مختصر جواب:
مفصل جواب:
سقیفہ کا دوسرا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت الہی جس کو نص اور خدا ورسول کے ذ ریعہ معتبر سمجھا جاتا تھا وہ ایک عام بشری خلافت میں تبدیل ہوگئی اور وہ بھی اس طرح کہ اتنا اہم مسئلہ انصار اور ذرہ برابر قریش کے درمیان میں بغیر کسی بزرگ کے مشورے کے قومی تعصب کی بنیاد پر معین کردیا گیا ۔
معاشرتی نظام میں اگر کوئی اصل ( قانون)ٹوٹ جائے یا کوئی قانون کسی خاص قبیلہ کے حق میں بیان کردیا جائے تو پھر کوئی گارنٹی باقی نہیں رہ جاتی کہ دوسرے قانون نہیں ٹوٹیں گے ۔
اسی وجہ سے سقیفہ کے بعد خلیفہ کو منتخب کرنے کے لئے کسی معین قانون کی پیروی نہیں کی گئی، اتنا اہم مسئلہ جو پہلے انصار اور کچھ قریش کے درمیان مشاجرہ کے بعد معین کردیا گیا تھا کچھ دنوں بعد خلیفہ اول کی وصیت پر دوسرے کاانتخاب ہوگیا اور اس کے بعد چھے آدمیوں کی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسی ہرج ومرج اور خلیفہ کو معین کرنے کا کوئی خاص معیار نہ ہونے کی وجہ سے معاویہ کو بہانہ مل گیا کہ وہ اپنے بعد یزید کو خلافت کے لئے معین کردے ۔
اس نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح کہا:
اے لوگو! تم جانتے ہو کہ پیغمبر اکرم اس دنیا سے چلے گئے اور آپ نے اپنے بعد کسی کو جانشین نہیں بنایا، مسلمانوں نے خود ابوبکر کو منتخب کرلیا لیکن عمر نے اپنے مرتے وقت عمر کو خلافت کے لئے وصیت کردی، عمر نے بھی خلافت کے مسئلہ کو اپنے مرتے وقت چھے آدمیوں کی کمیٹی کے سپرد کردیا ۔
بس جیسا کہ ابوبکرنے خلیفہ کو معین کرنے کے لئے ایسا کام کیا جو پیغمبر نہیں کرسکے تھے، عمر نے بھی ایسا کام کیا جیسا ابوبکر نہیں کرسکا تھا یعنی ہرکسی نے مسلمانوں کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے کام کیا، آج میں بھی مصلحت دیکھ رہاہوں کہ یزید کے لئے لوگوں سے بیعت لوں تاکہ امت کے درمیان اختلاف نہ ہو سکے!(١) ۔
جی ہاں یہ وہ درخت تھا جو سقیفہ میں لگایا تھاکتنے تعجب کی بات ہے کہ یزید جیسا انسان ردائے خلافت کو اپنے کندھوں پر ڈالے!!(٢) ۔
معاشرتی نظام میں اگر کوئی اصل ( قانون)ٹوٹ جائے یا کوئی قانون کسی خاص قبیلہ کے حق میں بیان کردیا جائے تو پھر کوئی گارنٹی باقی نہیں رہ جاتی کہ دوسرے قانون نہیں ٹوٹیں گے ۔
اسی وجہ سے سقیفہ کے بعد خلیفہ کو منتخب کرنے کے لئے کسی معین قانون کی پیروی نہیں کی گئی، اتنا اہم مسئلہ جو پہلے انصار اور کچھ قریش کے درمیان مشاجرہ کے بعد معین کردیا گیا تھا کچھ دنوں بعد خلیفہ اول کی وصیت پر دوسرے کاانتخاب ہوگیا اور اس کے بعد چھے آدمیوں کی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسی ہرج ومرج اور خلیفہ کو معین کرنے کا کوئی خاص معیار نہ ہونے کی وجہ سے معاویہ کو بہانہ مل گیا کہ وہ اپنے بعد یزید کو خلافت کے لئے معین کردے ۔
اس نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح کہا:
اے لوگو! تم جانتے ہو کہ پیغمبر اکرم اس دنیا سے چلے گئے اور آپ نے اپنے بعد کسی کو جانشین نہیں بنایا، مسلمانوں نے خود ابوبکر کو منتخب کرلیا لیکن عمر نے اپنے مرتے وقت عمر کو خلافت کے لئے وصیت کردی، عمر نے بھی خلافت کے مسئلہ کو اپنے مرتے وقت چھے آدمیوں کی کمیٹی کے سپرد کردیا ۔
بس جیسا کہ ابوبکرنے خلیفہ کو معین کرنے کے لئے ایسا کام کیا جو پیغمبر نہیں کرسکے تھے، عمر نے بھی ایسا کام کیا جیسا ابوبکر نہیں کرسکا تھا یعنی ہرکسی نے مسلمانوں کی مصلحت کو دیکھتے ہوئے کام کیا، آج میں بھی مصلحت دیکھ رہاہوں کہ یزید کے لئے لوگوں سے بیعت لوں تاکہ امت کے درمیان اختلاف نہ ہو سکے!(١) ۔
جی ہاں یہ وہ درخت تھا جو سقیفہ میں لگایا تھاکتنے تعجب کی بات ہے کہ یزید جیسا انسان ردائے خلافت کو اپنے کندھوں پر ڈالے!!(٢) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.