ایک سوال کا جواب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
1. آیت میں ”ماء“سے کیا مراد ہے؟کچھ اور عجائبات کی خلقت
سوال یہ ہے کہ آسمان میں کونسا پہاڑ ہے کہ جس سے کنائے کے طور پر ژالہ باری ہوتی ہے، اس ضمن میں مفسرین نے مختلف باتیں کی ہیں، مثلاً:
۱۔ بعض نے کہا ہے کہ ”جبال“ (متعدد پہاڑ) کنائے کے طور پر ہے، جیسے ہم کہتے ہیں، اناج کا پہاڑ یا علم کا پہاڑ لہٰذا یہاں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آسمان بادلوں میں پہاڑ کی مانند برف کا عظیم تودہ معرض وجود میں آتا ہے ، اولے گویا اس پہاڑ کے ٹکڑے ٹکڑے اور سنگریزے ہیں، کچھ کسی شہر میں جا گرتے ہیں، کچھ بیابان میں جاپڑتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ لوگوں کو ان سے نقصان بھی پہنچتا ہے ۔
۲۔ بعض نے کہا ہے کہ پہاڑوں سے مراد بادل کے بڑے بڑے ٹکڑے ہیں، جو پہاڑوں کی طرح عظیم ہوتے ہیں ۔
۳۔ تفسیر ”فی ظلال“ کے موٴلف نے اس سلسلے میں ایک بات کی ہے، یہ بات سب سے زیادہ مناسب نظر آتی ہے، وہ یہ کہ آسمان پر بادل کے ٹکڑے سچ مچ پہاڑ کی طرح کے ہوتے ہیں، اگرچہ نیچے زمین سے ہم دیکھیں تو ہموار دکھائی دیتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے ہوائی جہاز کے ذریعے بادلوں کے اوپر سے سفر کیا، انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بادل بالکل پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں، ان میں سے درّے، بلندیاں اور پستیاں ہوبہو زمین پر پہاڑوں جیسی ہوتی ہیں، اس لحاظ سے بادل پر پہاڑ کا اطلاق بالکل نامناسب ہے(1) ۔
اس گفتگو کے ساتھ ہم اس نکتے کا اضافہ کرسکتے ہیں کہ سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق اولے پیدا ہوتے ہیں کہ بارش کے قطرے بادل سے الگ ہوتے ہیں، وہ ہوا کے بالائی حصّے میں سردی کی شدید لہروں سے ٹکراکر برف کی گولیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں، اس حصّے میں موجودہ تباہ کن طوفان اور جھکڑ کے باعث بعض اوقات یہ اولے پھر اوپر کی طرف اچھل کر بادل میں داخل ہوجاتے ہیں، اس اثناء میں پانی کی تہہ ان پر چڑھ جاتی ہے، بادلوں سے جدا ہوتے وقت وہ پھر برف کی گولیاں بن جاتے ہیں، کبھی تو ان گولیوں کے گرنے اور طوفان سے ٹکراکر اوپر بادلوں کی طرف اچھلنے کا عمل کئی مرتبہ دہرایا جاتا ہے اور ہر بار ان پر ایک نئی تہہ کا اضافہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ یہ اولے اتے بڑے ہوجاتے ہیں کہ طوفان اور جھکڑ انھیں اب اوپر نہیں اچھال سکتے، لہٰذا وہ زمین پر آپڑتے ہیں، یا پھر طوفان رک جانے کے باعث وہ کسی رکاوٹ کے بغیر زمین پر آپڑتے ہیں(2) ۔

اس بات کی طرف توجہ کرنے سے لفظ ”جبال“ میں جو سائنسی نکتہ پوشیدہ ہے، زیادہ واضح ہوجاتا ہے، کیونکہ بھاری اولے تبھی وجود میں آسکتے ہیں ، جب بادل تہ دار ہوجائیں تاکہ جس وقت طوفان برف کی گولیوں کو ان کے اندر کی طرف اچھالیں تو یہ پانی کی زیادہ مقدار جذب کرسکیں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اوپر کی طرف کے ٹکڑے مرتفع اور بلند پہاڑوں کی طرح ہوں (غور کیجئے گا)(3).
بعض موٴلفین نے اس موقع پر ایک اور بحث بھی کی ہے جس کا خلاصہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
”زیرِ بحث آیات میں بلند بادل صریحاً برف کے پہاڑوں کی طرف اشارہ ہے اور یا دوسرے الفاظ میں ان سے وہ پہاڑ مراد ہیں کہ جن میں ایک طرح کی برف ہوتی ہے اور یہ بہت جاذب نظر ہے کیونکہ ہوائی جہازوں کے وجود میں آنے کے بعد اور بلند پروازوں کے ممکن ہوجانے کے بعد انسانی علم بہت وسیع ہوگیا ہے، سائنسدانوں نے ایسے بادل دریافت کئے ہیں کہ جو برف کے ذرّات سے بنے ہوئے ہیں اور ان کے نیچے چھپے ہوئے ہیں کہ جن پر برف، موسلا دھار طوفانی بارشوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے باربار برف کے پہاڑ یا برف سے بنے ہوئے پہاڑ کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ واقعاً آسمان میں برف کے پہاڑ موجود ہیں(4) ۔
اگلی آیت میں رات اور دن کی خلقت اور ان کی خصویات کے حوالے سے عظمتِ الٰہی کی ایک اور نشانی بیان کی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے، الله رات اور دن کو الٹ پھیر کرت لاتا ہے، اور اس میں اہل بصیرت کے لئے عبرت ہے (یُقَلِّبُ اللهُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَعِبْرَةً لِاٴُوْلِی الْاٴَبْصَارِ) ۔
یہ کہ اس تعبیر اور الٹ پھیر سے مراد ہے اس سلسلے میں علماء نے مختلف تفسریں کی ہیں، مثلاً:
بعض نے کہا کہ اس سے مراد رات اور دن کی آمد ورفت ہے، کیونکہ رات آتی ہے تو دن کو محو کردیتی ہے اور دن آتا ہے تو رات کو محو کردیتا ہے ۔
بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان میں سے ایک تدریجی طور پر چھوٹا ہوتا ہے تو دوسرا بڑھ جاتا ہے اور اسی سے مختلف موسم پیدا ہوتے ہیں ۔

بعض نے اسے رات اور دن میں پیدا ہونے والے مختلف تغیرات مثلاً گرمی اور سردی وغیرہ کے معنی لیا ہے (5) ۔
لیکن بغیر کہے واضح ہے کہ یہ تفسیریں باہم ایک دوسرے کے منافی ہیں اور ہوسکتا ہے یہ سب ”یقلب“ کے مفہوم میں جمع ہوں ۔
بلاشبہ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ رات اور دن کا آنا جانا اور ان کے تدریجی تغیرات انسانی زندگی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور ”اولی الابصار“ اور اہل نظر کے لئے درسِ عبرت ہیں، اگر سورج ایک ہی طرح چمکتا رہے اور دھوپ مسلسل پڑتی رہے تو ہوا کا درجہ حرارت بہت بڑھ جائے اور جاندار چیزیں جل جائیں اور اعصاب بہت تھک جائیں لیکن اس تپش اور چمک کے درمیان اگر رات کے تاریک پردے حائل ہوجائیں تو ان چیزوں کو اعتدال میں رکھتے ہیں ۔
شب وروز میں پیدا ہونے والی تدریجی تبدیلیاں چار موسموں کی پیدائش کا باعث بنتی ہے اور یہ نباتات کے بار آور ہونے کے لئے بہت ہی موٴثر ہیں، اس طرح یہ تبدیلیاں جانداروں کی زندگی، بارش برسنے اور زمینوں میں پانی کے ذخائر جمع ہونے کے لئے بہت موٴثر کردار ادا کرتی ہیں(6) ۔
زیرِ نظر آخر آیت چہرہٴ آفرینش کے ایک اور رخ کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ بھی توحید الٰہی کے لئے ایک واضح دلیل ہے اور یہ ہے مختلف صورتوں میں زندگی کا وجود ، ارشاد ہوتا ہے: الله نے ہر جلنے پھرنے والے کو پانی سے پیدا کیا ہے (وَاللهُ خَلَقَ کُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ) ۔
اگرچہ ان سب کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے، لیکن پھر بھی عجیب مختلف قسم کے جاندار پیدا ہوتے ہیں ”کچھ ان میں سے پیٹ کے بل چلتے ہیں“ (فَمِنْھُمْ مَنْ یَمْشِی عَلیٰ بَطْنِہِ) اور کچھ ہیں کہ جو چار پاوٴں پر چلتے ہیں (چوپائے) (وَمِنْھُمْ مَنْ یَمْشِی عَلیٰ رِجْلَیْنِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَمْشِی عَلیٰ اٴَرْبَعٍ) ۔
اور پھر یہی نہیں، زندگی کے اور بھی مظاہر ہیں، ان میں سے وہ بھی جاندار ہیں کہ جو پانی میں رہتے ہیں، اسی طرح حشرات الارض بھی ہزاروں قسم کے ہیں، اسی لئے آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: الله جس چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے پیدا کرتا ہے (یَخْلُقُ اللهُ مَا یَشَاءُ) ۔ کیونکہ الله ہر چیز پر قادر ہر چیز پر قادر ہے (إِنَّ اللهَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ) ۔
1۔ فی ضلال القرآن، ج۶، ص۱۰۹.
2 ۔ دائرة المعارف فرہنگ نامہ، مادہٴ ”تگرک“۔
3 ۔ ”وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ فِیھَا مِنْ بَرَدٍ“ میں تین مرتبہ لفظ ”من“ آیا ہے، عربی ادب کے لحاظ سے ان میں سے پہلا ”من“ ”ابتدائیہ“، دوسرا بھی ”ابتدائیہ “ البتہ تیسرے ”من“ کے بارے میں مختلف آراء ہیں، ایک یہ ہے کہ یہ ”بیانیہ“ ہے اور اس لحاظ سے جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ ”الله آسمان سے اولوں کے پہاڑوں سے اولے بھیجتا ہے“ اس قول کی بناء پر ”ینزل“ کا مفعول محذوف ہے ”البرد“ کہ جو قرینہٴ کلام سے سمجھا جاتا ہے، لیکن دوسری اور تیسری تفسیر کے جسے ہم نے انتخاب کیا ہے، کی بناء پر یہ ”من“ ”زائدہ“ ہوگا، جیسا کہ زمخشری نے روح المعانی میں لکھا ہے، یا پھر یہ ”تبعیضیہ“ ہے (غور کیجئے گا) ۔
4۔ باد باراں در قرآن، ص۱۴۰ و۱۴۱ (مزید توضیح کے لئے مذکورہ کتاب کا مطالعہ فرمائیں ۔
5۔ تفسیر فخر الدین رازی، تفسیر مجمع البیان اور تفسیر روح المعانی۔
6 ۔ اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد۸ میں سورہٴ یونس کی آیت ۶ کے ذیل میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔
1. آیت میں ”ماء“سے کیا مراد ہے؟کچھ اور عجائبات کی خلقت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma