
سچ بات تو یہ ہے کہ پانی میں صورت کی تخلیق اور محیر العقول نقش و نگاری پروردگار ِ عالم کی بے انتہا قدرت ِ کاملہ کی دلیل ہے گزشتہ آیات میں پانی سے نباتات کی آبپاشی کا تذکرہ تھا ۔اس آیت میں اس سے اعلیٰ ترین مرحلے یعنی پانی سے انسان کی تخلیق سے متعلق گفتگو ہے ۔
اب یہاں پر پانی سے کونسا پانی مراد ہے اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
بعض لوگوں کو نظریہ ہے کہ ”بشر“ سے مراد سب سے پہلا انسان یعنی آدم علیہ السلام ہیں کیونکہ ان کی آفرینش مٹی اور پانی کے مجموعہ سے ہوئی۔ اس کے علاوہ بعض اسلامی روایات کے مطابق اللہ کی سب سے پہلی مخلوق پانی ہے اور انسان کو اسی پانی سے خلق فرمایا گیا ہے اور ” بشرا ً“ کانکرہ ہونااسی بات کی دلیل ہے ۔
بعض مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ ”ماء“ سے مراد نطفے کا پانی ہے ، قدرت پروردگار کے مطابق تمام انسان جس سے معرض ِوجود میں آتے ہیں اور مرد کے نطفے(Sperm)اور عورت کے نطفے(Ovlim)کی باہمی آمیزش سے انسانی زندگی کے خاص خیلے وجود میں آتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص انعقاد نطفہ کے مراحل کو آغاز سے اختتام تک مد نظر رکھے اور ا س پر غور و فکر کرے تو اسے عظمتِ حق کی آیا اور خالق ِ اکبر کی قدرت اس قدر واضح طور پر نظر آئے گی جو اس کی ذات پاک کی معرفت کے لئے کافی ہو گی ۔
اس بات کا گواہ وہ جملہ ہے جو آیت کے آخر میں آیا ہے اور جس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے یعنی ( فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا )۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی وجود کا بیشتر حصہ پانی سے شکیل پاتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان کے وجود کا اصلی جو ہر آب ہی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان، پیاس کا زیادہ عرصے تک مقابلہ نہیں کرسکتا جبکہ بھوک کا مقابلہ کئی روز تو کیا کئی ہفتوں تک بھی کر سکتا ہے ۔
البتہ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ تمام معانی آیت کے مفہوم میں جمع ہوں یعنی سب سے پہلا انسان بھی پانی سے پیدا کیا گیا ہے تمام انسان بھی پانی کے نطفہ سے خلق کئے گئے ہیں اور پانی ہی سے انسانی وجود کا بیشتر حصہ تشکیل پاتا ہے ۔
جو پانی کائنات کی سادہ ترین چیز شمار ہوتا ہے وہ اس قدر حیرت انگیز مخلوق کا مبداء کیونکر بن گیا ؟ یہ خدا کی قدرت کی ایک نہایت روشن دلیل ہے ۔
انسان کی تخلیق کے فوراًبعد نسل ِ انسانی کے بڑھنے ، پھلنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا وند عالم نے اسی انسان کی دو طریقوں سے ازائش کی ایک نسب اور دوسرے صہرے سے (فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا)۔
”نسب“ سے مراد پیوند ہے جو اولاد کے ذریعہ لگتا ہے جیسے باپ اور اولاد کا یابھائیوں کا باہمی رشتہ اور ”صھر“ جو در اصل ”داماد“ کے معنیٰ میں وہ پیوندہوتا ہے جو دامادی کے ذریعے دو قوموں یا دو قبیلوں کے درمیان وجود میں آتا ہے ۔ یعنی کسی کا اپنے سسرال والوں سے رشتہ اور یہ دونوں ( نسب اور صہر )وہی ہے جھنیں فقہاء اسلام نکاح کی مباحث میں ” نسب“ ’ اور ”سبب “کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ۔
قرآن مجید کے سورہٴ نسآء کے سات مقامات پر ان محارم کا ذکر ہے جو نسب کی وجہ سے معرض وجودمیں آتے ہیں ، یعنی ماں ، بیٹی ، بہن ،پھوپھی، خالہ ،بھتیجی اور بھانجی ۔ چارمقامات پر ان محارم کا تذکرہ ہے جو سبب اور صہر کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں یعنی بیوی کی بیٹی ،ساس، بیٹھے کی بیوی اور باپ کی بیوی ۔
البتہ اس جملے کی تفسیر میں اور بھی بہت سے نظر یات کا ذکر ملتا ہے جو دوسرے مفسرین کی طرف سے بیان کئے گئے ہیں لیکن زیادہ واضح اور قوی وہی نظر یے ہیں جو ہم ابھی بیان کرچکے ہیں
منجملہ ان نظر یات کے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں نے ”نسب“ کا معنی بیٹے کی اولاد اور ”صہر“ کا معنی ٰبیٹی کی اولاد کیا ہے کیونکہ نسبی رشتوں کا دارومدار باپ پر ہوتا ہے نہ ماں پر ۔
لیکن جیسا کہ ہم تفسیر نمونہ کی دوسری جلد سورہ ٴ آلِ عمران کی آیت ۶۱ کے ذیل میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو زمانہ جاہلیت کے رسومات میں سے ہے کہ نسب کو صرف باپ کی طرف سے شمار کرتے تھے اور ماں کا اس میں کچھ بھی حصہ نہیں سمجھا جاتا تھاجبکہ اسلامی فقہ میں تمام مسلم دانشروں کے درمیان مسلّم ہے کہ محرم نسبی باپ اور ماں دونوں کی طرف سے ہوتا ہے ( مزید تشریح کے لئے تفسیر نمونہ کی دوسری جلد مذکروہ آیت کے ذیل میں دیکھئے )۔
یہی بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس مقام پر ہمیں ایک مشہور حدیث ملتی ہے جسے شیعہ اور سنی کتب میں نقل کیا گیا ہے کہ جس کے مطابق مندرجہ بالا آیت حضرت پیغمبر اکرم اور حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، کیونکہ آنحضرت نے اپنی دختر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکا عقد حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کردیا تھا اس طرح سے حضرت علی علیہ اسلام آنحضرت کے چچازاد بھائی تو تھے ہی آپ کے داماد بھی بن گئے اور یہی معنی ہے ” نسباً و صھراً “ کا(1) ۔
لیکن جیسا کہ ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اس قسم کی روایات ، آیت کا روشن مصدا ق ہوا کرتی ہیں جو آیت کے عمومی مفہوم سے مانع نہیں ہوتیں یہ آیت بھی ہر قسم کے اس رشتہ داری پر محیط ہو گی جو نسب اور دامادی کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں جس کا ایک روشن مصداق حضرت علی علیہ اسلام کی دو طرح سے حضرت رسول ِپاک سے رشتہ داری ہے ۔
آیت کے آخر میں تاکید کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے :تمہارا پر وردگار تو ہمیشہ قادر ہی ہے (وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیرًا )۔
آخر کار آخری زیر بحث آیت میں مشرکین کے اصل توحید سے انکار اور انحراف کو بیان فرمایا گیا ہے اور بتوں کی قدرت کا خدا کی قدرت و طاقت سے موازنہ کیا گیا ہے جس کے کچھ نمونہ گزشتہ آیات میں بیان ہو چکے ہیں فرماتا ہے : وہ لو گ خدا کے علاوہ دوسرے معبودوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ تو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان (وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَیَنفَعُہُمْ وَلاَیَضُرُّہُمْ )۔
یہ بات بھی مسلم ہے کہ صرف نفع و نقصان ہی عبادت کامعیار نہیں لیکن یہ کہہ کر قرآن مجید نے اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کے پاس بتوں کی عبادت کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ بتوں میں قطعاً کسی کام کی کوئی خاصیت نہیں پائی جاتی اور ہر طرح کی مثبت یامنفی تاثیر سے خالی ہیں ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیاہے :اور کافر لوگ ( اپنے کفر کی راہ میں ) خدا سے مقابلے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں (وَکَانَ الْکَافِرُ عَلَی رَبِّہِ ظَہِیرًا )۔
وہ اپنی گمراہی میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ بڑے دھڑلے کے ساتھ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں جن طاقتوں کو راہ خدا میں خرچ کرنا چاہئیے تھا انھیں وہ خدا ، پیغمبر اور سچے موٴمنین کے خلاف خرچ کرتے ہیں ۔
اگر اس موقع پر کسی تفسیر میں ہمیں ”کافر“ کا لفظ صرف ”ابو جہل “ کے بارے میں دکھائی دیتا ہے تو یہ اس کا ایک واضح مصداق ہے وگر نہ ”کافر“ کا ہر جگہ وسیع معنیٰ ہے جو تمام کفار کے لئے ہے ۔
1۔ تفسیر مجمع البیان اور تفسیر روح المعانی ، اسی آیت کے ذیل میں ۔
۱۔ صرف ایک قیادتسوره فرقان / آیه 51 - 55
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma