مختصر جواب:
مفصل جواب:
ائمہ اطہار نے امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کو قائم کرنے کی تاکید کرتے ہوئے عزاداری کی رسومات کو لوگوں میں اتحاد کا اس طرح ملاک قرار دیا ہے جس طرح آج امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے ایام میں لاکھوں انسان مختلف دین و مذہب رکھنے کے باوجود آپ کی عزاداری کے لئے کھڑا ہوجاتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے جلوسوں کے نزدیک جمع ہوجاتے ہیں ۔
ہر قوم اپنی بقا اور کامیابی کے لئے ایک اتحاد اور اجتماع کی محتاج ہے، بے شک اہل بیت کے پیروکاروں کے لئے وحدت کابہترین سبب یہی امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری ہے جو بغیر کسی خرچ اور پریشانی کے لاکھوں لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلیتی ہے، یقینا اگر ایک ملت ایسی طاقت سے متصل ہوجائے تو وہ بہت کم وقت اور بہت کم تبلیغات سے اپنی بکھری ہوئی طاقت کو اکھٹا کرکے منظم ہوسکتی ہے اور اپنی ترقی کی ہر رکاوٹ کو اکھاڑ کر پھینک سکتی ہے ۔
واقعا ائمہ اطہار نے لوگوں کو مجالس حسینی کی ترغیب وتشویق دلا کرپراکندہ ہونے سے بچا لیا اور بکھرے ہوئے لوگوں کو اکھٹا کرلیا اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرکے ایک زبردست طاقت ان کے ہاتھ میں دیدی ۔
ایران کے لاکھوں مسلمان اپنے جوش و جذبہ کے ساتھ ماہ محرم و صفر خصوصا عاشورا کے روز ظالم و جابر حکومت کو لرزہ براندام کردیتی تھی اور یہیں سے ائمہ اطہار کا امام حسین (علیہ السلام) کو ملاک و محور قرار دینے کی تاکید کا راز معلوم ہوجاتا ہے ۔
شاید اگر ہم بھی انقلاب میں ان مجالس کی ذخیرہ شدہ طاقت کا مشاہدہ نہ کرتے تو ہم بھی ائمہ اطہار کی مجالس کو قائم کرنے کی تاکیدکے راز کو درک نہ کرپاتے ۔
جرمن کے ماربین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
ہمارے بعض مورخین کی لاعلمی اس بات کا سبب بنی کہ انہوں نے شیعوں کی عزاداری کو جنون اور دیوانگی سے نسبت دیدی ، لیکن انہوں نے یہ بات غلط کہی ہے اور شیعوں پر تہمت لگائی ہے ، ہم نے ملتوں اور قوموں کے درمیان شیعہ جیسی زندہ اور پرجوش قوم نہیں دیکھی ،کیونکہ شیعوں نے امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کو قائم کرکے عاقلانہ سیاست کو اپنایا ہے اور اس طرح انہوں نے فائدہ مند مذہبی انقلاب پیدا کئے ہیں (١) ۔
امام حسین کی عزاداری کے علاوہ کوئی بھی دوسری چیز مسلمانوں کے درمیان سیاسی بیداری ایجاد نہیں کرسکی (٢) ۔
ان مجالس کو قائم کرنے کے متعلق اسلام کے دشمنوں کی مخالفت اور ان مجالس کو بند کرانے کی کوشش یہاں تک کہ امام حسین (علیہ السلام) کی قبر کو منہدم کرنے اور آپ کی زیارت (٣)سے منع کرنے کی کوشش خود اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ حکومتیں کس حد تک اس عظیم طاقت سے وحشت زدہ تھے اور وحشت زدہ ہیں ۔
آج دین کے دشمنوں کے دلوں میں ان مجالس کے قائم ہونے کی جو وحشت پڑی ہوئی ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ کبھی شیعوں پر اپنے داخلی رشتہ داروں کے ذریعہ ناروا تہمتیں لگا تے ہیں او رکبھی اپنے بٹھائے ہوئے رضا خان جیسے ڈکٹیٹر کو اُکتاتے ہیں اور کبھی ان مجالس کے مضامین کو غلط بتا کر شعائر حسینی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرتے تھے اور کرتے ہیں ۔
پوری تاریخ میں مجالس حسینی اس معاشرہ کے لئے بہت اچھی پناہ گاہ رہی ہیں جن پر ستم ہوتا رہا ہے ، نہ صرف ایران کے اسلامی انقلاب میں بلکہ ہر جگہ پر لوگوں نے مجالس حسینی سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہریمنی طاقتوں کو دندان شکست جواب دیا ہے بلکہ عراق و پاکستان کے استقلال میں یہی مسئلہ سامنے تھا ۔
ہندوستانی انقلاب کے رہبر گاندھی کے مشہور کلام میں ملتا ہے : میں نے سید الشہداء امام حسین (علیہ السلام) کی زندگی کا غور سے مطالعہ کیا اور صفحات کربلا پر پوی توجہ دی اور میرے لئے واضح ہوگیا کہ اگر ہندوستان کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اسے امام حسین (علیہ السلام) کو نمونہ عمل بنانا پڑے گا(٤) ۔
لیکن یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب نیت خالص ہو اور یہ مجلسیں وحدت کا مرکز بن جائیں اور ان میں ایثار اور فداکاری کی علامتیں ظاہر ہوں ۔
اور چونکہ عدالت کو جاری کرنا اور ظلم ستیزی صرف دنیائے اسلام میں منحصر نہیں ہے لہذا امام حسین (علیہ السلام) نے کربلا میں نسل بش کو جو تعلیمات دی ہیںوہ سب کے لئے راہ گشا ہیں(٥) ۔
ہر قوم اپنی بقا اور کامیابی کے لئے ایک اتحاد اور اجتماع کی محتاج ہے، بے شک اہل بیت کے پیروکاروں کے لئے وحدت کابہترین سبب یہی امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری ہے جو بغیر کسی خرچ اور پریشانی کے لاکھوں لوگوں کو اپنے گرد جمع کرلیتی ہے، یقینا اگر ایک ملت ایسی طاقت سے متصل ہوجائے تو وہ بہت کم وقت اور بہت کم تبلیغات سے اپنی بکھری ہوئی طاقت کو اکھٹا کرکے منظم ہوسکتی ہے اور اپنی ترقی کی ہر رکاوٹ کو اکھاڑ کر پھینک سکتی ہے ۔
واقعا ائمہ اطہار نے لوگوں کو مجالس حسینی کی ترغیب وتشویق دلا کرپراکندہ ہونے سے بچا لیا اور بکھرے ہوئے لوگوں کو اکھٹا کرلیا اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرکے ایک زبردست طاقت ان کے ہاتھ میں دیدی ۔
ایران کے لاکھوں مسلمان اپنے جوش و جذبہ کے ساتھ ماہ محرم و صفر خصوصا عاشورا کے روز ظالم و جابر حکومت کو لرزہ براندام کردیتی تھی اور یہیں سے ائمہ اطہار کا امام حسین (علیہ السلام) کو ملاک و محور قرار دینے کی تاکید کا راز معلوم ہوجاتا ہے ۔
شاید اگر ہم بھی انقلاب میں ان مجالس کی ذخیرہ شدہ طاقت کا مشاہدہ نہ کرتے تو ہم بھی ائمہ اطہار کی مجالس کو قائم کرنے کی تاکیدکے راز کو درک نہ کرپاتے ۔
جرمن کے ماربین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
ہمارے بعض مورخین کی لاعلمی اس بات کا سبب بنی کہ انہوں نے شیعوں کی عزاداری کو جنون اور دیوانگی سے نسبت دیدی ، لیکن انہوں نے یہ بات غلط کہی ہے اور شیعوں پر تہمت لگائی ہے ، ہم نے ملتوں اور قوموں کے درمیان شیعہ جیسی زندہ اور پرجوش قوم نہیں دیکھی ،کیونکہ شیعوں نے امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کو قائم کرکے عاقلانہ سیاست کو اپنایا ہے اور اس طرح انہوں نے فائدہ مند مذہبی انقلاب پیدا کئے ہیں (١) ۔
امام حسین کی عزاداری کے علاوہ کوئی بھی دوسری چیز مسلمانوں کے درمیان سیاسی بیداری ایجاد نہیں کرسکی (٢) ۔
ان مجالس کو قائم کرنے کے متعلق اسلام کے دشمنوں کی مخالفت اور ان مجالس کو بند کرانے کی کوشش یہاں تک کہ امام حسین (علیہ السلام) کی قبر کو منہدم کرنے اور آپ کی زیارت (٣)سے منع کرنے کی کوشش خود اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ حکومتیں کس حد تک اس عظیم طاقت سے وحشت زدہ تھے اور وحشت زدہ ہیں ۔
آج دین کے دشمنوں کے دلوں میں ان مجالس کے قائم ہونے کی جو وحشت پڑی ہوئی ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ کبھی شیعوں پر اپنے داخلی رشتہ داروں کے ذریعہ ناروا تہمتیں لگا تے ہیں او رکبھی اپنے بٹھائے ہوئے رضا خان جیسے ڈکٹیٹر کو اُکتاتے ہیں اور کبھی ان مجالس کے مضامین کو غلط بتا کر شعائر حسینی کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرتے تھے اور کرتے ہیں ۔
پوری تاریخ میں مجالس حسینی اس معاشرہ کے لئے بہت اچھی پناہ گاہ رہی ہیں جن پر ستم ہوتا رہا ہے ، نہ صرف ایران کے اسلامی انقلاب میں بلکہ ہر جگہ پر لوگوں نے مجالس حسینی سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہریمنی طاقتوں کو دندان شکست جواب دیا ہے بلکہ عراق و پاکستان کے استقلال میں یہی مسئلہ سامنے تھا ۔
ہندوستانی انقلاب کے رہبر گاندھی کے مشہور کلام میں ملتا ہے : میں نے سید الشہداء امام حسین (علیہ السلام) کی زندگی کا غور سے مطالعہ کیا اور صفحات کربلا پر پوی توجہ دی اور میرے لئے واضح ہوگیا کہ اگر ہندوستان کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اسے امام حسین (علیہ السلام) کو نمونہ عمل بنانا پڑے گا(٤) ۔
لیکن یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب نیت خالص ہو اور یہ مجلسیں وحدت کا مرکز بن جائیں اور ان میں ایثار اور فداکاری کی علامتیں ظاہر ہوں ۔
اور چونکہ عدالت کو جاری کرنا اور ظلم ستیزی صرف دنیائے اسلام میں منحصر نہیں ہے لہذا امام حسین (علیہ السلام) نے کربلا میں نسل بش کو جو تعلیمات دی ہیںوہ سب کے لئے راہ گشا ہیں(٥) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.