ایک بہت بڑی تہمت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 17 - 20شان نزول کے بارے میں تحقیق
زیرِ نظر پہلی آیت واقعہ بیان کئے بغیر کہتی ہے: جن لوگوں نے یہ بہتان باندھا ہے وہ تمہی میں سے تھے (إِنَّ الَّذِینَ جَائُوا بِالْإِفْکِ عُصْبَةٌ مِنْکُمْ) ۔
بلاغت کے فنون میں سے ایک یہ ہے کہ زیادہ جملوں کو حذف کرکے ایسے الفاظ پر اکتفا کیا جاتا ہے کہ جو ضروری مفہوم پر دلالت کرتے ہوں ۔
لفظ ”افک“ (بروزن ”فکر“) بقول راغب ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے کہ جس کی اصلی وطبیعی حالت بدل جائے، مثلاً اپنے اصلی راستے ہے ہٹ جانے والی مخالف ہواوٴں کو ”موٴفکہ“ کہتے ہیں، بعد ازاں حق سے منحرف اور خلاف واقعہ ہر گفتگو کے لئے یہ لفظ استعمال ہونے لگا، اسی لحاظ سے جھوٹ، تہمت اور بہتان کو ”افک“ کہا جاتا ہے ۔
مجمع البیان میں مرحوم علامہ طبرسی نے کہا ہے کہ ہر جھوٹ ”افک“ کو نہیں کہتے بلکہ ایسے بڑے جھوٹ کو کہتے ہیں کہ جو معاملے کی اصل صورت ہی بدل دے، اس لحاظ سے لفظ ”افک“ بذات خود تہمت کے اس واقعے کی اہمیت ظاہر کرتا ہے ۔
لفظ ”عصبة“ (بروزن ”غصّہ“) در اصل ”عصب“ کے مادے سے ان خاص ریشوں اور رگوں کے معنی میں ہے کہ جو انسانی اعضاء کو آپس میں جوڑتے ہیں، مجموعی طور پر انھیں ”اعصاب“ کہتے ہیں، بعد ازاں یہ لفظ اس گروہ اور جمعیت کے معنی میں استعمال ہونے لگا کہ جس کے افراد باہم متحد ومربوط ہوں، آپس میں ہم فکر اور ہمکار بھی، خصوصیت سے اس لفظ کا استعمال نشاندہی کرتا ہے کہ واقعہٴ افک کا منصوبہ بنانے والے باہم بہت قریب اور مربوط تھے اور انھوں نے اس کے لئے بہت مضبوط جال بُنا تھا۔
بعض نے کہا ہے کہ یہ لفظ عموماً دس تا چالیس افراد کے لئے استعمال ہوتا ہے (۱) ۔
بہرحال اس جملے کے بعد قرآن ان مومنین کی دلجوئی کرتا ہے کہ جو ایک پاکدامن شخص پر یہ تہمت لگنے کی وجہ سے شدید ناراحت تھے ۔ ارشاد ہوتا ہے: یہ گمان نہ کرو کہ یہ واقعہ تمھارے لئے باعث خیر ہے (لَاتَحْسَبُوہُ شَرًّا لَکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرٌ لَکُمْ) ۔ کیونکہ اس واقع نے شکست خوردہ دشمنوں اور کوردل منافقوں کے ارادوں سے پردہ اٹھادیا ہے اور اس نے ان بدسیرت خوش نما افراد کو رسوا کردیا ہے، نیز یہ بات کتنی اچھی ہے کہ ایک امتحان کی وجہ سے وہ لوگ روسیاہ ہوکر سامنے آجائیں کہ جو دل میں کھوٹ رکھتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے اگر یہ واقعہ پیش نہ آتا تو یہ لوگ پہچانے نہ جاتے اور آئندہ خطرناک ضرب لگاتے ۔
اس واقعے نے ایک درس مسلمانوں کو یہ بھی دیا کہ واقعات کے صرف ظاہر پر نظر نہ رکھیں کیونکہ بعض اوقات ظاہراً اچھے نہ لگنے والے واقعات باطنی طور پر بہت باعث خیر ہوتے ہیں ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ ”لکم“ کی ضمیر استعمال کرکے اس واقعے میں تمام مسلمانوں کو شریک گردانا گیا ہے اور دراصل ہے بھی ایسا ہی کیونکہ معاشرتی اور اجتماعی حوالے سے مسلمان ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں بلکہ غموں اور خوشیوں میں ایک دوسرے کے شریک ہیں ۔
اس آیت کے دو نکتوں کی مزید اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: جن لوگوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہے ان میں سے ہر ایک کے لئے جوابدہی اور سزا کا ایک حصّہ ہے (لِکُلِّ امْرِءٍ مِنْھُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ) ۔
اس طرف اشارہ ہے کہ اس گناہ کی بھاری ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے جو اس کے بانی اور منصوبہ ساز ہیں اور ان کی اس ذمہ داری کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے کے سر کوئی ذمہ داری نہیں آتی بلکہ جو کوئی بھی جس قدر اس کام میں شریک ہے اتنی ہی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے ۔
مزید فرمایا گیا ہے: جس کا اس گناہ میں بڑا حصّہ ہے اس پر عذاب بھی بڑا ہوگا (وَالَّذِی تَوَلَّی کِبْرَہُ مِنْھُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیمٌ) ۔
مفسرین نے کہا ہے کہ یہ شخص عبد الله بن ابی سلول تھا، یہ شخص اصحابِ افک کا سرغنہ تھا، بعض دیگر مفسرین نے مسطح بن اثاثہ اور حسان بن ثابت کو اس کا مصداق قرار دیا ہے ۔
بہرحال جو شخص اس واقع کا زیادہ محرک تھا جس نے اس آگ کا پہلا شعلہ بھڑکایا تھا اور ان لوگوں کا لیڈر تھا اس گناہ کا بڑا ہونے کی مناسبت سے اس کی سزا بھی بہت یادہ ہے (بعید نہیں کہ لفظ تولی یعنی ”جو اس کا رہبر بنا“ اس واقعے کی رہبری کی طرف اشارہ ہوا۔
اس کے بعد روئے سخن ان مسلمانوں کی طرف ہے کہ جو اس واقعے میں دھوکے میں آگئے، چند ایک آیات میں ان کی شدید مذمت کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جس وقت تم نے یہ تہمت سنی تو مومن مردوں اور عورتوں نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا (لَوْلَاإِذْ سَمِعْتُمُوہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِاٴَنفُسِھِمْ خَیْرًا) ۔ یعنی جب تم نے مومن افراد کے بارے میں منافقین کی باتیں سنیں تو دوسرے مومنین کے بارے میں حسنِ ظن سے کام کیوں نہ لیا کہ جو تمھارے لئے خود تمہی جیسے ہیں ۔
اور کیوں نہیں کہا کہ یہ ایک بڑا اور سفید جھوٹ ہے (وَقَالُوا ھٰذَا إِفْکٌ مُبِینٌ) ۔ جبکہ تم ان منافقین کا برا اور رسوا کن ماضی جانتے تھے ۔ اور تم تو ان افراد کی پاک دامنی سے اچھی طرح آگاہ تھے کہ جو دشمن پیغمبرِ اکرم کے خلاف کرتے رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود اس قسم کا جھوٹا پراپیگنڈا سن کر تمھارا خاموش رہنا لائق ملامت ہے ۔ اس طرح تم تو شعوری بالا شعوری طور پر اس الزام کی نشر واشاعت کا ذریعہ بن گئے ہو ۔
یہ بات جاذبِ توجہ ہے کہ آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ جس پر تہمت لگائی گئی تھی اس کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ تمھیں اپنے بارے میں حسنِ ظن رکھنا چاہیے تھا۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے یہ تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنین کا وجود ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے اور سب کے سب گویا ایک ہی وجود ہیں ۔ اگر کسی ایک پر تہمت لگے تو گویا سب پر لگی ہے اور اگر کسی ایک حصّے کا تکلیف پہنچے تو باقی حصّے قرار نہیں سے نہیں رہ سکتے اور جس طرح کسی ایک شخص پر تہمت لگے تو وہ اس کے دفاع کی کوشش کرتا ہے اسی طرح اس کے دینی بھائی بہنوں کو بھی اس کا دفاع کرنا چاہیے (۲) ۔
قرآن نے ایسے دیگر مواقع پر بھی لفظ ”انفس“ استعمال کیا ہے ۔ سورہٴ حجرات کی آیت ۱۱ میں ہے:
<وَلَاتَلْمِزُوا اٴَنفُسَکُمْ
”اپنے آپ کی غیبت نہ کرو“۔
نیز جو با ایمان مردوں اور عورتوں کا ذکر کیا ہے تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ایمان ایک ایسی صفت ہے کہ جو بدگمانیوں کو روک سکتی ہے ۔
یہاں تک تو اخلاقی اور روحانی پہلو سے سرزنش کی گئی تھی اور متوجہ کیا گیا تھا کہ کسی لحاظ سے بھی مناسب نہ تھا کہ ایسی بری تہمت پر مومنین خاموش رہتے یا کور دل سازشیوں کے لئے آلہٴ کار نہ بنتے ۔ اس کے بعد فیصلے اور حکم کا مرحلہ آتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: انھیں چار گواہ پیش کرنے کے لئے کیوں نہ کیا گیا (لَوْلَاجَائُوا عَلَیْہِ بِاٴَرْبَعَةِ شُھَدَاءَ) ۔

یہ احتمال معقول معلوم نہیں ہوتا اور اس سے تو کلام کی لطافت وبلاغت جانی جاتی ہے ۔
اب جبکہ وہ گواہ پیش نہیں کرسکے تو الله کے نزدیک وہ جھوٹے ہیں (فَإِذْ لَمْ یَاٴْتُوا بِالشُّھَدَاءِ فَاٴُوْلٰئِکَ عِنْدَ اللهِ ھُمَ الْکَاذِبُونَ) ۔
اس مواخذہ اور سرزنش سے ظاہر ہوتا ہے کہ چار گواہوں کی شہادت اور ان کے نہ ہونے کی صورت میں حدّقذف کا حکم آیات افک سے پہلے نازل ہوچکا تھا۔
رہا سوال یہ کہ خود رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے حد جاری کیوں نہ کی تو اس کا جواب واضح ہے کہ جب تک لوگ ساتھ نہ دیں اس طرح کا اقدام ممکن نہیں کیونکہ بعض اوقات قبائلی تعصب آڑے آجاتا ہے اور بعض احکام وقتی طور پر ہی سہی نافذ نہیں ہوپاتے اور تاریخ شاہد ہے کہ اس واقعے میں بھی یہی معاملہ درپیش تھا۔
آخر میں مجموعی طور پر فرمایا گیا ہے: اگر الله کا فضل اور رحمت دنیا وآخرت میں تمھارے شامل حال نہ ہوتی تو تمھیں اس کام کے باعث کہ جس میں تم داخل ہوگئے تھے عذابِ عظیم دامنگیر ہوتا (وَلَوْلَافَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّکُمْ فِی مَا اٴَفَضْتُمْ فِیہِ عَذَابٌ عَظِیمٌ) ۔
”افضتم“ ”افاضة“ کے مادہ سے زیادہ پانی نکلنے کے معنی میں ہے نیز کبھی یہ لفظ پانی میں داخل ہونے کے معنی میں آتا ہے ۔ اس تعبیر سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ مذکورہ تہمت کی شہرت اس قدر ہوگئی تھی کہ گویا مومنین اس کے اندر داخل ہوگئے تھے ۔
اگلی آیت درحقیقت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ وہ اتنے بڑے گناہ میں کیسے سادگی کے ساتھ اور آرام سے جاپڑے تھے ۔ ارشاد ہوتا ہے: اس وقت کا سوچو کہ جب تم اس بڑے جھوٹ کے استقبال کے لئے جارہے تھے اور ایک دوسرے کی زبان سے یہ پراپیگنڈا اڑائے لئے جاتے تھے (إِذْ تَلَقَّوْنَہُ بِاٴَلْسِنَتِکُمْ) ۔ اور اپنے منھ سے تم ایسی باتیں کرتے تھے کہ جن کے بارے میں تمھیں علم ویقین نہ تھا (وَتَقُولُونَ بِاٴَفْوَاھِکُمْ مَا لَیْسَ لَکُمْ بِہِ عِلْمٌ) ۔ اور تمھیں یہ گمان تھا کہ یہ معمولی سا معاملہ ہے حالانکہ خدا کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے (وَتَحْسَبُونَہُ ھَیِّنًا وَھُوَ عِنْدَ اللهِ عَظِیمٌ) ۔
آیت دراصل ان کے تین عظیم گناہوں کی طرف اشارہ کررہی ہے:
پہلا: اس پراپیگنڈا کا استقبال کرنا اور اسے ایک دوسرے کی زبان سے لینا۔ (پراپیگنڈا کو قبول کرنا) ۔
دوسرا: اس پراپیگنڈا کو ہوا دینا جبکہ وہ اس کے بارے میں علم ویقین نہ رکھتے تھے اور اسے دوسروں تک نہ پہنچانا (پراپیگنڈا کی کسی تحقیق کے بغیر کے تشہیر کرنا) ۔
تیسرا: اس عمل کو معمولی سمجھنا حالانکہ اس کا تعلق نہ فقط دومسلمانوں کی عزت وآبرو اور مقام ومنزلت سے تھا بلکہ اس کی زد اسلامی معاشرے کی حیثیت وآبرو پر بھی پڑتی تھی (پراپیگنڈا کو معمولی سمجھنا اور اسے شغل کے طور پر لینا) ۔
یہ بات لائق توجہ ہے کہ اس موقع پر لفظ ”بالسنتکم“ (تمھاری زبانیں) اور ”بافواھکم“ (تمھارے منھ) استعمال کئے گئے ہیں جبکہ تمام باتیں زبان اور منھ ہی سے کی جاتی ہیں ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تم نے اس پراپیگنڈا کو قبول کرنے میں دلیل کا مطالبہ کیا اور نہ پھیلانے میں دلیل کا سہارا لیا۔ زبان اور منھ کی ہوائی باتوں کو ہی تم اڑاتے رہے ۔
یہ واقعہ بہت اہم تھا مگر بعض مسلمانوں نے اسے معمولی سمجھ لیا تھا۔ اس لئے ایک مرتبہ پھر انھیں سرزنش کا زوردار تازیانہ لگایا کیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جب تم نے اتنا بڑا جھوٹ سنا تو یہ کیوں نہیں کہا کہ ہمیں اجازت نہیں ہے کہ ہم اس بارے میں گفتگو کریں (کیونکہ یہ ایک بے دلیل تہمت ہے) اے پروردگار! تو پاک ہے، یہ تو ایک بہت بڑا بہتان ہے (وَلَوْلَاإِذْ سَمِعْتُمُوہُ قُلْتُمْ مَا یَکُونُ لَنَا اٴَنْ نَتَکَلَّمَ بِھٰذَا سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیمٌ) ۔
درحقیت پہلے تو انھیں اس لئے ملامت کی گئی تھی کہ جن پر تہمت لگائی گئی تھی انھیں حسن ظن کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھا لیکن اب فرمایا گیا ہے حسنِ ظن کے علاوہ تمھیں نہیں چاہیے تھا کہ اس تہمت کے بارے میں لب کشائی کرتے چہ جائیکہ تم اس کی تشہیر کرنے لگ جاوٴ۔ چاہیے تھا کہ اتنی بڑی تہمت پر تم تعجب کرتے اور پروردگار کو باد کرتے اور ایسی تہمت کی کی تشہیر کی آلودگی سے خدا کی پناہ چاہتے ۔ مگر افسوس کہ تم بڑی سادگی کے ساتھ اس کے قریب سے گزر گئے اور بغیر سوچے سمجھے پراپیگنڈاباز منافقین کے آلہٴ کار بن گئے ۔
تہمت بازی کے گناہ کی اہمیت، اس کے اسباب اس کے سدّباب کے طریقے کے بارے میں اور اسی طرح دیگر موضوعات پر ہم انشاء الله آئندہ آیات کے ذیل میں بات کریں گے ۔
1۔ تفسیر روح المعانی میں یہ معنی کتاب ”صحاح“ کے حوالے سے لکھا گیا ہے ۔
2۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے اور تقدیر یوں تھی:
”ظن الموٴمنون والموٴمنات بانفس بعضھم خیراً“۔
”مومن مرد اور عورتیں اپنے بعض افراد کے بارے میں اچھا گمان کرے“۔
سوره نور / آیه 17 - 20شان نزول کے بارے میں تحقیق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma