مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس کی تحلیل یہ ہے کہ امام حسین نے اپنی جان کو فدا کردیاتاکہ امت کے گناہ بخش دئیے جائیں اور امام کو امت کا کفارہ سمجھ لیا جائے ۔ اس اعتقاد کی مثال عیسائیوں کے اسی عقیدہ کی طرح ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی اپنی جان پر کھیل کر صلیب پر چڑھ گئے تاکہ ان کے ماننے والوں کے گناہ بخش دئیے جائیں اور انہوں نے ان لوگوں کو کامیاب کردیا ۔
اس تحلیل کے معتقد حضرات نے اس طرح کی تعبیر سے تمسک کیا ہے جیسے ""یاباب نجاةالامة"" کہ امام حسین نے شہادت کو قبول کرکے فاسق وفاجر لوگوں کے گناہوں کوبخشوا دیا ہے لہذا اس کے نتیجے میں لوگوں کو امام حسین کی عزاداری برپا کرکے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔
یہ تحلیل بھی دین کے کسی اصول وقوانین سے سازگار نہیںہے بہت سے لوگوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ امام حسین نے اپنی اور اپنی اولاد کی قربانی دے کر گناہگاروں کو عذاب الہی سے محفوظ کردیا ہے ، بعبارت دیگر امام حسین اور ان کے اصحاب قتل ہوگئے تاکہ دوسرے لوگ گناہ اور جنایتیں کرنے کے لئے آزاد ہوجائیں اور خدا کے احکام ان سے ساقط ہوگئے ۔
اسی طرح کی فکر باعث بنی کہ لوگ یہ گمان کرنے لگے کہ امام حسین پر گریہ وعزاداری کرنے سے ان کے جتنے بھی گناہ ہیں وہ سب دھل جائیں گے اور اگر وہ ضروریات دین کا پابند بھی نہیں ہوگا جب بھی بخش دیا جائے گا اور اس کو نجات مل جائے گی ۔
یہ غلط بات اس حدتک رائج تھی کہ ستمگر وظالم بادشاہ جن کی حکومتیں ہی ظلم و بے عدالتی پر استوار تھیں اور ان کے ہاتھ بے گناہوں کے خون میں رنگیں ہوئے تھے، ایام محرم میں یہ ظالم بادشاہ مجالس عزا برپا کرتے تھے اور عزاداری کے جلوس میں ننگے پیر سروسینہ کو پیٹتے ہوئے چلتے تھے اور اس کو اپنی نجات کا سبب سمجھتے تھے (١) ۔
اس تحلیل کے معتقد حضرات نے اس طرح کی تعبیر سے تمسک کیا ہے جیسے ""یاباب نجاةالامة"" کہ امام حسین نے شہادت کو قبول کرکے فاسق وفاجر لوگوں کے گناہوں کوبخشوا دیا ہے لہذا اس کے نتیجے میں لوگوں کو امام حسین کی عزاداری برپا کرکے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔
یہ تحلیل بھی دین کے کسی اصول وقوانین سے سازگار نہیںہے بہت سے لوگوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ امام حسین نے اپنی اور اپنی اولاد کی قربانی دے کر گناہگاروں کو عذاب الہی سے محفوظ کردیا ہے ، بعبارت دیگر امام حسین اور ان کے اصحاب قتل ہوگئے تاکہ دوسرے لوگ گناہ اور جنایتیں کرنے کے لئے آزاد ہوجائیں اور خدا کے احکام ان سے ساقط ہوگئے ۔
اسی طرح کی فکر باعث بنی کہ لوگ یہ گمان کرنے لگے کہ امام حسین پر گریہ وعزاداری کرنے سے ان کے جتنے بھی گناہ ہیں وہ سب دھل جائیں گے اور اگر وہ ضروریات دین کا پابند بھی نہیں ہوگا جب بھی بخش دیا جائے گا اور اس کو نجات مل جائے گی ۔
یہ غلط بات اس حدتک رائج تھی کہ ستمگر وظالم بادشاہ جن کی حکومتیں ہی ظلم و بے عدالتی پر استوار تھیں اور ان کے ہاتھ بے گناہوں کے خون میں رنگیں ہوئے تھے، ایام محرم میں یہ ظالم بادشاہ مجالس عزا برپا کرتے تھے اور عزاداری کے جلوس میں ننگے پیر سروسینہ کو پیٹتے ہوئے چلتے تھے اور اس کو اپنی نجات کا سبب سمجھتے تھے (١) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.