مندرجہ بالا آیات کے لئے دو شان نزول نقل ہوئی ہیں:

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
شان نزول کے بارے میں تحقیقسوره نور / آیه 11 - 16
پہلی شان نزول جو زیادہ مشہور ہے اہلِ سنت کی کتب تفاسیر میں نقل ہوئی، شیعہ تفاسیر میں بالواسطہ طور پر شانِ نزول نقل ہوئی ہے، یہ شان نزول زوجہٴ رسول عائشہ سے منقول ہے وہ کہتی ہیں:
رسول الله جب کسی سفر پر جانے لگتے تو اپنی ازواج کے لئے قرعہ ڈالتے قرعہ جس کے نام نکلتا اُسے اپنے ساتھ لے جاتے، ایک جنگ(1)کے موقع پر قرعہ میرے نام نکلا، میں رسول کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئی، اس وقت پردے کی آیت نازل ہوچکی تھی، اس لئے میں ایک محمل میں سوار تھی، جنگ ختم ہوئی اور ہم واپس چل پڑے، مدینے کے قریب پہنچے تو رات ہوگئی، میں رفع حاجت کے لئے لشکرگاہ سے کچھ دور چلی گئی، جب واپس آئی تو نظر پڑی کہ یمنی منکوں والا میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گرگیا ہے، میں اسے ڈھونڈنے نکل گئی اور مجھے دیر ہوگئی، واپس آئی تو میں نے دیکھا کہ لشکر چلا گیا ہے، وہ میرا محمل بھی اونٹ پر رکھ کر لے گئے، ان کا خیال تھا کہ میں اس میں موجود ہوں کیونکہ ان دنوں غذا کی کمی کے باعث عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں علاوہ ازیں میری عمر بھی کم تھی، بہرحال میں وہاں تن تنہا رہ گئی میں نے سوچا کہ جب گھر پہنچیں گے اور مجھے نہیں پائیں گے تو میری تلاش میں نکلیں گے، رات میں نے اس بیابان میں بسر کی، اتفاق کی بات ہے کہ لشکر اسلام کا ایک فرد ”صفوان“ بھی لشکرگاہ سے دور رہ گیا تھا ، وہ بھی رات اسی بیابان میں تھا، دن چڑھا تو دور سے اس نے مجھے دیکھا تو قریب آیا، اُس نے مجھے پہچان لیا اس نے ”انّا لله وانّا الیہ راجعون“ کہا۔ اس نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہ کہا ، اس نے اپنا اونٹ بھٹایا اور میں اس پر سوار ہوگئی، اس نے ناقہ کی مہار پکڑلی اور چلتا رہا یہاں تک کہ ہم لشکرگاہ میں پہنچ گئے ۔
یہ منظر دیکھا تو کچھ لوگ میرے بارے میں پراپیگنڈا کرنے لگے اور اپنے آپ کو (عذاب الٰہی میں گرفتار کرکے) ہلاکت میں ڈالنے لگے، اس تہمت طرازی میں عبدالله بن ابی سلول نے سب سے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔
ہم مدینہ میں پہنچے اور یہ پراپیگنڈا پورے مدینہ میں پھیل گیا جبکہ اس کی کوئی خبر نہ تھی۔
اس دوران میں میں بیمار ہوگئی، رسول الله مجھے دیکھنے کے لئے تو آئے لیکن مجھے وہ پہلے سی مہربانی دکھائی نہ دیتی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ معاملہ کیا ہے، میری صحت اچھی ہوگئی، باہر نکلی تو رفتہ رفتہ مجھے اپنی قریب کے عورتوں سے منافقین کے پراپیگنڈے کا پتہ چلا تو میں سخت بیمار ہوگئی۔
رسول الله مجھے دیکھنے کے لئے آئے تو میں نے آپ سے اپنے باپ کے گھر جانے کی اجازت چاہی۔
جب میں اپنے باپ کے گھر آئی تو میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ لوگ کیا کہتے ہیں، انھوں نے کہا: غم نہ کرو، جن عورتوں کو امتیاز حاصل ہے اور دوسرے ان سے حسد کرتے ہیں، ان کے بارے میں بہت کچھ باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔
اس موقع پر رسول الله نے علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام اور اسامہ بن زید  سے مشورہ کیا کہ ان باتوں کے بارے میں میں کیا کروں ۔
اسامہۻ نے کہا: یا رسول الله! وہ آپ کی زوجہ ہیں، ہم نے اُن سے بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا (لہٰذا لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کریں) ۔
لیکن علیعلیہ السلام نے کہا: الله نے آپ پر کوئی سختی نہیں کی، ان کے علاوہ بھی بیویاں ہیں، آپ ان کی کنیز سے اس کے بارے میں تحقیق کرلیجئے ۔
رسول الله نے میری کنیز کو بلایا اور اس سے پوچھا: کیا تونے عائشہ کے بارے میں کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جو شک وشبہ پیدا کرے، کنیز نے کہا: اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں نے ان سے کوئی غلط کام نہیں دیکھا۔
اس وقت رسول الله نے ارادہ کیا کہ یہ باتیں لوگوں کے سامنے پیش کریں، آپ منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا:
اے مسلمانو! اگر کوئی شخص (آپ کا اشارہ عبدالله بن ابی سلول کی طرف تھا) مجھے میری اس بیوی کے معاملے میں رنج پہنچائے جس سے میں نے پاکیزگی کے سوا کچھ نہیں دیکھا تو اگر میں اسے سزا دوں تو مجھے معذور سمجھنا اور اگر کسی ایسے شخص پر تہمت لگائی جائے کہ جس سے میں نے ہرگز کوئی برائی نہیں دیکھی تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟
سعد بن معاذ انصاری کھڑے ہوگئے، انھوں نے عرض کی: آپ حق رکھتے ہیں، اگر وہ شخص شخص قبیلہ اوس سے ہوا تو اس کی گردن اڑادوں گا (سعد بن معاذقبیلہٴ اوس کے سردار تھے) اور اس کا تعلق قبیلہٴ خزرج کے ہمارے بھائیوں سے ہے تو آپ حکم دیجئے تاکہ ہم اس پر عمل کریں ۔
سعد بن عبادہ قبیلہٴ خزرج کے سردار تھے وہ ایک صالح شخص تھے لیکن اس موقع پر انھیں قوی تعصّب نے آگھیرا (عبد الله بن ابی سلول جس نے یہ جھوٹا پراپیگنڈا کیا تھا اس کا تعلق قبیلہٴ خزرج سے تھا) سعد بن عباد نے سعد بن معاذ کی طرف رخ کیا اور کہا: تو جھوٹ کہتا ہے، اگر وہ ہمارے قبیلے سے ہوا تو ایسے شخص کو قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
اسید بن خضیر سعد بن معاذ کا چچازاد تھا، اس نے سعد بن عبادہ کی طرف رخ کیا اور کہا: تو غلط کہتا ہے والله ہم ایسے شخص کو قتل کرکے رہیں گے، تو منافق ہے اور منافقوں کی حمایت کرتا ہے ۔
کوئی کسر نہ رہ گئی تھی کہ اوس وخزرج باہم دست وگریبان ہوجائیں اور ان کے درمیان جنگ چھڑ جائے جبکہ رسول الله منبر پر بیٹھے تھے، آخرکار آنحضرت نے انھیں خاموش کیا۔
معاملہ اسی طرح رہا، میں بہت غمزدہ تھی، ایک مہینہ گزرگیا کہ رسول الله میرے پاس نہ بیٹھے تھے ۔
میں جانتی تھی کہ میرا دامن پاک ہے اور آخرکار الله اس بات کو واضح کردے گا۔
بالآخر ایک روز رسول الله میرے پاس آئے، آپ بہت خوش تھے، آپ نے آتے ہی یہ فرمایا: تجھے خوش خبری ہو کہ الله نے تجھے اس الزام سے بری قرار دیا ہے ۔
ا س موقع پر <إِنَّ الَّذِینَ جَائُوا بِالْإِفْک....کی تمام آیات نازل ہوئیں اور ان آیات کے نزول کے بعد ان سب افراد پر حدّقذف جاری گئی جنھوں نے یہ جھوٹ پھیلایا تھا (۲) ۔
ایک اور شان نزول جو پہلی شان نزول کے ساتھ بعض کتب میں مذکور ہے، کچھ اس طرح ہے:
رسول الله کی زوجہ عائشہ نے آپ کی زوجہ ماریہ قبطیہ پر تہمت لگائی کیونکہ ماریہ کا رسول الله سے ایک بیٹا تھا، ابراہیم ان کا نام تھا، وہ دنیا سے چل بسے تو رسول الله شدید غمگین ہوئے ۔
عائشہ نے کہا: آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں، وہ تو در حقیقت آپ کا بیٹا ہی نہ تھا وہ تو جریح قطبی کا بیٹا تھا۔
آنحضرت نے یہ بات سنی تو حضرت علی علیہ السلام کو جریح کے قتل پر مامور کیا کہ جو اس قسم کے جرم کا مرتکب ہوا تھا۔
جب علی علیہ السلام برہنہ شمشیر لئے جریح کی تلاش میں نکلے تو اس کی آپ پر نظر پڑی، اس نے علی علیہ السلام کے چہرے پر آثار غضب دیکھے تو بھاگ کھڑا ہوا اور کھجور کے درخت پر چڑھ گیا۔
جب اس نے محسوس کیا کہ ہوسکتا ہے علی علیہ السلام اس تک آپہنچیں گے تو اس نے درخت سے چھلانگ لگادی، اس اثنا میں اس کا لباس اوپر ہوگیا تو معلوم ہوا کہ اس کا آلہٴ تناسل بالکل ہی نہیں ۔
علیعلیہ السلام ، رسول الله کی خدمت میں واپس آئے اور عرض کی: آپ کے حکم پر قطعی طور پر عمل کروں یا تحقیق کروں؟
رسول الله نے فرمایا: تحقیق کرو ۔
اس پر علی علیہ السلام نے وہ واقعہ رسول الله کی خدمت میں عرض کیا۔ اس پر پیغمبر خدا الله کا شکر بجالائے اور فرمایا: اس الله کا شکر ہے جس نے بدی اور آلودگی کو ہمارے دامن سے دور رکھا۔
اس موقع پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کیا (۳) ۔
1۔ جنگ بنی المصطلق، پانچ ہجری ۔
۲ ۔ جو کچھ سطور بالا میں ذکر کیا ہے یہی روایت تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اکثر کتب تفاسیر میں موجود ہے، ہم نے اسے کچھ اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔
۳۔ تفسیر المیزان، نور الثقلین اور صافی، تلخیص کے ساتھ .
شان نزول کے بارے میں تحقیقسوره نور / آیه 11 - 16
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma