مختصر جواب:
مفصل جواب:
یہ واقعہ ٦٣ ہجری کے ذی الحجہ کے مہینہ میں رونما (١) اور واقعہ حرہ کے نام سے معروف ہوا (٢) ۔
کربلا کے خونی واقعہ کے بعد لوگ یزید کی خباثت اور بے دینی سے آگاہ ہوگئے لہذا انہوں نے اس کے خلاف قیام اور جہاد کرنے شروع کردیئے، عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ اور دوسرے صاحب نفوذ لوگوں نے مدینہ میں خونی انقلاب بر پاکرنے شروع کردئیے ۔
مدینہ کے لوگوں نے پہلے عبداللہ بن حنظلہ سے جان وموت کی بازی پر بیعت کی اور پھر عثمان بن محمدبن ابوسفیان والی مدینہ کو باہر نکالا ، بنی امیہ ، مروان بن حکم کے گھر میںجمع ہو گئے اور ان کو وہیں پر قید کردیا ۔
مدینہ کے لوگوں نے یزید کو خلافت سے خلع کرکے اس پر لعنت اور سب وستم کیا، یزید کو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو اس نے ایک عظیم لشکر تیار کیا اور اس کو مسلم بن عقبہ جیسے خونخوار کی کمانڈر ی میں مدینہ کی طرف روانہ کردیا (٣) ۔
اس خونخوار کمانڈر نے مدینہ کا محاصرہ کرنے کے بعد ان کے قیام کو ختم کردیا اور مدینہ کے لوگوں کا خون بہانا شروع کیا اور اس شہر میں بہت زیادہ لوگوں کو قتل کردیا ۔
ابن اثیر لکھتا ہے : مسلم بن عقبہ نے مدینہ کو تین دن تک اپنے لشکروالوں کے لئے مباح کردیا کہ جس طرح چاہو وہاں پر عمل کرو ، انہوں نے بہت زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا اوران کے اموال کو لوٹ لیا (٤) ۔
ابن قتیبہ لکھتا ہے: شام کا ایک سپاہی ایک عورت کے گھر میں داخل ہوا اس عورت کا ایک شیرخوار بچہ تھا، سپاہی نے اس سے مال ودولت کے بارے میں سوال کیا اس عورت نے کہا کہ میرے پاس جو کچھ مال ودولت تھا وہ تمہارے سپاہی لوٹ کر لے گئے ہیں ۔
یزید کے سنگدل سپاہی نے شیر خوار بچہ کو اس عورت کی گود سے چھین لیا اور اس کے سامنے اس بچہ کو اس طرح دیوار پر دے مارا کہ اس بچہ کا مغز باہر آگیا (٥) ۔
مسلم بن عقبہ جب مدینہ پر مسلط ہوگیا تو اس نے مدینہ کے لوگوں سے یزید کے غلام کے عنوان سے بیعت لی تاکہ ان کے مال اور ان کی اولاد یزیدکے اختیار میں رہیں اور وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے اوراگر وہ منع کریں تو ان کو قتل کردے (٦) ۔
اس واقعہ میں مہاجر وانصار سے سترہ سو افراد اور دوسرے مسلمانوں میں سے دس ہزار لوگ قتل ہوئے (٧) ۔
ابن ابی الحدید لکھتا ہے : شام کے لشکر والوں نے مدینہ کے لوگوں کے اس طرح سر کاٹے جس طرح قصاب ، بھیڑ بکری کا سر کاٹتا ہے ، اس طرح خون بہایا کہ اس میں قدم نہیں رکھا جاتا تھا، مہاجر وانصار کی اولاداور جنگ بدر کے مجاہدوں کو قتل کردیا اورجو ان میں سے باقی رہ گئے تھے ان کو یزید کے غلام کی حیثیت سے بیعت لی(٨) ۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ مسلم بن عقبہ نے اس قدر بے گناہ لوگوں کا خون بہایا کہ وہ مسرف(بہت زیادہ خون بہانے والے)کے نام سے مشہور ہوگیا (٩) ۔
اس واقعہ میں عورتوں کی بھی بے حرمتی ہوئی اور ان سب کے ساتھ زنا کیا گیا (١٠) ۔
یاقوت حمودی نے ""معجم البلدان "" میں لکھا ہے : اس واقعہ میں مسلم بن عقبہ نے عورتوں کو بھی اپنے فوجیوں کے لئے مباح کردیا تھا (١١) ۔
سیوطی (اہل سنت کا مشہور عالم)نقل کرتا ہے کہ حسن بصری نے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! اس واقعہ سے کسی کو بھی نجات نہیں ملی (یا قتل کردئیے گئے یا ان کی توہین کی گئی) اس واقعہ میں بہت زیادہ اصحاب اور دوسرے مسلمان قتل کردئیے گیے، مدینہ کو غارت کردیا اور ہزار لڑکیوں کے ساتھ زنا کیا!!
پھر وہ بہت ہی افسوس کے ساتھ کہتا ہے : اناللہ و انا الیہ راجعون ۔
پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے : جب کہ رسول خدا نے فرمایا تھا:
من اخاف اھل المدینة اخافہ اللہ و علیہ لعنة اللہ و الملائکة و الناس اجمعین ۔ جو کوئی بھی مدینہ کے لوگوں کو ڈرائے گا تو خدا ا س پر خشمناک ہو گا ، ایسے شخص پرخدا، ملائکہ اور دوسرے لوگوں کی لعنت ہو (١٢) ۔
٣۔ کعبہ میں آگ لگانا
یزید کا لشکر مدینہ کو غارت کرنے کے بعد عبداللہ بن زبیر سے جنگ کرنے کے لئے مکہ کی طرف چلا ، مسرف بن عقبہ راستے ہی میں ہلاک ہوگیا (١٣) ۔
اس نے مرتے وقت یزید کی سفارش کی بناء پر حصین بن نمیرکو لشکر کا کمانڈر بنادیا شام کے لشکر نے مکہ کا محاصرہ کرلیا اور ابن زبیر نے مسجد الحرام میں پناہ لے لی تھی اس پر حملہ کیا، انہوں نے منجنیق سے حرم خدا پر آگ برسائی جس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کے پردہ اور چھت میں آگ لگ گئی ۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ آتش سوزی تین ربیع الاول ٦٤ ہجری میں لگائی گئی ۔
مکہ کا محاصرہ اور عبداللہ بن زبیر اور اس کے ساتھیوں سے جنگ جاری تھی کہ یزید کے مرنے کی خبر شامیوں تک پہنچ گئی ، جس سے وہ متفرق ہو کر شام واپس چلے گئے (١٤) ۔
جی ہاں ، یزید نے اپنی کم مدت خلافت میں ہر سال کے شروع میں ایک بڑا ظلم انجام دیا اور مسلمانوں کی جان، مال او رناموس پر حملہ کیا اور ان سے سب سے بڑا ظلم یہ کہ ٦١ ہجری میں عاشور کے دن امام حسین اور ان کے اصحاب کو شہید کیا ۔
اس بحث کو (اہل سنت کے مشہور عالم)ذہبی کے جملہ پر ختم کرتے ہیں وہ یزید کے بارے میں لکھتا ہے:
کان ناصبیا، فظا، غلیظا، جلفا، یتناول المسکر ویفعل المنکر، افتح دولتہ بمقتل الشہید الحسین واختتمھا واقعة الحرة۔
یزیدناصبی(علی اور ان کے خاندان کا دشمن)،خشن، بری عادت والا اور بے ادب تھا ، شراب پیتا تھا اور منکرات کا مرتکب ہوتا تھا اس کی حکومت امام حسین کو شہید کرنے سے شروع ہوئی اور واقعہ حرہ پر ختم ہوئی(١٥)
ساری دنیا کے لعنت کرنے والوں کی اس پر لعنت ہو!
کربلا کے خونی واقعہ کے بعد لوگ یزید کی خباثت اور بے دینی سے آگاہ ہوگئے لہذا انہوں نے اس کے خلاف قیام اور جہاد کرنے شروع کردیئے، عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ اور دوسرے صاحب نفوذ لوگوں نے مدینہ میں خونی انقلاب بر پاکرنے شروع کردئیے ۔
مدینہ کے لوگوں نے پہلے عبداللہ بن حنظلہ سے جان وموت کی بازی پر بیعت کی اور پھر عثمان بن محمدبن ابوسفیان والی مدینہ کو باہر نکالا ، بنی امیہ ، مروان بن حکم کے گھر میںجمع ہو گئے اور ان کو وہیں پر قید کردیا ۔
مدینہ کے لوگوں نے یزید کو خلافت سے خلع کرکے اس پر لعنت اور سب وستم کیا، یزید کو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو اس نے ایک عظیم لشکر تیار کیا اور اس کو مسلم بن عقبہ جیسے خونخوار کی کمانڈر ی میں مدینہ کی طرف روانہ کردیا (٣) ۔
اس خونخوار کمانڈر نے مدینہ کا محاصرہ کرنے کے بعد ان کے قیام کو ختم کردیا اور مدینہ کے لوگوں کا خون بہانا شروع کیا اور اس شہر میں بہت زیادہ لوگوں کو قتل کردیا ۔
ابن اثیر لکھتا ہے : مسلم بن عقبہ نے مدینہ کو تین دن تک اپنے لشکروالوں کے لئے مباح کردیا کہ جس طرح چاہو وہاں پر عمل کرو ، انہوں نے بہت زیادہ لوگوں کا قتل عام کیا اوران کے اموال کو لوٹ لیا (٤) ۔
ابن قتیبہ لکھتا ہے: شام کا ایک سپاہی ایک عورت کے گھر میں داخل ہوا اس عورت کا ایک شیرخوار بچہ تھا، سپاہی نے اس سے مال ودولت کے بارے میں سوال کیا اس عورت نے کہا کہ میرے پاس جو کچھ مال ودولت تھا وہ تمہارے سپاہی لوٹ کر لے گئے ہیں ۔
یزید کے سنگدل سپاہی نے شیر خوار بچہ کو اس عورت کی گود سے چھین لیا اور اس کے سامنے اس بچہ کو اس طرح دیوار پر دے مارا کہ اس بچہ کا مغز باہر آگیا (٥) ۔
مسلم بن عقبہ جب مدینہ پر مسلط ہوگیا تو اس نے مدینہ کے لوگوں سے یزید کے غلام کے عنوان سے بیعت لی تاکہ ان کے مال اور ان کی اولاد یزیدکے اختیار میں رہیں اور وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے اوراگر وہ منع کریں تو ان کو قتل کردے (٦) ۔
اس واقعہ میں مہاجر وانصار سے سترہ سو افراد اور دوسرے مسلمانوں میں سے دس ہزار لوگ قتل ہوئے (٧) ۔
ابن ابی الحدید لکھتا ہے : شام کے لشکر والوں نے مدینہ کے لوگوں کے اس طرح سر کاٹے جس طرح قصاب ، بھیڑ بکری کا سر کاٹتا ہے ، اس طرح خون بہایا کہ اس میں قدم نہیں رکھا جاتا تھا، مہاجر وانصار کی اولاداور جنگ بدر کے مجاہدوں کو قتل کردیا اورجو ان میں سے باقی رہ گئے تھے ان کو یزید کے غلام کی حیثیت سے بیعت لی(٨) ۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ مسلم بن عقبہ نے اس قدر بے گناہ لوگوں کا خون بہایا کہ وہ مسرف(بہت زیادہ خون بہانے والے)کے نام سے مشہور ہوگیا (٩) ۔
اس واقعہ میں عورتوں کی بھی بے حرمتی ہوئی اور ان سب کے ساتھ زنا کیا گیا (١٠) ۔
یاقوت حمودی نے ""معجم البلدان "" میں لکھا ہے : اس واقعہ میں مسلم بن عقبہ نے عورتوں کو بھی اپنے فوجیوں کے لئے مباح کردیا تھا (١١) ۔
سیوطی (اہل سنت کا مشہور عالم)نقل کرتا ہے کہ حسن بصری نے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہا: خدا کی قسم! اس واقعہ سے کسی کو بھی نجات نہیں ملی (یا قتل کردئیے گئے یا ان کی توہین کی گئی) اس واقعہ میں بہت زیادہ اصحاب اور دوسرے مسلمان قتل کردئیے گیے، مدینہ کو غارت کردیا اور ہزار لڑکیوں کے ساتھ زنا کیا!!
پھر وہ بہت ہی افسوس کے ساتھ کہتا ہے : اناللہ و انا الیہ راجعون ۔
پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے : جب کہ رسول خدا نے فرمایا تھا:
من اخاف اھل المدینة اخافہ اللہ و علیہ لعنة اللہ و الملائکة و الناس اجمعین ۔ جو کوئی بھی مدینہ کے لوگوں کو ڈرائے گا تو خدا ا س پر خشمناک ہو گا ، ایسے شخص پرخدا، ملائکہ اور دوسرے لوگوں کی لعنت ہو (١٢) ۔
٣۔ کعبہ میں آگ لگانا
یزید کا لشکر مدینہ کو غارت کرنے کے بعد عبداللہ بن زبیر سے جنگ کرنے کے لئے مکہ کی طرف چلا ، مسرف بن عقبہ راستے ہی میں ہلاک ہوگیا (١٣) ۔
اس نے مرتے وقت یزید کی سفارش کی بناء پر حصین بن نمیرکو لشکر کا کمانڈر بنادیا شام کے لشکر نے مکہ کا محاصرہ کرلیا اور ابن زبیر نے مسجد الحرام میں پناہ لے لی تھی اس پر حملہ کیا، انہوں نے منجنیق سے حرم خدا پر آگ برسائی جس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کے پردہ اور چھت میں آگ لگ گئی ۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ آتش سوزی تین ربیع الاول ٦٤ ہجری میں لگائی گئی ۔
مکہ کا محاصرہ اور عبداللہ بن زبیر اور اس کے ساتھیوں سے جنگ جاری تھی کہ یزید کے مرنے کی خبر شامیوں تک پہنچ گئی ، جس سے وہ متفرق ہو کر شام واپس چلے گئے (١٤) ۔
جی ہاں ، یزید نے اپنی کم مدت خلافت میں ہر سال کے شروع میں ایک بڑا ظلم انجام دیا اور مسلمانوں کی جان، مال او رناموس پر حملہ کیا اور ان سے سب سے بڑا ظلم یہ کہ ٦١ ہجری میں عاشور کے دن امام حسین اور ان کے اصحاب کو شہید کیا ۔
اس بحث کو (اہل سنت کے مشہور عالم)ذہبی کے جملہ پر ختم کرتے ہیں وہ یزید کے بارے میں لکھتا ہے:
کان ناصبیا، فظا، غلیظا، جلفا، یتناول المسکر ویفعل المنکر، افتح دولتہ بمقتل الشہید الحسین واختتمھا واقعة الحرة۔
یزیدناصبی(علی اور ان کے خاندان کا دشمن)،خشن، بری عادت والا اور بے ادب تھا ، شراب پیتا تھا اور منکرات کا مرتکب ہوتا تھا اس کی حکومت امام حسین کو شہید کرنے سے شروع ہوئی اور واقعہ حرہ پر ختم ہوئی(١٥)
ساری دنیا کے لعنت کرنے والوں کی اس پر لعنت ہو!
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.