مختصر جواب:
مفصل جواب:
شاید اس بات کی وضاحت کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہو ”موتی“ (مردے) سے مراد اوپو والی آیت میں جسمانی طور پر مردے نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد باطنی ومعنوی مردے ہیں کیوں کہ ہم دو قسم کی موت وحیات رکھتے ہیں، ایک حیات وموت مادی اور دوسری موت وحیات معنوی ، اسی طرح شنوائی اور بینائی بھی دو قسم کی ہیں ایک مادی اور دوسری معنوی، اسی دلیل سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایسے اشخاص کے بارے میں کہ جو آنکھیں بھی رکھتے ہیں ،کان بھی رکھتے ہیں یا زندہ وسالم تو ہیں لیکن وہ حقائق کو نہیں سمجھتے، کہتے ہیں کہ وہ اندھے بہرے ہیں یا بالکل مردہ ہےں، کیوںکہ جو ردعمل ایک بینا و شنوا یا ایک زندہ انسان سے ہونا چاہئےے وہ حقائق کے سامنے نہیں دکھاتے، قرآن مجید میں ایسی تعبےرات کثرت سے نظر آتی ہے اور ان میں ایک خاص کشش پائی جاتی ہے بلکہ قرآن حیات مادی اور ظاہری زندگی کو، جس کی نشانی صرف کھانا، سونا اور سانس لینا ہے، کچھ اہمیت نہیں وہ ہمیشہ حیات معنوی وانسانی پر جو ذمہ داری وجوابدہی اور احساس ودرد اور بیداری وآگاہی کے ساتھ ملی ہوئی ہو، انحصار کرتا ہے ۔
اس نکتہ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بینائی وشنوائی اور معنوی موت خود ان کی اپنی وجہ سے ہے، وہ خود ہی وہ لوگ ہیں کہ جو بار بار گناہ کرنے اور اس پر اصرار اور ہٹ دھرمی کرنے کے سبب سے اس مرحلہ تک پہنچ جاتے ہیں کیوں کہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسا کہ اگر کوئی انسان ایک مدت تک اپنی آنکھ کو بند کئے رکھے تو وہ آہستہ آہستہ اپنی بینائی اور نظر کو گوا بیٹھے گا اور شاید ایک روز بالکل اندھا ہوجائے، جو اشخاص اپنے دل کی آنکھوں کو حقائق کی طرف سے بند کرلے تو وہ تدریجا اپنی معنوی بصارت کی قوت کو زائل کردے گا ۔۱
اس نکتہ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بینائی وشنوائی اور معنوی موت خود ان کی اپنی وجہ سے ہے، وہ خود ہی وہ لوگ ہیں کہ جو بار بار گناہ کرنے اور اس پر اصرار اور ہٹ دھرمی کرنے کے سبب سے اس مرحلہ تک پہنچ جاتے ہیں کیوں کہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسا کہ اگر کوئی انسان ایک مدت تک اپنی آنکھ کو بند کئے رکھے تو وہ آہستہ آہستہ اپنی بینائی اور نظر کو گوا بیٹھے گا اور شاید ایک روز بالکل اندھا ہوجائے، جو اشخاص اپنے دل کی آنکھوں کو حقائق کی طرف سے بند کرلے تو وہ تدریجا اپنی معنوی بصارت کی قوت کو زائل کردے گا ۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.