2. پردے کے مخالفین کے اعتراضات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
3۔ چہرے اور ہاتھوں کا استثنائ۱۔ پردے کا فلسفہ
اب ہم کچھ ان اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جو پردے کے مخالفین پیش کرتے ہیں:
۱۔ اس بنیادی اعتراض پر پردے کے سب معترضین کا اتفاق ہے کہ عورتیں معاشرے کا نصف حصّہ ہیں لیکن پردہ معاشرے کی اتنی بڑی آبادی کو گوشہ بناکر رکھ دیا ہے اور اس طرح سے انھیں فکری، تمدنی اور ثقافتی لحاظ سے پیچھے دھکیل کر پسماندہ کردیتا ہے، خصوصاً اس اقتصادی دوڑ کے زمانے میں فعال انسانی قوتوں کی ضرورت زیادہ ہے لیکن پردے کی صورت میں اس اقتصادی دوڑ میں عورتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا ہے، جبکہ ثقافتی اور سماجی مراکز میں بھی ان کی جگہ اس طرح خالی رہے گی، اس طرح سے عورتیں معاشرے کا غیر پیداواری حصّہ بن کر ایک بوجھ بن جائیں گی۔
لیکن یہ اعتراض کرنے والے چند امور سے بالکل غافل ہیں یا جان بوجھ کر تفاغل برتتے ہیں کیونکہ:
اولاً: کون کہتا ہے کہ اسلامی پردہ عورت کو گوشہ نشین بنادیتا ہے اور اسے معاشرے کے منظر سے دور پھینک دیتا ہے گزشتہ زمانے میں شاید ضروری تھا کہ اس سلسلے میں ہم استدلال پیش کریں لیکن آج انقلاب اسلامی کے بعد تو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ عورتیں گروہ درگروہ اسلامی پردے کے اندر ہر جگہ موجود ہوتی ہیں، دفتروں، کارخانوں، سیاسی مظاہروں، ریڈیو، ٹیلی ویژن، اسپتال اور مراکز صحت میں خصوصاً جنگ کے زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے اور اسی طرح میدانِ ثقافت میں اور تعلیمی اداروں میں یہاں تک کہ دشمن سے جنگ کے میدان میں ہر کہیں پر عورتیں موجود ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ یہ کیفیت ان تمام اعتراضات کا دندان شکن جواب ہےں انقلاب سے پہلے اگر ہم ”امکان“ پر بات کرتے تھے تو آج اس کا ”وقوع“ اور ”موجودگی“ ہمارے سامنے ہے اور فلاسفہ نے کہا ہے کہ کسی شے کے امکان کی بہترین دلیل اس کا وقوع ہے اور یہ آج ایسا آشکار ہے کہ محتاج بیان نہیں ۔
ثانیاً: کیا گھر کو چلانا ، بچوں کی تربیت کرکے انھیں آبرومند بنانا اور ایسے انسان تیار کرنا کہ جو آئندہ اپنے توانا بازووٴں سے معاشرے کے عظیم پہیوں کو چلاسکیں، کوئی کام نہیں؟
جو لوگ عورت کی اس عظیم خدمت کو مثبت شمار نہیں کرتے وہ اس امر سے بے خبر ہیں کہ ایک خاندان ایک صحیح وسالم اور آبادومتحرک معاشرے کی تعمیر میں کیا کردار ادا کرتا ہے ۔
وہ خیال کرتے ہیں کہ بس یہی صحیح راستہ ہے کہ ہمارے مرد اور عورتیں مغربی مردو اور عورتوں کی طرح صبح سویرے گھر سے نکلیں بچوں کو پرورش گاہوں کے سپرد کردیں یا گھر میں چھوڑکر دروازے بند کرجائیں اور خود دفتر یا کارخانے کی طرف روانہ ہوجائیں اور اُن اَن کھلی کلیوں کو اسی عمر سے قیدخانے کا تلخ ذائقہ چکھنے کے لئے چھوڑ جائیں ۔
یہ لوگ اس امر سے غافل ہیں کہ یہ عمل بچوں کی شخصیت کو درہم وبرہم کردیتا ہے، اس طرح بے روح انسانی احساسات سے عاری بچے پروان چڑھتے ہیں کہ جو معاشرے کے لئے بوجھ ہی نہیں بلکہ اس کے مستقبل کے لئے خطری بھی ہوتے ہیں ۔
۲۔ دوسرا اعتراض ان کا یہ ہے کہ پردہ ہاتھ پاوٴں کو باندھ دینے والالباس ہے اور بھاگ دوڑ اور کام کاج میں بالخصوص جدید مشینی دور میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، ایک عورت آخر اپنی حفاظت کرے، اپنی چادر سنبھالے، بچے کو تھامے یا اپنا کام کاج کرے؟
لیکن یہ اعتراض کرنے والے ایک نکتے سے غافل ہیں اور وہ یہ کہ پردہ ہمیشہ چادر اور برقعے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ایسا لباس جو پورے جسم کو ڈھانپ دے وہی پردہ ہے، اگر چادر سے ہو تو کیا ہی بہتر اور جہاں چادر سے نہ ہو تو مکمل پہناوے پر قناعت ہوجائے گی۔
ہماری کسان اور دیہاتی عورتیں کاشت اور کٹائی کا کام کرتی ہیں، دھان کے کھیتوں میں ان کا کام کچھ زیادہ ہی مشکل ہوتا ہے انھوں نے یہ اہم اور مشکل کام اسلامی پردے کے ساتھ انجام دے کر ان اعتراضات کا جواب دے دیا ہے اور اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ ایک دیہاتی عورت اسلامی پردے کے ساتھ بعض اوقات مردوں سے بھی زیادہ اور بہتر کام کرتی ہے اور اس کام میں اس کا پردہ ہرگز رکاوٹ نہیں بنتا۔
۳۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پردہ عورتوں اور مردوں کے درمیان حائل ہوکر مردوں کو زیادہ حریص بنادیتا ہے، اس سے ان کے حرص کی آگ بجھنے کے بجائے اور بھڑک اٹھتی ہے کیونکہ:
”الانسان حریص علی یمنع“
جس چیز سے انسان کو روکا جائے اس پر زیادہ حریص ہوتا ہے ۔
اس سوال کا جواب یا زیادہ صحیح الفاظ میں اس مغالطے کا جواب ہمارے آج کا ایرانی معاشرہ ہے، آج پردہ بلا شبہ استثناء ہمارے تمام معاشرے میں اور تقریباً تمام مراکز میں موجود ہے، اس دور کا مقابلہ سابقہ شہنشاہی طاغوتی دور سے کیا جاسکتا ہے جبکہ اس زمانے میں عورتوں سے پردہ زبردستی اتروایا گیا تھا۔
اس زمانے میں ہر گلی کوچہ مرکزِ گناہ تھا، گھرانوں اور خاندانوں کی عجیب بے لگام زندگی تھی، طلاق معاشرے میں انتہائی زیادہ ہوچکی تھی، ناجائز بچوں کی شرح پیدائش بڑھ چکی تھی اور اسی طرح ہزارہا بدبختیاں تھیں ۔
ہم نہیں کہتے کہ ان میں سے ہر چیز بنیاد سے بالکل اکھڑگئی ہے لیکن بلاشبہ ان بدبختیوں میں بہت زیادہ کمی آئی ہے اور اس اعتبار سے سلامتی ہمارے میں لوٹ آئی ہے اور انشاء الله اگر حالات اسی صورت پر رہے اور بچی کچھی قباحتیں بھی ختم ہوگئیں تو ہمارا معاشرہ خاندانوں کی پاکیزگی اور عورت کی قدر ومنزلت کے تحفظ کے لحاظ سے منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔
3۔ چہرے اور ہاتھوں کا استثنائ۱۔ پردے کا فلسفہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma