رسول الله کو تنہا نہ چھوڑو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
شان نزول

ان آیات کا گزشتہ آیات سے کیا ربط ہے؟ اس سلسلے میں طبرسی نے مجمع البیان میں اور سید قطب الدین نے تفسیر فی ظلال میں اور بعض دیگر مفسرین نے کہا کہ گزشتہ آیات میں دوستوں اور رشتے داروں سے معاشرت کے بارے میں احکام تھے اور ان آیات میں رسول اکرم سے مسلمانوں کی معاشرت کے بارے میں احکام ہیں، ان میں مسلمانوں کو اس سلسلے میں نظم وضبط کی پابندی کرنے کے لئے کہا گیا ہے تاکہ وہ تمام امور میں رسول الله کی طرف توجہ رکھیں اور اہم کاموں میں ضرورت اور اجازت کے بغیر الگ نہ ہوں ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ چند پہلی آیتوں میں الله اور رسول کی اطاعت کے لازمی ہونے کے بارے میں گفتگو تھی اور اطاعت کے تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ ان کی اجازت اور حکم کے بغیر کوئی کام نہ کیا جائے لہٰذا زیرِ بحث آیات میں اس کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔
بہرحال زیرِ نظر پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: حقیقی مومن تو وہ ہیں کہ جو الله اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں اور جب کسی اہم کام میں ان کے ساتھ ہوں تو اجازت لئے بغیر کہیں نہیں جاتے (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ وَإِذَا کَانُوا مَعَہُ عَلیٰ اٴَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ یَذْھَبُوا حَتَّی یَسْتَاٴْذِنُوہُ) ۔
”امر جامع“ سے مراد ایسا اہم کا م ہے کہ جس میں لوگوں کا جمع ہونا ضروری ہو اور اس میں تعاون اور ایک دووسرے سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو، چاہے کسی اہم مسئلے پر غور وخوض اور مشاورت کا مسئلہ ہو چاہے جہاد اور دشمنوں سے جنگ کا مسئلہ ہو یا اہم حالات میں نماز جمعہ کا اجتماع ہو یا ایسا ہی کوئی اہم کام، لہٰذا یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مفسرین نے اس سے مراد کوئی اہم مشورہ لیا ہے، بعض نے جہاد، بعض نے نماز جمعہ اور بعض نے نماز عید تو یہ سب آیت کا ایک مصداق ہیں اور مذکورہ بالا شان ہائے نزول بھی اس کلی حکم کا مصداق ہیں ۔
درحقیقت یہ نظم وضبط اور ڈسپلن کے بارے میں ایک حکم ہے اس سے کوئی منظم جماعت بے اعتنائی نہیں کرسکتی کیونکہ ایسے مواقع پر بعض اوقات ایک فرد کا بھی غائب ہوجانا بہت گراں اور نقصان دہ ہوتا ہے اور اصل مقصد کو نقصان پہنچتا ہے، خصوصاً اگر جماعت کا رہبر فرستادہٴ خدا اور الله کا رسول اور روحانی رہبر ہو کہ جس کا حکم واجب الاطاعت ہوتا ہے ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ اجازت لینے سے یہ مراد نہیں ہے کہ جس شخص کو بھی کوئی کام ہو وہ بس ایک ظاہری سی اجازت لے لے اور اپنے کام کے پیچھے چل پڑے بلکہ مراد یہ ہے کہ واقعاً اجازت لے یعنی اگر رہبر اس کی عدم موجودگی کو نقصان دہ سمجھے اور اسے اجازت دے تو وہ جائے ورنہ وہیں رہے اپنے ذاتی کام کو بڑے مقصد پر قربان کردے ۔
لہٰذا اس جملے کے بعد فوراً فرمایا گیا ہے: جو لوگ تجھ سے اجازت چاہتے ہیں اور سچ مچ الله اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا ایمان صرف زبانی نہیں ہے بلکہ دل وجان سے فرمانبردار ہیں (إِنَّ الَّذِینَ یَسْتَاٴْذِنُونَکَ اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِہِ) ۔ تو اس صورت میں ان میں سے تو جس شخص کو چاہے (اور مصلحت دیکھے) اجازت دے دے (فَإِذَا اسْتَاٴْذَنُوکَ لِبَعْضِ شَاٴْنِھِمْ فَاٴْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْھُمْ) ۔
واضح ہے کہ ایسے باایمان افراد اس امر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ وہ ایک اہم کام کے لئے لئے جمع ہوئے ہیں لہٰذا وہ کسی معمولی سے کام کے لئے اجازت طلب نہیں کرتے اور ”شاٴنھم“ سے مراد ضروری اور اہم کام ہی ہے ۔
دوسری طرف رسول کے چاہنے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ وہ حالات کو تمام پہلووٴں سے مدنظر رکھے بغیر لوگوں کی موجودگی اور عدم موجودگی کے اثرات کو دیکھے بغیر اجازت دے دیں بلکہ یہ فقط اس بات کا غماز ہے کہ رہبر کو اختیار ہے کہ جب وہ محسوس کرے کہ لوگوں کا حاضر رہنا ضروری ہے تو وہ انھیں اجازت نہ دے ۔
اس بات کی گواہ سورہٴ توبہ کی آیت ۴۳ ہے جس میں بعض افراد کو اجازت دینے پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
<عَفَا اللهُ عَنْکَ لِمَ اٴَذِنتَ لَھُمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ
”الله نے اس بات سے صرف نظر کیا ہے کہ تو نے انھیں بغیر سچوں اور جھوٹوں میں تمیز کئے ہوئے کیوں اجازت دی“۔
یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ رسول کو بھی لوگوں کو اجازت دیتے وقت غور وخوض کرنا چاہیے اور معاملے کے تمام پہلووٴں کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے اور اس سلسلے میں ان پر الله کی طرف سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: جب تو انھیں اجازت دیتا ہے تو ان کے لئے استغفار کر کہ الله غفور ورحیم ہے (وَاسْتَغْفِرْ لَھُمْ اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ) ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ استغفار کس لئے ہے؟ یا وہ پیغمبر اکرم سے اجازت کے باوجود گنہگار ہیں کہ جس کی وجہ سے استغفار کے محتاج ہیں؟
اس سوال کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے ۔
۱۔ اگرچہ وہ چلے جانے کے مجاز ہیں پھر بھی انھوں نے اپنے ذاتی کام کو مسلمانوں کے اجتماعی کام پر ترجیح دی ہے اور ایسا کرنا ترک اولیٰ تو ضرور ہے ۔(1) اسی لئے استغفار کے محتاج ہیں (جیسے ایک مکروہ کام پر استغفار کرنا چاہیے اور ایثار وقربانی سے کام لینا چاہیے اور انھیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اجازت لینے کے بعد بھی ان کا عمل ترک اولیٰ ہے اور یہ امر اس لئے بھی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ جزوی اور ذاتی امور میں لوگ اہم کاموں کو ترک کے لئے اجازت ہی کو بہانہ بنالیں ۔
۲۔ وہ اپنے رہبر کے حضور آداب کو ملحوظ رکھنے کی بناء پر لطف الٰہی کے حق دار ہیں اور رسول الله کا ان کے لئے استغفار کرنا ایک طرح سے اظہار تحسین وتشکر ہے(2)۔
البتہ دونوں جواب آپس میں کوئی تضاد نہیں رکھتے اور ہوسکتا ہے کہ دونوں مراد ہوں ۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ نظم وضبط کے بارے میں یہ اہم حکم صرف رسول اکرم اور ان کے اصحاب کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام ہادیانِ الٰہی کے بارے میں یہی حکم ہے، چاہے وہ نبی ہوں، امام ہوں یا ایسے علماء کہ جو ان کے جانشین ہیں، کیونکہ اس حکم میں اسلامی معاشرے کے نظام اس اصول کے احترام کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور صحیح نظام اور ادارہ سازی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
تعجب کی بات ہے کہ بعض مشہور علماء اہل سنّت نے اس آیت کو جوازِ اجتہاد اور حکم کو مجتہد کی رائے پر چھوڑنے کی دلیل سمجھا ہے لیکن کہے بغیر واضح ہے کہ اصول وفقہ میں جو اجتہاد کیا جاتا ہے وہ احکامِ شریعت کے ساتھ مربوط ہے نہ کہ موضوعات کے ساتھ، موضوعات میں اجتہاد کرنا ناقابلِ انکار نہیں ہے، ہر لشکر کا کمانڈر ماہر ادارے کا سربراہ اور ہر گروہ کا سرپرست احکام کے اجراء کے موقع پر اور موضوعاتِ خارجی میں رائے دے سکتا ہے اور اس کی یہ رائے محترم ہے لیکن یہ اس امر کی دلیل نہیں شریعت کے کلّی احکام میں اجتہاد کیا جاسکتا ہے، مصلحت کے نام پر حکم وضعی یا حکم تکلیفی کی نفی نہیں کی جاسکتی۔
اس کے بعد اتباع پیغمبر سے مربوط ایک اور حکم دیا جارہا ہے، ارشاد ہوتا ہے: پیغمبر کی پکار اور بلانے کو تم ایسا نہ سمجھو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو (لَاتَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا) ۔ وہ کسی مسئلے میں جب تمھیں پکاریں تو یقیناً یہ ایک اہم الٰہی اور دینی مسئلہ ہے لہٰذا اسے اہمیت دو اور سنجیدگی سے ان کے حکم پر ڈت جاوٴ، ان کی پکار کو معمولی نہ سمجھو کیونکہ ان کا فرمان الله کا فرمان ہے اور ان کی دعوت پروردگار کی دعوت ہے ۔
پھر مزید فرمایا گیا ہے: جو لوگ رسول کے اہم کاموں سے الگ ہوکر ایک دوسرے کی لوٹ لے کر یکے بعد دیگرے بھاگ جاتے ہیں الله انھیں جانتا ہے اور انھیں دیکھتا ہے (قَدْ یَعْلَمُ اللهُ الَّذِینَ یَتَسَلَّلُونَ مِنْکُمْ لِوَاذًا) ۔ لیکن جو لوگ اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں فتنے میں گرفتار ہوجائیں یا دردناک عذاب انھیں آلے (فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ اٴَمْرِہِ اٴَنْ تُصِیبَھُمْ فِتْنَةٌ اٴَوْ یُصِیبَھُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ) ۔
”یتسللون“ ”تسلسل“ کے مادے سے ہے اس کا معنیٰ ہے کسی چیز کو اس کی جگہ سے الگ کرنا مثلاً کہا جاتا ہے:
”سل السیف من الغمد“
”اس نے تلوار نیام سے نکالی“۔
جو لوگ چپکے سے کسی جگہ سے بھاگر جائیں عموماً انھیں ”متسللون“ کہا جاتا ہے ۔
”لواذاً‘ ‘ ”ملاوذة‘ ‘ سے چھپنے کے معنیٰ میں ہے، یہاں ایسے لوگوں کے عمل کے معنیٰ میں ہے جو ایک دوسرے کے پیچھے یا دیوار کی اوٹ میں چھپتے ہیں، گویا دوسرے کو غفلت میں پاکر بھاگ جاتے ہیں، یہ کام وہ تھا کہ جو منافقین انجام دیتے تھے جبکہ پیغمبر اکرم لوگوں کو جہاد یا کسی اور اہم کام کے لئے بلاتے تھے ۔
قرآن مجید کہتا ہے کہ تمھارا یہ قبیح اور منافقانہ عمل اگر لوگوں کی نظر سے چھپا بھی رہ جائے تو خدا سے مخفی نہیں رہتا اور پیغمبرِ خدا کے حکم سے تمھاری ان سرتابیوں کی دنیا وآخر میں دردناک سزا ہے ۔
یہ کہ یہاں ”فتنہ“ سے کیا مراد ہے، بعض مفسرین اسے قتل کے معنیٰ میں لیتے ہیں، بعض گمراہی کے اور بعض ظالم وجابر حکمران کے تسلط کے معنیٰ میں لیتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ ا س سے مراد نفاق کی مصیبت ہے کہ جو آدمی کے دل میں ظاہر ہوتی ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ ”فتنہ“ سے مراد اجتماعی فتنے، مصیبتیں، شکستیں اور آفتیں ہوں کہ جو حکمِ رہبر کی مخالفت کے باعث معاشرے کو دامن گیر ہوتی ہیں ۔
بہر حال ”فتنہ“ کا ایک وسیع مفہوم ہے کہ جس میں یہ تمام امور بھی شامل ہیں اور ان کے علاوہ بھی۔
اس طرح ”عذاب الیم“ ممکن ہے عذابِ دنیا کی طرف اشارہ ہو یا عذاب آخرت کی طرف یا دونوں کی طرف۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ زیرِ بحث آیت کی تفسیر میں ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کے علاوہ بھی دو احتمال ذکر ہوئے ہیں:
پہلا یہ کہ ”لَاتَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا“ سے مراد یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو تو ادب واحترام کے ساتھ اور ان کے شایانِ شان انداز سے پکارو نہ کہ اس طرح تم جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو، یہ اس لئے فرمایا گیا کیونکہ بعض ایسے لوگ جو اسلامی آداب سے ناآشنا تھے وہ رسول الله کی خدمت میں آتے تو لوگوں کے سامنے یا تنہائی میں ”یامحمد!“ ”یامحمد“ کہتے اور یہ انداذِ تخاطب ایک عظیم الٰہی پیغمبر کے شایانِ شان نہ تھا۔
مقصد یہ ہے کہ آنحضرت کو ”رسول الله“ اور ”یانبی الله“ جیسے الفاظ کے ساتھ اور معقول اور موٴدبانہ لہجے میں پکارنا چاہیے ۔
بعض روایات میں بھی یہ تفسیر موجود ہے لیکن گزشتہ آیت اور خود اس آیت میں ایسی تعبیرات ہیں کہ جو دعوتِ پیغمبر کو قبول کرنے اور ان کے پاس سے بلااجازت غائب نہ ہونے کی بابت گفتگو کرتی ہیں، اس لحاظ سے یہ تفسیر ظاہرِ آیت سے ہم آہنگ نہیں ہے، ہاں البتہ یہ تفسیر جب ممکن ہے کہ ہم کہیں کہ یہ دونوں مطالب آیت کے مفہوم میں جمع ہیں ۔
دوسرا احتمال بھی ہے کہ جو ضعیف معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ رسول الله کی دعا یا بدعا کو آپس میں ایک دوسرے کی دعا اور بددعا کی طرح نہ سمجھو ۔(3) کیونکہ آپ کی دعا اور بددعا بہت سوچی سمجھی اور کسی صحیح بنیاد پر ہوگی اور پروگرام کے مطابق ہوگی اور مسلماً پوری بھی ہوگی۔
لیکن یہ تفسیر آیت کے مطالب ومعانی سے مطابقت نہیں رکھتی اور اس کے بارے میں کوئی روایت بھی نہیں، لہٰذا قابلِ قبول نہیں ہے ۔
اس نکتے کا ذکربھی ضروری ہے کہ علماء اصول نے ”فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ اٴَمْرِہِ....“ سے بھی استفادہ کیا ہے کہ رسول الله کے اوامر اور احکام واجب ہیں ۔
لیکن اس استدلال پر بہت سے اشکالات ہوتے ہیں کہ جن کی طرف علمِ اصول میں اشارہ ہوا ہے ۔
زیرِ بحث آخری آیت میں سورہٴ نور کی بھی آخری آیت ہے، یہ آیت مبداء ومعاد کی طرف ایک لطیف اور معنی خیز اشارہ ہے کہ جو تمام الٰہی احکام کی بنیاد ہیں، یہی عقائد درحقیقت تمام اوامر ونواحی کے اجرا کے ضامن ہیں اور ان میں وہ اوامر ونواہی بھی شامل ہیں کہ جو اس سورہ میں اول تاآخر آئے ہیں ۔
ارشاد ہوتا ہے: آگاہ رہو کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کچھ الله کے لئے ہے (اٴَلَاإِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔
وہ خدا کہ جس کا علم پورے عالم پر محیط ہے اور ”جس میں تم ہو وہ اسے جانتا ہے“ (تمھاری روش، تمھارے اعمال، تمھارے عقیدے اور تمھاری نیّتیں سب اس پر آشکار ہیں) (قَدْ یَعْلَمُ مَا اٴَنْتُمْ عَلَیْہِ) ۔
اور جو کام بھی تم انجام دیتے ہو اس کے صفحہٴ علم پر ثبت ہیں اور جس روز سب انسان اس کی طرف لوٹ جائیں گے اس روز وہ انھیں ان کے انجام دیئے ہوئے اعمال سے آگاہ کرے گا اور ان کا نتیجہ جو کچھ بھی ہوگا وہ انھیں دے گا (وَیَوْمَ یُرْجَعُونَ إِلَیْہِ فَیُنَبِّئُھُمْ بِمَا عَمِلُوا) ۔ اور الله ہر چیز کا عالم اور ہر امر سے آگاہ ہے (وَاللهُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ).
یہ بات قابل توج ہے کہ ان آیات میں تین مرتبہ یہ بات آئی ہے کہ انسانوں کے اعمال خدا کے علم میں ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ جب انسان کو احساس ہو کہ ہر وقت کوئی اس کی نگرانی کررہا ہے اور اس کے ظاہر وباط کا کوئی گوشہ اس سے مخفی نہیں ہے تو یہ اعتقاد اس کی تربیت کے لئے بہت پُر تاثیر ہوگا اور اسے گناہوں سے بچائے رکھے گا۔
1۔ تفسیر فخر رازی، روح المعانی اور تفسیر قرطبی، زیرِ بحث آیات کے ذیل میں ۔
2 ۔ تفسیر فخر رازی، زیرِ بحث آیات کے ذیل میں ۔
3۔ لفظ ”دعاء“ کے بعد اگر لفظ ”لام“ ہو تو کسی کے حق مں دعائے خیر کے معنیٰ میں ہے اور اگر ”علیٰ“ ہو تو نفرین اور بددعا کے معنیٰ میں ہے اور ان میں سے کوئی نہ ہو تو پھر دونوں کا احتمال ہے ۔
شان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma