کامیاب اور ناکام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سورہٴ نور کی فضیلت اور مضامینسوره مؤمنون / آیه 117 - 118
گذشتہ آیتوں میں مفاد اور صفات الٰہی کے بارے میں گفتگو تھی ۔
اب زیرِ بحث پہلی آیت میں توحید اورہر قسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے اور مبداٴ ومعاد کا ذکر کرکے جاری بحث کو مکمل کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: جو شخص خدا کے ساتھ کی دوسرے کو معبود کے طور پر پکارتا ہے، یقیناً اس کے پاس اپنے اس دعوے پر کوئی دلیل نہیں ہے، اس کا حساب اس کے پروردگار کے پاس ہے (وَمَنْ یَدْعُ مَعَ اللهِ إِلَھًا آخَرَ لَابُرْھَانَ لَہُ بِہِ فَإِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہِ)(۱) ۔
جی ہاں! مشرکین کا گذارہ صرف دعوے پر ہے، بڑوں کی اندھی تقلید یا ایسی ہی فضول وبے بنیاد باتیں اُن کا سہارا ہیں، ان واضح دلائل کے باوجود وہ معاد کا انکار کرتے ہیں، لیکن شرک کو باوجود کوئی دلیل نہ ہونے کے قبول کئے ہوئے ہیں، یقیناً خداوندعالم ایسے لوگوں سے حساب ضرور لے گا کہ جنھوںنے حکم خدا کو ٹھکرا دیا ہے اور جان بوجھ کر شرک کی بھول بھلیوں میں سرگرداں ہیں ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: کافر لوگ کامیاب نہیں ہوں گے اور کا انجام اس خدائی حساب پر ہی واضح ہوجائے گا (إِنَّہُ لَایُفْلِحُ الْکَافِرُونَ) ۔
کیا عمدہ ہے کہ اس سورت کا آغاز ”قَدْ اٴَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ“ سے ہوا ہے او ر اس کی بحث ”لَایُفْلِحُ الْکَافِرُونَ“ پر ختم ہورہی ہے اور یہ ہے مومنین اور کافرین کی زندگی کی اول تا آخر منظر کشی ۔
اس سورہٴ شریفہ کی آخری آیت میں روئے سخن پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف کرتے ہوئے ایک عمومی نتیجہ کے طور پر ارشاد ہوتا ہے کہ کہہ دے: پروردگارا! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم کر اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے (وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاٴَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِینَ) ۔
اب جبکہ ایک گروہ شرک کی بے راہ روی میں سرگرداں ہے اور ایک جماعت ظلم وستم میں گرفتار ہے تو اپنے آپ کو الله کے سپرد کردے، اپنے تئیں اس کے لطف وکرم کی پناہ میں دے دے اور اس سے بخشش طلب کر۔
یقینی بات ہے کہ خطاب اگرچہ پیغمبر اکرم سے ہے، مگر یہ حکم مومنین کے لئے ہیں ۔
ایک روایت میں ہے: اس سورت کی ابتداء اور انتہا عرش الٰہی کے خزانوں میں سے ہے، جو شخص اس کی ابتدائی تین آیتوں پر عمل کرے گا اور آخری چار آیتوں سے نصیحت حاصل کرے گا وہ اہلِ نجات وفلاح میں سے ہوگا (۲) ۔
بعید نہیں کہ پہلی تینوں آیتوں سے مراد ”قَدْ اٴَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ“ کے بعد آنے والی آیات ہوں کہ جن میں سے ایک نماز میں خشوع کی دعوت دیتی ہے، دوسری ہر قسم کے یہودہ کام سے پرہیز کی طرف بلاتی ہے اور تیسری ادائے زکوٰة پر ابھارتی ہے، ان میں سے ایک انسان کا خدا سے رابطہ قائم کرتی ہے، دوسری اسے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرتی ہے اور تیسری اس کا تعلق مخلوق سے استوار کرتی ہے، نیز ممکن ہے آخری چار آیتوں سے آیت ۱۱۵ کے بعد کی آیات مراد ہوں کہ جن میں کائنات کے فضول نہ ہونے کا ذکر ہے، معاد قیامت کا تذکرہ ہے، توحید کا ذکر ہے اور پھر انقطاع الی الله کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔
بارالٰہا! (ان مومنین کے صدقے کہ جن سے تونے اس سورہ میں کامیابی کا وعدہ کیا ہے کہ جن کے سرادار رسول الله اور ان کے اہل بیتعلیہ السلام ہیں ہمیں ان کی صف میں قرار دے اور فلاح کا نام ہمارے بھی لکھ دے ۔
خداوندا! ہم پر اپنی مغفرت ورحمت نازل فرما کہ تو ارحم الراحمین ہے ۔
پروردگارا! ہم سب کی عاقبت بخیر فرما اور ہر قسم کی لغزش وانحراف سے محفوظ رکھ ۔
1۔ بعض مفسرین ”یدع مع اللّٰہ“ جو شرط ہے ”فانّما حسابہ عند ربّہ“ کو اس کی جزاء سمجھتے ہیں اور ”لابرھان لہ بہ“ کو شرط وجزاء کے درمیان جملہ معترضہ قرار دیتے ہیں، لیکن بعض دیگر مفسرین ”لابرھان لہ بہ“ کو جزائے شرط سمجھتے ہیں ”فانّما حسابہ‘ ‘کو تفریع قرار دیتے ہیں، لیکن یہ احتمال عربی قواعد سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ ایسے مواقع پر جزاء پر ”فاء“ ہونا چاہیے یعنی ”لابرھان لہ“ ہونا چاہیے ۔ بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ یہ جملہ صفت یا حال ہے، لیکن پہلا احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اگرچہ معنی کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ۔
۲ ۔ تفسیر فخر الدین رازی، زیرِ بحث آیات کے ذیل میں۔
سورہٴ نور کی فضیلت اور مضامینسوره مؤمنون / آیه 117 - 118
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma