مختصر جواب:
مفصل جواب:
یہ بات بھی کتنی تعجب خیز ہے کہ خلیفہ دو م جو اپنے عمال کے ساتھ اتنی سخت گیری کرتا تھا اس نے معاویہ کی فاحش غلطی سے چشم پوشی کرلی اوران سب باتوں کو دیکھتے ہوئے کہ معاویہ نے بادشاہت قائم کرلی اور حکومت اسلامی کے خلاف اتنے بڑے شام کے علاقہ میں فتنہ وفساد برپا کررکھا ہے کبھی بھی اس کی اصلا ح کے لئے ایک لفظ بھی بیان نہیں کیا! یہ کتنے تعجب کی بات ہے ۔
عمر اپنے عمال اور والیوں سے حساب لینے میں اتنا سخت تھا کہ خالدبن ولید جس کوخداکی شمشیرکا لقب دیا گیا تھا بیت المال میں دست دراز ی کے جرم میں عزل کردیا تھا(١) ۔
محمدبن مسلمہ انصاری کو عمروبن عاص جوکہ مصر کا گورنر تھا، کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس سے حساب و کتاب کرے اورمخالفت کی صورت میں اس کے سارے اموال کو مصادرہ کرلے، مصر میں خلیفہ کے نمائندہ نے کھانے کو ہاتھ لگائے بغیر اس کے آدھے مال کو مصادرہ کرلیا اور مدینہ لے کر چلا آیا(٢) ۔
اور جب ابوہریرہ نے مسلمین کے بیت المال سے نامشروع طریقہ سے خیانت کی تو اس کے جمع کئے ہوئے مال کو بیت المال میں واپس کردیا اور اس کی پشت پر کوڑے برسائے اور غصہ میں اس سے کہا : تیری ماں امیمہ نے تجھے صرف خرچ کرنے کے لئے پیدا کیاہے(٣) ۔
عمر کی سیرت ورفتار یہ تھی کہ ہمیشہ اپنے عمال اور والیوں کے تمام مال کو دیکھتا تھا اور اگر کسی کو عزل کرتا تھا تو اس کا سارا مال مصادرہ کرلیتا تھا(٤) ۔
لیکن ان سب سختیوں کے باوجود نہیں معلوم کہ معاویہ کے طرز رفتار میں کیا راز پوشیدہ تھا کہ اس کی خیانتوں اور بدعتوں کے مقابلے میں عمر نے کبھی کچھ نہیں کہا؟
جب کہ اس زمانے میں معاویہ کو عزل کرنے اوراس کی جگہ دوسرے آدمی کو منصوب کرنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ اس قدر اہتمام کرتا تھاجس سے تمام تحقیق کرنے والوں کو حیرت اور تعجب ہے ۔
معاویہ کا دین کے خلاف کام کرنا عمرسے پوشیدہ نہیں تھا وہ خود جب معاویہ کو دیکھتاتھاتو کہتا تھا: وہ عرب کا بادشاہ ہے(٥)لیکن عملی طور پر حکومت اسلامی کو ترک کرنے اور بادشاہی نظام کو قائم کرنے میں آزاد چھوڑ رکھا تھا اور موجودہ شام، فلسطین، اردن اور لبنان جیسی بڑی حکومت اس کو سونپ رکھی تھی اور اس کو مسلمانوں کی ناموس اور مال پر مسلط کررکھا تھا ۔
جس وقت عمر نے دمشق کی سرزمین پر قدم رکھا تو معاویہ کو صدہا لشکروں اور محافظوں کے درمیان پایا لیکن اس سے صرف ایک سوال کیا اور کوئی دوسری مخالفت اس نے ظاہر نہیں کی(٦) ۔
یہاںتک کہ جب اس نے سنا کہ معاویہ نے اپنے آپ کو عرب کا پہلا بادشاہ قراردیا ہے تو ذرا سی بھی حساسیت کااظہار نہیں کیا اور جب اس نے ابوسفیان سے پیسوں کا بھرا ہوا صندوق حاصل کیا تو اگر چہ وہ جانتاتھا کہ یہ پیسہ اس کے بیٹے معاویہ نے مسلمین کے بیت المال سے اپنے باپ کودیا ہے لیکن اس آشکار خیانت سے عمر کو کوئی تعجب نہیں ہوا(٧) ۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابن ابی الحدید، نہج البلاغہ کی شرح میں نقل کرتا ہے کہ عمر مرتے وقت بہت شدید درد میں مبتلا تھا اور چھے آدمیوں کی کمیٹی سے کہہ رہا تھا:
میرے بعد اختلاف نہ کرنا اور تفرقہ سے پرہیز کرنا کیونکہ اگر تم آپس میں لڑوگے تو معاویہ میدان میں آجائے گا اور تم سے خلافت کو چھین لے گا(٨) ۔
واقعا خلیفہ نے معاویہ کو اتنا موقع کیوں دیاکہ وہ بنی امیہ کی اولاد کو شام میں آزاد چھوڑدے اور پھر اس کی طاقت سے اہل شوری کو ڈرا ئے؟!۔
کیا خلیفہ کا مقصد یہ تھا کہ بنی امیہ کو شام میں طاقت ور کرکے بنی ہاشم کو رام کرے؟ اور اگربنی ہاشم کی طرف سے ہرطرح کی تحریک ظاہر ہو تو ان کو اسلام کے دیرینہ دشمن یعنی بنی امیہ کا سامنا کرنا پڑے؟!
جی ہاں! ممکن ہے کہ ان سب مماشات کا اصلی راز اسی نکتہ میں پوشیدہ ہو!
حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ نے شام میں بنی امیہ کو حکومت پر بٹھا کو اپنے آپ کو بنی ہاشم کے احتمالی حملوں اور قیام سے محفوظ کرلیا تھا اور بنی امیہ کی اولاد کو بنی ہاشم کی ناراضگی کے طوفان کے سامنے کھڑا کردیا تھا ، اسی وجہ سے ان کو یہ موقع دے رہا تھا کہ وہ استبدادی اورظلم کی حکومت کو اس جگہ پر قائم کرسکیں، ایسی حکومت جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیٹے سید الشہداء ابوعبداللہ الحسین علیہ السلام) کے خون کو کربلا میں ناحق بہایا اور اسلام میں ایسے ظلم انجام دئیے جو کبھی بھی تاریخ کے صفحہ سے ختم نہیں ہوسکتے ۔
یہ باتیں عثمان کے زمانے میں جو خود بنی امیہ سے تھا بہت جلد پھیلیں(اس کی تفصیل آئندہ فصل میں بیان کریں گے) ۔
یہاں پر اس کلام کی گہرائی اور حقیقت وضاحت ہوجاتی ہے کہ ""قتل الحسین یوم السقیفہ"" امام حسین، سقیفہ کے روزہی شہید ہوگئے تھے ۔
مرحوم محقق اصفہانی نے دوجامع اور پرمعنوں دو بیتوں میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے :
وما رماہ اذ رماہ حرملة و انما رماہ من مھدہ لہ
سھم اتی من جانب السقیفة وقوسہ علی یدی خلیفة
جس وقت حرملہ تیر چلا رہاتھا(اور علی اصغر کے گلے کا نشانہ لگا رہاتھا)تووہ حرملہ تیر نہیں چلا رہا تھا بلکہ وہ شخص تیر چلا رہا تھا جس نے حرملہ کیلئے یہ موقع فراہم کیا تھا! یہ وہ تیر تھا جو سقیفہ کی طرف سے چلا تھا اور اس کی کمان خلیفہ کے ہاتھ میں تھی(٩) ۔(١٠) ۔
عمر اپنے عمال اور والیوں سے حساب لینے میں اتنا سخت تھا کہ خالدبن ولید جس کوخداکی شمشیرکا لقب دیا گیا تھا بیت المال میں دست دراز ی کے جرم میں عزل کردیا تھا(١) ۔
محمدبن مسلمہ انصاری کو عمروبن عاص جوکہ مصر کا گورنر تھا، کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس سے حساب و کتاب کرے اورمخالفت کی صورت میں اس کے سارے اموال کو مصادرہ کرلے، مصر میں خلیفہ کے نمائندہ نے کھانے کو ہاتھ لگائے بغیر اس کے آدھے مال کو مصادرہ کرلیا اور مدینہ لے کر چلا آیا(٢) ۔
اور جب ابوہریرہ نے مسلمین کے بیت المال سے نامشروع طریقہ سے خیانت کی تو اس کے جمع کئے ہوئے مال کو بیت المال میں واپس کردیا اور اس کی پشت پر کوڑے برسائے اور غصہ میں اس سے کہا : تیری ماں امیمہ نے تجھے صرف خرچ کرنے کے لئے پیدا کیاہے(٣) ۔
عمر کی سیرت ورفتار یہ تھی کہ ہمیشہ اپنے عمال اور والیوں کے تمام مال کو دیکھتا تھا اور اگر کسی کو عزل کرتا تھا تو اس کا سارا مال مصادرہ کرلیتا تھا(٤) ۔
لیکن ان سب سختیوں کے باوجود نہیں معلوم کہ معاویہ کے طرز رفتار میں کیا راز پوشیدہ تھا کہ اس کی خیانتوں اور بدعتوں کے مقابلے میں عمر نے کبھی کچھ نہیں کہا؟
جب کہ اس زمانے میں معاویہ کو عزل کرنے اوراس کی جگہ دوسرے آدمی کو منصوب کرنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ اس قدر اہتمام کرتا تھاجس سے تمام تحقیق کرنے والوں کو حیرت اور تعجب ہے ۔
معاویہ کا دین کے خلاف کام کرنا عمرسے پوشیدہ نہیں تھا وہ خود جب معاویہ کو دیکھتاتھاتو کہتا تھا: وہ عرب کا بادشاہ ہے(٥)لیکن عملی طور پر حکومت اسلامی کو ترک کرنے اور بادشاہی نظام کو قائم کرنے میں آزاد چھوڑ رکھا تھا اور موجودہ شام، فلسطین، اردن اور لبنان جیسی بڑی حکومت اس کو سونپ رکھی تھی اور اس کو مسلمانوں کی ناموس اور مال پر مسلط کررکھا تھا ۔
جس وقت عمر نے دمشق کی سرزمین پر قدم رکھا تو معاویہ کو صدہا لشکروں اور محافظوں کے درمیان پایا لیکن اس سے صرف ایک سوال کیا اور کوئی دوسری مخالفت اس نے ظاہر نہیں کی(٦) ۔
یہاںتک کہ جب اس نے سنا کہ معاویہ نے اپنے آپ کو عرب کا پہلا بادشاہ قراردیا ہے تو ذرا سی بھی حساسیت کااظہار نہیں کیا اور جب اس نے ابوسفیان سے پیسوں کا بھرا ہوا صندوق حاصل کیا تو اگر چہ وہ جانتاتھا کہ یہ پیسہ اس کے بیٹے معاویہ نے مسلمین کے بیت المال سے اپنے باپ کودیا ہے لیکن اس آشکار خیانت سے عمر کو کوئی تعجب نہیں ہوا(٧) ۔
اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابن ابی الحدید، نہج البلاغہ کی شرح میں نقل کرتا ہے کہ عمر مرتے وقت بہت شدید درد میں مبتلا تھا اور چھے آدمیوں کی کمیٹی سے کہہ رہا تھا:
میرے بعد اختلاف نہ کرنا اور تفرقہ سے پرہیز کرنا کیونکہ اگر تم آپس میں لڑوگے تو معاویہ میدان میں آجائے گا اور تم سے خلافت کو چھین لے گا(٨) ۔
واقعا خلیفہ نے معاویہ کو اتنا موقع کیوں دیاکہ وہ بنی امیہ کی اولاد کو شام میں آزاد چھوڑدے اور پھر اس کی طاقت سے اہل شوری کو ڈرا ئے؟!۔
کیا خلیفہ کا مقصد یہ تھا کہ بنی امیہ کو شام میں طاقت ور کرکے بنی ہاشم کو رام کرے؟ اور اگربنی ہاشم کی طرف سے ہرطرح کی تحریک ظاہر ہو تو ان کو اسلام کے دیرینہ دشمن یعنی بنی امیہ کا سامنا کرنا پڑے؟!
جی ہاں! ممکن ہے کہ ان سب مماشات کا اصلی راز اسی نکتہ میں پوشیدہ ہو!
حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ نے شام میں بنی امیہ کو حکومت پر بٹھا کو اپنے آپ کو بنی ہاشم کے احتمالی حملوں اور قیام سے محفوظ کرلیا تھا اور بنی امیہ کی اولاد کو بنی ہاشم کی ناراضگی کے طوفان کے سامنے کھڑا کردیا تھا ، اسی وجہ سے ان کو یہ موقع دے رہا تھا کہ وہ استبدادی اورظلم کی حکومت کو اس جگہ پر قائم کرسکیں، ایسی حکومت جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیٹے سید الشہداء ابوعبداللہ الحسین علیہ السلام) کے خون کو کربلا میں ناحق بہایا اور اسلام میں ایسے ظلم انجام دئیے جو کبھی بھی تاریخ کے صفحہ سے ختم نہیں ہوسکتے ۔
یہ باتیں عثمان کے زمانے میں جو خود بنی امیہ سے تھا بہت جلد پھیلیں(اس کی تفصیل آئندہ فصل میں بیان کریں گے) ۔
یہاں پر اس کلام کی گہرائی اور حقیقت وضاحت ہوجاتی ہے کہ ""قتل الحسین یوم السقیفہ"" امام حسین، سقیفہ کے روزہی شہید ہوگئے تھے ۔
مرحوم محقق اصفہانی نے دوجامع اور پرمعنوں دو بیتوں میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے :
وما رماہ اذ رماہ حرملة و انما رماہ من مھدہ لہ
سھم اتی من جانب السقیفة وقوسہ علی یدی خلیفة
جس وقت حرملہ تیر چلا رہاتھا(اور علی اصغر کے گلے کا نشانہ لگا رہاتھا)تووہ حرملہ تیر نہیں چلا رہا تھا بلکہ وہ شخص تیر چلا رہا تھا جس نے حرملہ کیلئے یہ موقع فراہم کیا تھا! یہ وہ تیر تھا جو سقیفہ کی طرف سے چلا تھا اور اس کی کمان خلیفہ کے ہاتھ میں تھی(٩) ۔(١٠) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.