مختصر جواب:
مفصل جواب:
احمد بن حنبل نے ابن نمیر سے انہوں نے اجلح کندی سے ، انہوں نے عبداللہ بن بریدہ سے اور بریدہ نے اپنے والد سے نقل کیا ہے : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے یمن کی طرف دو لشکر روانہ کئے، ان میں سے ایک لشکر کا سپہ سالار حضرت علی (علیہ السلام) کو بنایا اوردوسرے لشکر کا سپہ سالار خالد بن ولید کو بنایااور فرمایا: جب بھی دونوں لشکر ایک دوسرے سے مل جائیں تو دونوں کے سردار حضرت علی (علیہ السلام) ہوں گے اور اگر الگ الگ رہے تو تم اپنے لشکر کے سردار اور علی (علیہ السلام) اپنے لشکر کے سردار ہیں۔ بریدہ کہتے ہیں : یمن میں قبیلہ بنی زید کے پاس پہنچے اور ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگے ، مسلمان ،مشرکین پر غالب آگئے ۔اور مشرکین کے خاندان کو اسیر کرلیا۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے اسیروں میں سے ایک عورت کو اپنے لئے انتخاب کرلیا ۔ بریدہ کہتے ہیں :گ خالدنے مجھے ایک خط لکھ کر دیا اور حکم کیا کہ اس واقعہ کی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )سے شکایت کروں ، مدینہ آکر میں نے وہ خط پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی خدمت میں پیش کیا ۔ جیسے ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے اس خط کو پڑھا تو میں نے ان کے چہرہ پرغصہ کے آثار دیکھے ۔ عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )! میں خدا سے پناہ چاہتا ہوں۔ آپ نے مجھے جس کے ساتھ بھیجا تھا اس کی اطاعت کا حکم دیا تھا اور میں نے اس کی اطاعت کی ہے ۔ حضرت نے فرمایا: "" لا تقع فی علی، فانہ منیو انا منہ و ھو ولیکم بعدی"" ۔ علی کے خلاف کچھ نہ کہو ، کیونکہ وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں (١) ۔
اس حدیث کی سند کے تمام رجال ،اہل سنت کے نزدیک ثقہ اور بھروسہ مند ہیں۔
الف : عبداللہ بن نمیر : یہ وہ شخص ہیں جن کی یحیی بن معین اور دیگر افراد نے توثیق کی ہے اور حدیث کے بزرگ اصحاب نے ان کی تعریف کی ہے (٢) ۔ ابن حجر کہتے ہیں : یہ ثقہ اور صاحب حدیث ہیں (٣) ۔
ب : اجلح بن عبدللہ : ان کی بھی ابن معین اور دیگر علماء نے توثیق کی ہے (٤) ۔ ابن حجر نے ان کو صادق کہا ہے (٥) ۔
ج : عبداللہ بن بریدہ : ذہبی اور ابن حجر کی تصریح کے مطابق یہ ثقہ ہیں (٦) ۔
د : بریدہ : ان کا شمار ان اصحاب میں ہوتا ہے جو سب کے سب اہل سنت کے نزدیک عادل ہیں (٧) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.