مختصر جواب:
مفصل جواب:
یزید بے دینی اور فساد میں شہرہ آفاق تھا ، کربلا کا عظیم حادثہ اس کے حکم سے پیش آیا ، رسول خدا کے فرزند، فاطمہ زہرا کے جگر پارہ کو اسی نے قتل کیااور اس طرح اس نے بنی امیہ کی جنایت کار حکومت کو اس واقعہ کے ذریعہ پہلے سے زیادہ سیاہ اور تاریک کردیا ۔یہی یزید باربار رسول خدا اور بدر کے مقتولوں کا انتقام لینے کی باتیں کرتا ہے جس کے چند نمونے ہم یہاں پیش کرتے ہیں:
١۔ پہلا واقعہ اس جگہ سے مربوط ہے جب یزید اپنے محل میں ""جیرون""(١) کے اوپر بیٹھا ہوا تھا اور وہاں سے شہدا کے مقدس سروں اور اہل بیت کے اسیر قافلہ کو دیکھ رہا تھا اس وقت اس کو یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا گیا :
لما بدت تلک الحمول و اشرقت
تلک الشموس علی ربی جیرون
نعب الغراب فقلت صح او لا تصح
فلقد قضیت من الغریم دیونی
جس وقت وہ قافلہ ظاہر ہوا اورسورج (شہداء کے سر) جیرون کی بلندی پر چمکنے لگے تو اس وقت ایک کوّے نے فریاد کی ۔ میں نے کہا : تو فریاد کر یا نہ کر ، میں نے اپنے مقروضوں سے اپنا قرضہ وصول لیا ہے ! (٢) ۔
ان اشعار میں کنایہ کے طور پر وضاحت سے زیادہ روشن الفاظ میں اپنے اجداد کے خون کا انتقام لینے کو بیان کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنا قرض یعنی جاہلیت کے زمانے میں رسول اسلام سے اپنے خون کا بدلہ لے لیا ہے ۔
٢۔ دوسرواقعہ وہ ہے جب شہداء کربلا کے کے سروں کو یزید کی مجلس میں لایاگیا اور یزید لکڑی کو امام حسین کے لب اور دانتوں پر مار رہا تھا اور یہ اشعار پڑھ رہا تھا:
لعبت ھاشم بالملک فلا
خبر جاء ولا وحی نزل
لیت اشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الاسل
لاھلوا واستھلوا فرحا
ولقالوا یا یزید لاتشل
فجزیناہ ببدر مثلا
واقمنا مثل بدر فاعتدل
لست من خندف ان لم انتقم
من بنی احمد ما کان فعل(٣) ۔
بنی ہاشم کی اولاد(رسول خدا)نے حکومت کو بازیچہ بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ (خداوندعالم کی طرف سے ) نہ کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی !
جنگ بدر میں میرے خاندان سے جو بزرگ قتل ہوئے تھے کاش کہ وہ آج ہوتے اور دیکھتے کہ کس طرح قبیلہ خزرج نیزوں کی چوٹ سے نالہ وزاری کررہے ہیں !
اس وقت وہ خوشی سے چیختے اور کہتے : اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔
آج ہم نے بدر کے واقعہ کا انتقام لے لیا اور بدر کی طرح ان سے حساب و کتاب کرلیا اور اب ہم برابر ہوگئے ۔
میرا تعلق ""خندف""(٤) کی اولاد سے نہیں ہے جو میں احمد (رسول اکرم) کی اولاد سے انتقام نہ لوں (٥) ۔
اسی طرح نقل ہوا ہے کہ یزید اسی مجلس میں جب امام حسین علیہ السلام کے ہونٹوں اور دانتوں پر مارتے ہوئے کہہ رہا تھا: یوم بیوم بدر۔ آج کا دن بدر کے دن کے مقابلے میں ہے(٦) ۔
ان عبارتوں سے واضح طور پر یزید کا کفر اور اس کا اسلام کے اصولوں پر ایمان نہ رکھنا واضح ہوجاتا ہے،اس کا اصلی مقصد خاندان رسول سے انتقام لینا تھا وہ چاہا رہا تھا کہ اپنے خاندان کے ان مقتولوں کا انتقام لے جنہوں نے اسلام اور قرآن کے مقابلے میں علم مخالفت بلند کررکھا تھا اور مسلمانوں کے مقابلے میں لڑ کر ہلاک ہوگئے تھے ۔وہ ، اس کاباپ اور دادا کبھی بھی اسلام پر ایمان نہیںلائے تھے بلکہ اسلامی عظیم لشکر اور اسلام کی کامیابیوں کے سامنے کھڑے ہونے کی ان میں طاقت باقی نہیں رہ گئی تھی اسی وجہ سے وہ ظاہرا مسلمان ہوگئے تھے اور منافقانہ طور پر کوشش کرتے رہے اور جب انہیں حکومت مل گئی اور اپنا کوئی رقیب ان کو نظر نہیں آرہا تھا تو انہوں نے جاہلیت کی روشوں کو اختیار کرنا شروع کردیا اور اپنے خاندان کا خون بہالینے کے لئے کھڑے ہوگئے ۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے انتقام لینے کا واقعہ ، عاشورا کی خونی جنگ کے اہداف کے عنوان سے پیش آیا اور اس کو یزید نے اپنے واضح لفظوں میں بیان کیا ،یزید کے علاوہ دوسرے بنی امیہ نے بھی انہی باتوں کو دہرایا ہے ۔
١۔ عاشور کے روز جس وقت امام حسین ، یزید کی فوج کے سامنے کھڑے ہوئے کہہ رہے تھے: مجھے کس لئے قتل کررہے ہو؟کیا میں نے کسی حق کو چھوڑ دیا ہے؟ یا کسی سنت کو بدل دیا ہے؟سب نے جواب دیا: تم سے ہماری جنگ تمہارے والد کے بغض وکینہ کی وجہ سے ہے کیونکہ انہوں نے جنگ بدر وحنین میں ہمارے اجداد کو قتل کیا ہے(٧) ۔
٢۔ اسی طرح امام حسین کی شہادت کے بعد سعید بن عاس جوکہ اس وقت مدینہ کا حاکم تھا، منبر پر جاکر پیغمبر اکرم کی قبر کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے: یوم بیوم بدر ۔ آج کا دن بدر کے دن کے مقابلے میں ہے ۔ انصار اس کی اس بات سے ناراض ہوگئے اور اس پر اعتراض کیا(٨) ۔
ان سب باتوں کا خلاصہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کربلا کے خونی واقعہ کی بنیادیں، امویوں کے دلوں میں بھرا ہوا کینہ اور رسول اسلام کے زمانے میں اپنے مقتولوں کا انتقام تھا، حقیقت میں ان لوگوں کا اسلام اور رسول اسلام سے انتقام لینے کا ارادہ تھا اور اس شکست کا بدلہ لینا تھا ۔
اس بحث کو معاصر کے اہل سنت کی بات پر ختم کرتے ہیں
""عبدالکریم خطیب"" اپنی کتاب ""علی بن ابی طالب"" میں پیغمبراسلام کے زمانے کی جنگ میں حضرت علی کی شجاعت اور شرک و کفر کے بزرگان کو نابود کرنے کے سلسلہ میں لکھتا ہے:
علی علیہ السلام تمام مسلمانوں کے درمیان مشرکین سے زیادہ سخت گیری سے کام لیتے تھے اور ان کی تمام اولاد، بزرگان اور ان کے رشتہ داروں کو آپ نے ہلاک کیا اور اسی وجہ سے ان کے دلوں میں ان کی طرف سے بغض و حسد بھرگیا مشرکوں کے دلوں میںمسلمان ہونے کے بعد بھی یہ کینہ بھرارہا ...یہاں تک کہ پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد قریش کے بچے،بوڑھے اور جوانوں نے بنی ہاشم کوتہہ تیغ کردیا اور ان کی عورتوں کو اسیر بنالیا ۔
پھر لکھتا ہے :
و کانما تثار بھذا لقتلاھا فی بدر واحد وحسبنا ان نذکر مصرع الحسین وآل بیتہ فی کربلائ، وما تلا ذلک من وقائع۔ گویا وہ اس کام کے ذریعہ بدر واحد میں اپنے کشتگان کا انتقام لیناچاہتے تھے،نمونہ کے طور پر کافی ہے کہ کربلا کے ان واقعات کو بیان کیا جائے جن میں امام حسین اور ان کے خاندان کو قتل کیا گیا (٩) ۔(١٠) ۔
١۔ پہلا واقعہ اس جگہ سے مربوط ہے جب یزید اپنے محل میں ""جیرون""(١) کے اوپر بیٹھا ہوا تھا اور وہاں سے شہدا کے مقدس سروں اور اہل بیت کے اسیر قافلہ کو دیکھ رہا تھا اس وقت اس کو یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا گیا :
لما بدت تلک الحمول و اشرقت
تلک الشموس علی ربی جیرون
نعب الغراب فقلت صح او لا تصح
فلقد قضیت من الغریم دیونی
جس وقت وہ قافلہ ظاہر ہوا اورسورج (شہداء کے سر) جیرون کی بلندی پر چمکنے لگے تو اس وقت ایک کوّے نے فریاد کی ۔ میں نے کہا : تو فریاد کر یا نہ کر ، میں نے اپنے مقروضوں سے اپنا قرضہ وصول لیا ہے ! (٢) ۔
ان اشعار میں کنایہ کے طور پر وضاحت سے زیادہ روشن الفاظ میں اپنے اجداد کے خون کا انتقام لینے کو بیان کرتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنا قرض یعنی جاہلیت کے زمانے میں رسول اسلام سے اپنے خون کا بدلہ لے لیا ہے ۔
٢۔ دوسرواقعہ وہ ہے جب شہداء کربلا کے کے سروں کو یزید کی مجلس میں لایاگیا اور یزید لکڑی کو امام حسین کے لب اور دانتوں پر مار رہا تھا اور یہ اشعار پڑھ رہا تھا:
لعبت ھاشم بالملک فلا
خبر جاء ولا وحی نزل
لیت اشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الاسل
لاھلوا واستھلوا فرحا
ولقالوا یا یزید لاتشل
فجزیناہ ببدر مثلا
واقمنا مثل بدر فاعتدل
لست من خندف ان لم انتقم
من بنی احمد ما کان فعل(٣) ۔
بنی ہاشم کی اولاد(رسول خدا)نے حکومت کو بازیچہ بنایا اور حقیقت یہ ہے کہ (خداوندعالم کی طرف سے ) نہ کوئی خبر آئی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی !
جنگ بدر میں میرے خاندان سے جو بزرگ قتل ہوئے تھے کاش کہ وہ آج ہوتے اور دیکھتے کہ کس طرح قبیلہ خزرج نیزوں کی چوٹ سے نالہ وزاری کررہے ہیں !
اس وقت وہ خوشی سے چیختے اور کہتے : اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔
آج ہم نے بدر کے واقعہ کا انتقام لے لیا اور بدر کی طرح ان سے حساب و کتاب کرلیا اور اب ہم برابر ہوگئے ۔
میرا تعلق ""خندف""(٤) کی اولاد سے نہیں ہے جو میں احمد (رسول اکرم) کی اولاد سے انتقام نہ لوں (٥) ۔
اسی طرح نقل ہوا ہے کہ یزید اسی مجلس میں جب امام حسین علیہ السلام کے ہونٹوں اور دانتوں پر مارتے ہوئے کہہ رہا تھا: یوم بیوم بدر۔ آج کا دن بدر کے دن کے مقابلے میں ہے(٦) ۔
ان عبارتوں سے واضح طور پر یزید کا کفر اور اس کا اسلام کے اصولوں پر ایمان نہ رکھنا واضح ہوجاتا ہے،اس کا اصلی مقصد خاندان رسول سے انتقام لینا تھا وہ چاہا رہا تھا کہ اپنے خاندان کے ان مقتولوں کا انتقام لے جنہوں نے اسلام اور قرآن کے مقابلے میں علم مخالفت بلند کررکھا تھا اور مسلمانوں کے مقابلے میں لڑ کر ہلاک ہوگئے تھے ۔وہ ، اس کاباپ اور دادا کبھی بھی اسلام پر ایمان نہیںلائے تھے بلکہ اسلامی عظیم لشکر اور اسلام کی کامیابیوں کے سامنے کھڑے ہونے کی ان میں طاقت باقی نہیں رہ گئی تھی اسی وجہ سے وہ ظاہرا مسلمان ہوگئے تھے اور منافقانہ طور پر کوشش کرتے رہے اور جب انہیں حکومت مل گئی اور اپنا کوئی رقیب ان کو نظر نہیں آرہا تھا تو انہوں نے جاہلیت کی روشوں کو اختیار کرنا شروع کردیا اور اپنے خاندان کا خون بہالینے کے لئے کھڑے ہوگئے ۔
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے انتقام لینے کا واقعہ ، عاشورا کی خونی جنگ کے اہداف کے عنوان سے پیش آیا اور اس کو یزید نے اپنے واضح لفظوں میں بیان کیا ،یزید کے علاوہ دوسرے بنی امیہ نے بھی انہی باتوں کو دہرایا ہے ۔
١۔ عاشور کے روز جس وقت امام حسین ، یزید کی فوج کے سامنے کھڑے ہوئے کہہ رہے تھے: مجھے کس لئے قتل کررہے ہو؟کیا میں نے کسی حق کو چھوڑ دیا ہے؟ یا کسی سنت کو بدل دیا ہے؟سب نے جواب دیا: تم سے ہماری جنگ تمہارے والد کے بغض وکینہ کی وجہ سے ہے کیونکہ انہوں نے جنگ بدر وحنین میں ہمارے اجداد کو قتل کیا ہے(٧) ۔
٢۔ اسی طرح امام حسین کی شہادت کے بعد سعید بن عاس جوکہ اس وقت مدینہ کا حاکم تھا، منبر پر جاکر پیغمبر اکرم کی قبر کی طرف اشارہ کرکے کہتاہے: یوم بیوم بدر ۔ آج کا دن بدر کے دن کے مقابلے میں ہے ۔ انصار اس کی اس بات سے ناراض ہوگئے اور اس پر اعتراض کیا(٨) ۔
ان سب باتوں کا خلاصہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کربلا کے خونی واقعہ کی بنیادیں، امویوں کے دلوں میں بھرا ہوا کینہ اور رسول اسلام کے زمانے میں اپنے مقتولوں کا انتقام تھا، حقیقت میں ان لوگوں کا اسلام اور رسول اسلام سے انتقام لینے کا ارادہ تھا اور اس شکست کا بدلہ لینا تھا ۔
اس بحث کو معاصر کے اہل سنت کی بات پر ختم کرتے ہیں
""عبدالکریم خطیب"" اپنی کتاب ""علی بن ابی طالب"" میں پیغمبراسلام کے زمانے کی جنگ میں حضرت علی کی شجاعت اور شرک و کفر کے بزرگان کو نابود کرنے کے سلسلہ میں لکھتا ہے:
علی علیہ السلام تمام مسلمانوں کے درمیان مشرکین سے زیادہ سخت گیری سے کام لیتے تھے اور ان کی تمام اولاد، بزرگان اور ان کے رشتہ داروں کو آپ نے ہلاک کیا اور اسی وجہ سے ان کے دلوں میں ان کی طرف سے بغض و حسد بھرگیا مشرکوں کے دلوں میںمسلمان ہونے کے بعد بھی یہ کینہ بھرارہا ...یہاں تک کہ پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد قریش کے بچے،بوڑھے اور جوانوں نے بنی ہاشم کوتہہ تیغ کردیا اور ان کی عورتوں کو اسیر بنالیا ۔
پھر لکھتا ہے :
و کانما تثار بھذا لقتلاھا فی بدر واحد وحسبنا ان نذکر مصرع الحسین وآل بیتہ فی کربلائ، وما تلا ذلک من وقائع۔ گویا وہ اس کام کے ذریعہ بدر واحد میں اپنے کشتگان کا انتقام لیناچاہتے تھے،نمونہ کے طور پر کافی ہے کہ کربلا کے ان واقعات کو بیان کیا جائے جن میں امام حسین اور ان کے خاندان کو قتل کیا گیا (٩) ۔(١٠) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.