۲۔ توحید سے انحراف کیوں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 15
۳۔ ”بور“ کیا ہے ؟۱۔ معبود سے کیا مراد ہے ؟

قابل توجہ امر یہ ہے کہ یہ معبود ،مشرک لوگوں کے انحراف کی وجہ سے ان کی آسودہ اور خوشحال زندگہ بتاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ خدا وندا !تو نے انھیں اور ان کے آباوٴ اجدا جداو کو اس زندگی کی نعمتوں سے نوازا جس وجہ سے انہوں نے تجھے بھلا دیا وہ نعمت عطاکرنے والے کی معرفت حاصل کرنے ، اس کا شکر ادا کرنے اور کی اطاعت کرنے کے بجائے غفلت اور غرور کے چکر میں پھنس کر تجھے اور روز قیامت کو بھول گئے سچی بات ہے کہ جن لوگوں کو ظرف چھوٹا اور ایمان کی بنیادیں کمزور ہیں ان کے لئے خوشحال زندگی ایک تو ” غرور آفرین “ ہے کیونکہ جب انھیں بے پناہ نعمتیں مل جاتی ہیں تو وہ اپنے قابوں میں نہیں رہتے اور خداکو بھلا دیتے ہیں حتی کہ کبھی کبھی تو فرعون کی مانند” انا اللہ“ ( میں خدا ہوں)کا نعرہ لگا نا بھی شروع کرتے دیتے ہیں ۔
دوسرے وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ بے لگام اور آزاد ہوں اور ان کی عیش و عشرت اورخواہشات کی تکمیل کے آگے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو اور حلال و حرام اور جائز و ناجائز نامی کوئی چیزیں انھیں اپنے مقصد پہنچنے سے نہ روکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شرعی قوانین اور روز جزا کو تسلیم کرنے سے کنی کتراتے ہیں ۔
اب بھی آسودہ حال لوگوں میں سے بہت کم ایسے ہیں جو خدا کے دین اور انبیاء کی تعلیمات کے طرفدار ہوں یہ تو مستضعف اور غریب لوگ ہیں ہوتے ہیں جو دیں اور مذہب کے طرفدار اور ایثار پیشہ وفا شعار ہوتے ہیں ۔
البتہ استثنا تو دونوں طبقوں میں ہوتا ہی ہے لیکن بات اکثریت کی ہورہی ہے اور اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ابھی بتا یا جا چکا ہے ۔
یہ بھی یاد رہے کہ آیت بالا میں صرف ان لوگوں کی امارت اور خوشحالی تک ہی بات محدود نہیںہے بلکہ ان کے آباوٴ اجداد کی خوشحالی کا بھی ذکر بھی ہے کیونکہ انسان جب بچپن ہی سے نازو نعمت کی زندگی میں پرورش پائے گا تو فطری بات یہ ہے کہ وہ عموماًاپنے اور دوسرے میں فرق محسوس کرے گا اور آسانی کے ساتھ خوشحال زندگی کو خیر باد کہنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔
اس کے برعکس خدائی احکام کی بجا آوری اور مذہبی مسائل کی پابندی کے لئے ایثار ، ہجرت ، جہاد بلکہ بعض اوقات شہادت تک کو قبول کرنا پڑتا ہے ،انواع و اقسام کی نعمتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے اور دشمن کے آگے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے اور یہ بات امراء طبقہ کے مزاج بالکل خلاف ہے البتہ جن لوگوں کی شخصیت مادیت کے بندھنوں سے بالکل آزاد ہے اگر کبھی کچھ پاس ہوتا ہے تو خدا کا شکر بجا لاتے ہیں اور اگر نہیں ہوتا تو گھبرانہیں جاتے دوسرے لفظوں میں وہ اپنی مادی زندگی پر حاکم ہوتے ہیں نہ کہ محکوم ۔
اس وضاحت سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ” نسو الذکر “ کے جملے سے مراد یاد ِ خدا کو فراموش کردینا ہے جیسا کہ سورہ حشر آیہ ۱۹ میں اس جملے کی بجائے ” ولا تکونوا کالذین نسو اللہ “ آیا ہے یا ذکر کی فراموشی سے مراد یومِ قیامت اور عدل الہٰی کی فراموشی ہے جیسا کہ سورہ ص کی آیہ ۲۶ میں ہے :
لھم عذاب شدید بما نسو ا یوم الحساب
روزحساب کو فراموش کردینے کی وجہ سے ان کے لئے سخت عذاب ہے ۔
اور یا خدا اور قیامت دونوں کو فراموش کرنا مراد ہے ۔
۳۔ ”بور“ کیا ہے ؟۱۔ معبود سے کیا مراد ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma