منکرین کی بہانہ سازیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ حق پرستی اور خواہشات پرستیسوره مؤمنون / آیه 68 - 74
گذشتہ آیات میں بتایا گیا تھا کہ کافر لوگ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے منھ موڑ لیتے تھے اور تکبر کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ زیرِ نظر آیات میں اس سلسلے میں ان کے حیلے بہانوں کا دنداں شکن جواب دیا گیا ہے، ضمناً ان کی اس روگردانی کے حقیقی اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔
پہلے فرمایا گیا ہے: کیا انھوں نے اس کلام (آیاتِ الٰہی) پر غور نہیں کیا (اٴَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ) ۔
جی ہاں! اُن کی بدبختی کا پہلا سبب یہ ہے کہ وہ تیری دعوت پر غور وفکر نہیں کرتے، کیونکہ اگر وہ غور وفکر کرتے تو ان کی مشکلات حل ہوجاتیں ۔
مزید فرمایا گیا ہے: یا کیا اُن کی طرف ایسی بات آئی ہے، جو ان کے آباء واداد کی طرف نہ آئی تھی (اٴَمْ جَائَھُمْ مَا لَمْ یَاٴْتِ آبَائَھُمَ الْاٴَوَّلِینَ) ۔
یعنی اگر توحید وقیامت پر ایمان کی دعوت اور ان کی نیکی وپاکیزگی اپنانے کی دعوت تیری طرف سے ہوتی تو ممکن تھا کہ وہ بہانہ نہ کرے کہ یہ تو نئی باتیں ہیں کہ جنھیں ہم قبول نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ دعوت اگر حق تھی تو الله نے گذشتہ لوگوں کی طرف کیوں نہ بھیجی جبکہ ان کی نگاہِ لطف تو سب انسانوں پر ہے ۔
لیکن تیری دعوت کے اصول اور بنیادیں بعینہ وہی ہیں جو تمام انبیاء کی دعوت تھیں، لہٰذا یہ تمام بہانہ سازیاں بے معنیٰ ہیں ۔
مزید فرمایا گیا ہے: یا کیا انھوں نے رسول کو پہچانا نہیں، اس لئے انکار کرتے ہیں (اٴَمْ لَمْ یَعْرِفُوا رَسُولَھُمْ فَھُمْ لَہُ مُنکِرُونَ) ۔
یعنی اگر یہ دعوت کسی مشکوک شخص کی طرف سے ہوتی تو ممکن تھا کہ وہ کہتے کہ باتیں تو اس کی حق ہیں، لیکن وہ خود اجنبی شخص ہے، لہٰذا اس کی ظاہری باتوں سے فریب نہیں کھایا جاسکتا، لیکن یہ تیرے ماضی کو خوب جانتے ہیں، ”امین“ کہہ کر پکارتے ہیں، تیری عقل ودانش اور امانت داری کے معترف ہیں، تیرے والدین اور خاندان کو اچھی طرح پہچانتے ہیں، لہٰذا ایسے بہانوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: یا کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ دیوانہ ہے (اٴَمْ یَقُولُونَ بِہِ جِنَّةٌ) ۔
یعنی کیا ان کا کہنا ہے کہ اس ذات وشخصیت کو ہم اچھی طرح پہچانتے ہیں، وہ مشکوک شخصیت نہیں ہے، کیونکہ اس کے افکار ماحول سے ہم آہنگ اور خلاف معمول ہیں اور یہ اس کی دیوانگی کی دلیل ہے ۔
قرآن فوراً اس بہانہ سازی کی نفی کے لئے کہتا ہے: ”رسول اُن کے لئے حق لے کر آیا ہے“ اور اس کی باتیں اس حقیقت پر شاہد ہیں (بَلْ جَائَھُمْ بِالْحَقِّ) ”حق انھیں ناگوار ہے“ (وَاٴَکْثَرُھُمْ لِلْحَقِّ کَارِھُونَ) ۔
جی ہاں! یہ کلام حکیمانہ ہے، البتہ ان لوگوں کو خواہشات ہوس آلود ہیں، اس لئے یہ کلام ان سے ہم آہنگ نہیں، لہٰذا یہ اسے جھٹلاتے ہیں اور اسے دیوانگی کی باتیں قرار دیتے ہیں ۔
حالانکہ حق لوگوں کے میلانات کے تابع نہیں ہوا کرتاکیونکہ ”اگر حق ان کی ہوا وہوس کی پیروی کرتا اور عالم ہستی ان کی خواہش کے مطابق گردش کرتا تو آسمان وزمین اور جوکچھ ان کے درمیان ہے، سب درہم وبرہم ہوجاتا (وَلَوْ اتَّبَعَ الْحَقُّ اٴَھْوَائَھُمْ لَفَسَدَتْ السَّمَاوَاتُ وَالْاٴَرْضُ وَمَنْ فِیھِنَّ ) ۔
کیونکہ لوگوںکی خواہشات معیار نہیں ہیں بلکہ اس سے قطع نظر بہت سے مواقع اور برائیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں اگر عالمِ ہستی کے قوانین ان کی خواہشات کے تابع ہوجائے تو نظامِ عالم تباہی وبربادی کا شکار ہوجاتا ۔
اس کے بعد مزید تاکید کے لئے فرمایا گیا ہے: بلکہ ہم نے انھیں قرآن دیا ہے کہ جو تذکر اور یاد دہانی ہے، الله کی طرف توجہ کا ذریعہ ہے اور ان کے لئے شرف وآبرو کا باعث ہے، لیکن انھوں نے اس سے روگردانی کرلی ہے (بَلْ اٴَتَیْنَاھُمْ بِذِکْرِھِمْ فَھُمْ عَنْ ذِکْرِھِمْ مُعْرِضُونَ )(1) ۔
اس سلسلہ کلام کے آخری مرحلہ میں فرمایا گیا ہے: کیا حق سے فرار وہ اس بہانے سے کرتے ہیں کہ تو ان سے کسی اجرت کا تقاضا کرتا ہے، جبکہ تیرے لئے بہتر ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے ( اٴَمْ تَسْاٴَلُھُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَھُوَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ)(2) ۔
اس میں شک نہیں کہ اگر ایک روحانی رہبر اپنی دعوت پر لوگوں سے مادی اُجرت کا تقاضا کرے تو اس سے بہانہ ساز لوگوں کے ہاتھ ایک بات آجاتی ہے اور ہوسکتا ہے وہ کہیں کہ ہم اس کا معاوضہ ادا نہیں کرسکتے، اس بناء پر اُس سے دور ہوجائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ الزام کریں کہ یہ مادی مفادات کے حصول کے لئے تبلیغ کرتا ہے ۔
بہرحال قرآن مجید ایک منھ بولتے بیان کے ذریعے واضح کرتا ہے کہ یہ دل کے اندھے حق کو قبول نہیں کرتے اور مخالفت کے لئے جو عذر وبہانے تراشتے ہیں، سب بے بنیاد ہیں ۔
مذکورہ بیان سے ایک مجموعی نتیجہ نکالتے ہوئے اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے: یقیناً تو انھیں صراط مستقیم کی دعوت دیتا ہے (وَإِنَّکَ لَتَدْعُوھُمْ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ) ۔
ایسی راہ مستقیم کہ جس کی نشانیاں نمایاں ہیں اور جو تھوڑے غور وفکر سے پہچانی جاتی ہے، ہم جانتے ہیں کہ دو لفظوں کے درمیان خط مستقیم ایک ایسا فاصلہ ہے کہ جو مختصر ترین ہوتا ہے اور یہ ایک خط سے زیادہ نہیں ، جبکہ ادھر اُدھر کے انحرافی راستے اور فاصلے بے شمار ہوتے ہیں ۔
بعض روایات کے مطابق ”صراط مستقیم“ سے مراد ولایتِ علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے(3).
البتہ ہم کہہ چکے ہیں کہ ایسی روایات میں آیات کے بعض واضح مصادیق کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے اس کے دیگر مصادیق ومفاہیم کی نفی ہوجاتی ہے، مثلاً قرآن، مبداء، معاد، ایمان، تقویٰ، جہاد اور عدل وغیرہ صراط مستقیم کا مصداق ہیں ۔
اگلی آیت میں اس کا فطری نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یقیناً وہ اس راستے سے منحرف ہیں (وَإِنَّ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنْ الصِّرَاطِ لَنَاکِبُونَ) ۔
”َناکب“ ”َنکب“ اور ”َنکوب“ کے مادہ سے راستے سے انحراف کے معنیٰ میں ہے ۔
واضح ہے کہ اس آیت میں ”صراط“ سے وہی مراد ہے کہ جو گذشتہ آیت میں ”صراط مستقیم“ سے ہے ۔
یہ بھی مسلّم ہے کہ جو شخص اس جہان میں صراط مستقیم سے منحرف ہوگا، وہ دوسرے جہان میں بھی راہِ جنّت سے بھٹک کر دوزخ کے گڑھے میں جاپڑے گا، کیونکہ وہاں جو کچھ بھی پیش آئے گا، وہ براہِ راست یہاں کے کاموں کا نتیجہ ہوگا ۔ آخرت پر عدمِ ایمان راہِ حق سے انحراف کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انسان جب تک قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس میں احساسِ ذمہ داری پیدا نہیں ہوتا ۔
ایک حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپعلیہ السلام نے فرمایا:
”انّ اللهجعلنا ابوابہ وصراطہ وسبیلہ والوجہ الذی یوٴتی منہ، فمن عدل عن ولایتنا اٴو فضل علینا غیرنا فانّھم عن الصراط لناکبون“.
”الله نے ہم ہادیان دین کو اپنی معرفت تک رسائی کے لئے دروازے، راستہ، سبیل اور جہت قرار دیا ہے، لہٰذا جو لوگ ہماری ولایت سے مرحوم ہوجائیں یا کسی دوسرے کو ہم پرفضیلت دے کر چن لیں تو وہ صراط حق سے بھٹکے ہوئے ہیں (4) ۔
1۔ ”ذکرھم“کا مفہوم ان کی بیداری اور یاد دہانی بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تعبیر معاشرے میں ان کی عزت وشرف اور یاد کے معنی میں ہو، البتہ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے اور ہم نے آیت کی تفسیر میں دونوں معانی سے استفادہ کیا ہے ۔
2 ۔ ”خرج“ ”خراج“ ”خروج“کے مادہ سے ہے اور اس کا معنیٰ ہے، ایسی چیز جو انسان کے مال یا زرعی زمین سے خارج ہو، لیکن ”خرج“ ”خراج“کی نسبت وسیع تر معنیٰ کا حامل ہے، جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے: ”اس کا اُلٹ“ ”دخل“ ہے لیکن عام طور پر ”خراج“وہ مالیاں یا کرائے کا مال ہے کہ جو زمین کے لئے معیّن ہوتا ہے ۔
3۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۴۸.
4 ۔ تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵۴۹، بحوالہٴ اصولِ کافی.
۱۔ حق پرستی اور خواہشات پرستیسوره مؤمنون / آیه 68 - 74
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma