مختصر جواب:
مفصل جواب:
امام حسین (علیہ السلام) نے قلم و کاغذ طلب کیا اور بزرگان کوفہ کوجن کے متعلق آپ جانتے تھے کہ وہ اپنی رائے پر ثابت قدم اور باقی ہیں ، ایک خط لکھا اور حقیقت میں یہ اس خط کے مخاطب ، کوفہ کے عام لوگ تھے ، خط کا مضمون اس طرح ہے :
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ، مِنَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِىٍّ إِلى سُلَیْمانِ بْنِ صُرَد، وَ الْمُسَیِّبِ بْنِ نَجْبَةَ، وَ رُفاعَةِ بْنِ شَدّاد، وَ عَبْدِاللهِ بْنِ وال، وَ جَماعَةِ الْمُؤْمِنِینَ، أَمّا بَعْدُ: فَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ(صلى الله علیه وآله) قَدْ قالَ فِی حَیاتِهِ: «مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِى عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ ثُمَّ لَمْ یُغَیِّرْ بِقَوْل وَ لا فِعْل، کانَ حَقیقاً عَلَى اللهِ أنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». وَ قَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ هؤُلاءِ الْقَوْمَ قَدْ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانِ، وَ تَوَلَّوْا عَنْ طاعَةِ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ أَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَهُ، وَ إِنِّی أَحَقُّ بِهذَا الاَمْرِ لِقَرابَتِی مِنْ رَسُولِ اللّهِ(صلى الله علیه وآله). وَ قَدْ أَتَتْنی کُتُبُکُمْ، وَ قَدْ قَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ بِبَیْعَتِکُمْ أَنَّکُمْ لا تُسَلِّمُونی وَ لا تَخْذُلُونی، فَاِنْ وَفَیْتُمْ لِی بِبَیْعَتِکُمْ فَقَدْ أَصَبْتُمْ حَظَّکُمْ وَ رُشْدَکُمْ، وَ نَفْسی مَعَ أَنْفُسِکُمْ، وَ أَهْلی وَ وَلَدی مَعَ أَهالِیکُمْ وَ أَوْلادِکُمْ، فَلَکُمْ بِى أُسْوَةٌ، وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ نَقَضْتُمْ عَهودَکُمْ، وَ خَلَّعْتُمْ بَیْعَتَکُمْ فَلَعَمْری ما هِىَ مِنْکُمْ بِنُکْر، لَقَدْ فَعَلْتُمُوها بِأَبی وَ أَخی وَابْنِ عَمِّی! وَالْمَغْرُورُ مَنِ اغْتَرَّ بِکُمْ، فَحَظُّکُمْ أَخْطَأْتُمْ، وَ نَصیبُکُمْ ضَیَّعْتُمْ (فَمَنْ نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَى نَفْسِهِ)(1) وَ سَیُغْنِى اللّهُ عَنْکُمْ، وَ السَّلامُ». ۔
اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے ۔
حسین بن علی (علیہما السلام کی طرف سے سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعة بن شداد ، عبداللہ بن وال اور تمام مومنین کے نام۔
اما بعد ۔ تم جانتے ہو کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا :
جو شخص بھی کسی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو خداوند عالم کے حلال کو حرام کر رہا ہوں اور خدا کے عہد و پیمان کو توڑ رہا ہو ، پیغمبر اکرم (ص) کی سنت کی مخالفت کررہا ہو اور اللہ کے بندوں کے درمیان ظلم و ستم سے کام لے رہا ہوں ،اس کے باوجود وہ شخص ایسے ظالم حاکم کے خلاف زبانی اور عملی سکوت اختیار کرے تو خداوند عالم کے لئے بہتر ہے کہ وہ ایسے شخص کو اسی ظالم حاکم کی جگہ پر جہنم میں داخل کردے ۔
تم جانتے ہو کہ یہ گروہ (بنی امیہ) شیطان کی اطاعت کا پابند ہوگیا اور خداوندعالم کی پیروی سے دور ہوگیا ہے اور فساد کو آشکار کردیا ہے ، حدود الہی کو بند کردیا ہے ، مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے آپ سے مخصوص کرلیا ہے اور حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کردیا ہے ، لہذا میں پیغمبر اکرم (ص) سے اپنی قرابت اور نزدیکی کی وجہ سے ان سے جنگ کرنا بہتر سمجھتا ہوں ۔
دوسری طرف تمہارے خطوط مجھے ملے ہیں ، تمہارے بھیجے ہوئے قاصد تمہاری بیعت کی خبر لے کر میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ تم نے میری بیعت کرلی ہے اور تم کبھی مجھے دشمن کے حوالہ نہیں کرو گے اور جنگ کے دوران مجھے تنہا نہیں چھوڑو گے اور میری طرف پشت نہیں کرو گے ۔ اب اگر تم نے اپنی بیعت پر پابند رہتے ہوئے ، رشد و کمال حاصل کرلیا ہے ، تو میں تمہارے ساتھ اور میرا خاندان تمہارے خاندان کے ساتھ رہے گا ، میں تمہارے لئے نمونہ عمل اور تمہارا رہبر رہوں گا اور اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے عہدو پیمان پر ثابت نہ رہے اور اپنی بیعت کو توڑا، تو خدا کی قسم تمہارا یہ عمل غیر معروف اور عجیب نہیں ہوگا ! کیونکہ تم نے میرے والد ، بھائی اور چچازاد بھائی (مسلم) کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے ۔ دھوکا کھانے والا وہ ہے جو تمہارا دھوکا کھائے ، پس (اس صورت میں) تم نے سعادت کو کھو دیا اور اپنے فائدہ کو برباد کردیا ""جو بھی عہد شکنی کرے اس نے صرف اپنا نقصان کیا ہے "" اور خداوند عالم بہت جلد مجھے تم سے بے نیاز کردے گا ۔ والسلام (2) ۔
امام علیہ السلام نے خط پر مہر لگا کر قیس بن مسھر صیداوی کو دیا تاکہ وہ کوفہ کے لوگوں تک یہ خط پہنچا دے اور جب امام کو قیس کے قتل ہونے کی خبرملی تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور آپ نے فرمایا :
.. «اللّهُمَّ اجْعَلْ لَنا لِشیعَتِنا عِنْدَکَ مَنْزِلا کَریماً، وَ اجْمَعْ بَیْنَنا وَ بَیْنَهُمْ فِی مُسْتَقَرّ مِنْ رَحْمَتِکَ إِنَّکَ عَلى کُلِّ شَىْء قَدیر»;
خداوندا ! اپنے نزدیک ہمارے لئے اور ہمارے شیعوں کے لئے بہترین جگہ قرار دے اور ہمیں ان کے ساتھ اپنے جوار رحمت میں قرار دے کیونکہ تو ہر کام پر قادر ہے (3) ۔
امام علیہ السلام) نے اس خط میں کوفہ کے عام لوگوں (خصوصا کوفہ کے بزرگ افراد) کو دعوت دے کر ایک بار پھر حجت تمام کردی ۔ اس کے علاوہ آپ نے شیطان کی فوج اور فساد، کفر اور طغیان کے ذمہ داروں کے خلاف قیام کرنے کے متعلق ان کی اہم ذمہ داری کو بھی واضح کردیا ، دوسری طرف اپنی حمایت میں ان کے عہد و پیمان اور بیعت کو بھی یاد دلادیا ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آپ نے اپنے قیام کو ان کے قیام سے مشروط نہیں کیا ہے اور آخری سانس تک جنگ کرنے کے اپنے عزم و جزم کوخدا وند عالم پر توکل کو بیان کیا ہے ۔
یہ خط ایک مرتبہ پھر امام حسین (علیہ السلام) کے مقدس کو اہداف کو واضح کرتا ہے ، ان اہداف میں نہ حکومت کی ہوس ہے اور نہ کسی عہدہ ومقام کی آروز، بلکہ ان ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ جنگ کرنے کو بیان کررہے ہیں جنہوں نے الہی اقداروں کو پایمال کردیا (4)۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ، مِنَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِىٍّ إِلى سُلَیْمانِ بْنِ صُرَد، وَ الْمُسَیِّبِ بْنِ نَجْبَةَ، وَ رُفاعَةِ بْنِ شَدّاد، وَ عَبْدِاللهِ بْنِ وال، وَ جَماعَةِ الْمُؤْمِنِینَ، أَمّا بَعْدُ: فَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ(صلى الله علیه وآله) قَدْ قالَ فِی حَیاتِهِ: «مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِى عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ ثُمَّ لَمْ یُغَیِّرْ بِقَوْل وَ لا فِعْل، کانَ حَقیقاً عَلَى اللهِ أنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». وَ قَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ هؤُلاءِ الْقَوْمَ قَدْ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانِ، وَ تَوَلَّوْا عَنْ طاعَةِ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ أَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَهُ، وَ إِنِّی أَحَقُّ بِهذَا الاَمْرِ لِقَرابَتِی مِنْ رَسُولِ اللّهِ(صلى الله علیه وآله). وَ قَدْ أَتَتْنی کُتُبُکُمْ، وَ قَدْ قَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ بِبَیْعَتِکُمْ أَنَّکُمْ لا تُسَلِّمُونی وَ لا تَخْذُلُونی، فَاِنْ وَفَیْتُمْ لِی بِبَیْعَتِکُمْ فَقَدْ أَصَبْتُمْ حَظَّکُمْ وَ رُشْدَکُمْ، وَ نَفْسی مَعَ أَنْفُسِکُمْ، وَ أَهْلی وَ وَلَدی مَعَ أَهالِیکُمْ وَ أَوْلادِکُمْ، فَلَکُمْ بِى أُسْوَةٌ، وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ نَقَضْتُمْ عَهودَکُمْ، وَ خَلَّعْتُمْ بَیْعَتَکُمْ فَلَعَمْری ما هِىَ مِنْکُمْ بِنُکْر، لَقَدْ فَعَلْتُمُوها بِأَبی وَ أَخی وَابْنِ عَمِّی! وَالْمَغْرُورُ مَنِ اغْتَرَّ بِکُمْ، فَحَظُّکُمْ أَخْطَأْتُمْ، وَ نَصیبُکُمْ ضَیَّعْتُمْ (فَمَنْ نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنْکُثُ عَلَى نَفْسِهِ)(1) وَ سَیُغْنِى اللّهُ عَنْکُمْ، وَ السَّلامُ». ۔
اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے ۔
حسین بن علی (علیہما السلام کی طرف سے سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعة بن شداد ، عبداللہ بن وال اور تمام مومنین کے نام۔
اما بعد ۔ تم جانتے ہو کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا :
جو شخص بھی کسی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو خداوند عالم کے حلال کو حرام کر رہا ہوں اور خدا کے عہد و پیمان کو توڑ رہا ہو ، پیغمبر اکرم (ص) کی سنت کی مخالفت کررہا ہو اور اللہ کے بندوں کے درمیان ظلم و ستم سے کام لے رہا ہوں ،اس کے باوجود وہ شخص ایسے ظالم حاکم کے خلاف زبانی اور عملی سکوت اختیار کرے تو خداوند عالم کے لئے بہتر ہے کہ وہ ایسے شخص کو اسی ظالم حاکم کی جگہ پر جہنم میں داخل کردے ۔
تم جانتے ہو کہ یہ گروہ (بنی امیہ) شیطان کی اطاعت کا پابند ہوگیا اور خداوندعالم کی پیروی سے دور ہوگیا ہے اور فساد کو آشکار کردیا ہے ، حدود الہی کو بند کردیا ہے ، مسلمانوں کے بیت المال کو اپنے آپ سے مخصوص کرلیا ہے اور حرام خدا کو حلال اور حلال خدا کو حرام کردیا ہے ، لہذا میں پیغمبر اکرم (ص) سے اپنی قرابت اور نزدیکی کی وجہ سے ان سے جنگ کرنا بہتر سمجھتا ہوں ۔
دوسری طرف تمہارے خطوط مجھے ملے ہیں ، تمہارے بھیجے ہوئے قاصد تمہاری بیعت کی خبر لے کر میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ تم نے میری بیعت کرلی ہے اور تم کبھی مجھے دشمن کے حوالہ نہیں کرو گے اور جنگ کے دوران مجھے تنہا نہیں چھوڑو گے اور میری طرف پشت نہیں کرو گے ۔ اب اگر تم نے اپنی بیعت پر پابند رہتے ہوئے ، رشد و کمال حاصل کرلیا ہے ، تو میں تمہارے ساتھ اور میرا خاندان تمہارے خاندان کے ساتھ رہے گا ، میں تمہارے لئے نمونہ عمل اور تمہارا رہبر رہوں گا اور اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے عہدو پیمان پر ثابت نہ رہے اور اپنی بیعت کو توڑا، تو خدا کی قسم تمہارا یہ عمل غیر معروف اور عجیب نہیں ہوگا ! کیونکہ تم نے میرے والد ، بھائی اور چچازاد بھائی (مسلم) کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے ۔ دھوکا کھانے والا وہ ہے جو تمہارا دھوکا کھائے ، پس (اس صورت میں) تم نے سعادت کو کھو دیا اور اپنے فائدہ کو برباد کردیا ""جو بھی عہد شکنی کرے اس نے صرف اپنا نقصان کیا ہے "" اور خداوند عالم بہت جلد مجھے تم سے بے نیاز کردے گا ۔ والسلام (2) ۔
امام علیہ السلام نے خط پر مہر لگا کر قیس بن مسھر صیداوی کو دیا تاکہ وہ کوفہ کے لوگوں تک یہ خط پہنچا دے اور جب امام کو قیس کے قتل ہونے کی خبرملی تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور آپ نے فرمایا :
.. «اللّهُمَّ اجْعَلْ لَنا لِشیعَتِنا عِنْدَکَ مَنْزِلا کَریماً، وَ اجْمَعْ بَیْنَنا وَ بَیْنَهُمْ فِی مُسْتَقَرّ مِنْ رَحْمَتِکَ إِنَّکَ عَلى کُلِّ شَىْء قَدیر»;
خداوندا ! اپنے نزدیک ہمارے لئے اور ہمارے شیعوں کے لئے بہترین جگہ قرار دے اور ہمیں ان کے ساتھ اپنے جوار رحمت میں قرار دے کیونکہ تو ہر کام پر قادر ہے (3) ۔
امام علیہ السلام) نے اس خط میں کوفہ کے عام لوگوں (خصوصا کوفہ کے بزرگ افراد) کو دعوت دے کر ایک بار پھر حجت تمام کردی ۔ اس کے علاوہ آپ نے شیطان کی فوج اور فساد، کفر اور طغیان کے ذمہ داروں کے خلاف قیام کرنے کے متعلق ان کی اہم ذمہ داری کو بھی واضح کردیا ، دوسری طرف اپنی حمایت میں ان کے عہد و پیمان اور بیعت کو بھی یاد دلادیا ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آپ نے اپنے قیام کو ان کے قیام سے مشروط نہیں کیا ہے اور آخری سانس تک جنگ کرنے کے اپنے عزم و جزم کوخدا وند عالم پر توکل کو بیان کیا ہے ۔
یہ خط ایک مرتبہ پھر امام حسین (علیہ السلام) کے مقدس کو اہداف کو واضح کرتا ہے ، ان اہداف میں نہ حکومت کی ہوس ہے اور نہ کسی عہدہ ومقام کی آروز، بلکہ ان ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ جنگ کرنے کو بیان کررہے ہیں جنہوں نے الہی اقداروں کو پایمال کردیا (4)۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.