فصل دوم : شادیوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا انسانی معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے ۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل
فصل سوم: ناجائز تعلقات کی فراہمی شادیوں میں قلت کی ایک اہم علت ہے ۔ پہلی فصل : شادی!ایک مشکل مسئلہ

شادی کی قلت اور جوانوں کا شادی شدہ زندگی کی طرف رغبت نہ کرنا اسکے مقابلہ میں مجرد زندگی کو ترجیح دینا، جبکہ ایسی شئی کو زندگی کا نام دینا مناسب نہیں ہے ۔ یہ عالم انسانیت کے لیے ایک بڑا المیہ ہے جبکہ اس کے علاوہ بہت سے منقی آثار اس تیز رفتار زندگی کے ساتھ اس صدی کے انسانوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔
شادی کی قلت ففط اس لیے المیہ نہیں ہے کہ یہ نسل یا کثرت اولاد پر کنٹرول کاسبب ہے اور حال حاضر میں دنیا کثرت جمعیت کی شکارہے ۔اور آنے والے چند سالوں میں دنیا اقلیت کی شکار ہو جائیگی۔( جبکہ کثرت جمعیت غیر صنعتی ممالک میں مکمل طور پر کنٹرول ہو چکی ہے) اس لیے قلت ازدواج پریشانی کا سبب بنی ہوئی ہے ۔ بلکہ برائی کا بدتر مقام یہ ہے کہ مجرد افراد اجتماعی یا معاشرتی ذمہ داریوں میں بہت پیچھے ہو گئے ہیں ۔ انکا رابطہ تمام معاشروں سے منقطع ہوگیا ہے اور انکا حال ایسا ہوگیا کہ جیسے بے کراں فضا میں کوئی غیر وزنی شئے سرگرداں پھرتی ہے ۔اس طرح کے افراد ممکن ہے کہ ایک معمولی چیز مٹی یا پانی سے اپنے رابطہ کو توڑ ڈالیں اور فوری طور پر کسی دوسرے نقطہ کی طرف پرواز کر جائیں یا یوں کہا جائے کہ غصہ و غضب کے عالم میںاپنی زندگی کو خیرباد کہ دیںاور زندگی سے چشم پوشی اختیار کرلیں ۔
خودکشی کی کثرت اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کر دیتی ہے کہ خودکشی کرنے والے میں غیر شادی شدہ افراد کی نسبت شادی شدہ افراد سے ہمیشہ زیادہ رہی ہے ۔ اگر آپ غور و فکر کریں تو دنیا میں جرائم کو انجام دینے والے افراداکثر و بیشتر یا تو غیر شادی شدہ ہوتے ہیں یا اسکے مثل ہوتے ہیں در اصل شادی شدہ زندگی انسان کو اپنی ذات کو ترجیح دینے اور نفسا نفسی کی بیماری سے چھٹکارا دلاتی ہے اور اسکے اپنے ایک چھوٹے معاشرے (فیملی ) کی وجہ سے ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے ۔ اس طرح اسکو ہر خطرناک و غلط ارادوں سے محفوظ رکھتی ہے ۔
ذمہ داری کا احساس اور معاشرے سے مربوط نہ ہونا یہ بھی برائی کا ایک دوسرا رخ ہے،جس میں سب سے اہم انسان کا اپنی تمام قوت و طاقت کو استعمال اور انہیں جمع نہیں کر پانا ہے جسکے نتیجے میںوہ اپنی زندگی کی ترقی سے محروم رہ جاتاہے ۔
یہ ہی وہ موضوع ہے جو کنوارے یا غیر شادی شدہ افراد کی زندگی کو سست بناتی ہے اور بے اعتنائی کے ساتھ ساتھ اسکی زندگی کے وسائل کی فراہمی اور اپنی سمجھ بوجھ کے استعمال سے فراہم شدہ امکانات کی حفاظت سے روکتی ہے ۔چنانچہ زندگی چلانے کے لیے وہ بھی ایک فرد کی جسکی زندگی جس طرح بھی گزرے اسے سختی کا احساس نہیں ہوتا نہ ہی اس کے تمام قوا کا استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
یہ ہی سبب ہے کہ بہت سے جوان جو مجردی کے زمانے میں اپنی زندگی تک نہیں چلا پاتے اور ہمیشہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارتے ہیں اور معاشرے میں انہیں سست اور معذور شمار کیا جاتا ہے لیکن شادی شدہ زندگی کے شروع ہوتے ہی انکا شمار مستقل مزاج ،قوت مند، حوصلہ مند ، اوربافہم افراد میں ہونے لگتاہے ۔ یہ سب ذمہ داری کے احساس کا نتیجہ ہے ۔
اسلامی روایات میں بھی اس بات کی طرف زور دیا گیا ہے اور ( رزق شریک حیات کے ساتھ ہوتا ہے )شاید اسی فکر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔لہذا ایسے غیر شادی شدہ جوانوں کواگر خانہ بدوش ( ، خیموں میں رہنے والے ) سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ لوگ کسی بھی سر زمیں کو آ باد نہیں کرتے کیونکہ انہیں بہت ہی جلدی کسی دوسری جگہ کوچ کر جانا ہوتا ہے ۔اور یہ اپنی کوئی پہچان نہیں چھوڑتے ہیں ۔ اس حوال-ے سے یہ لوگ بہت ہی لا پرواہی سے کا م لیتے ہیں ۔
اخلاقی نقطہ نظر سے غیر شادی شدہ شخص انسان کامل نہیں کہلایا جا سکتاہے، کیونکہ بہت سے اخلاقی صفات جیسے وفاداری،درگزر،جوانمردی ا، محبت ،قربانی ، حق شناسی، ایک گھریلو اور شوہرو بیوی بچوںکے ساتھ مشترک زندگی کے علاوہ بڑی تعداد میں مشاہدے میں نہیں آسکتے ہیں ۔ لہذا جو افراد ایسی زندگی سے دور ہیں وہ ان صفات کے مکمل معانی و مفہوم نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔
یہ بات درست ہے کہ ایک شادی شدہ مشترک زندگی کے قبول کرنے کا مطلب بہت سی ذمہ داریوں اور مشکلات کو دعوت دینا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے مقابلہ کیئے بغیر کامل ہو سکتاہے ؟
انسانی جسم و روح کی طبیعی و فطری ضرورت اور تقاضوں پر مشتمل مسائل کی جواب دہی اور ان کی عدم جواب دہی کی صورت میں پیش آنے والے فکری و جسمانی نا رسائی ایک مستقل باب کی حامل ہے ۔ ان واقعی اور غیر قابل انکار باتوں کے مد نظر اگر شادی نہ کرنے کا رواج بڑھتا رہے تو اسے ایک عظیم سماجی بحران اور فاجعہ کا نام دیا جا سکتا ہے اور ایسی تغبیر مےںکوئی مبالغہ نہیں ہے ۔
لیکن اس راہ میں ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسی تاریک راہوں اور عظیم مشکلات کی موجودگی میں ہمارے جوانوں کو اس فطری اور معاشرتی فریضہ کو پورا کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ اس تیز رفتار زندگی ، اس کی تمام مشکلات ، زندگی کی بیجا امیدیں، والدین اور جوانوں کا اختلاف نظر ، تعلیم کی بڑھتی ہوئی مدت ، رستم کی سات رکاوٹوں کی مانند بہت سی رکاوٹیں،روزگار کی پریشانیاں اور لوگوں کا ایک دوسرے سے بھروسے کا ختم ہو جانا ،کیا ان حالات میں جوان اس مقدس اور عظیم فریضے کو سر وقت انجام دے سکتاہیں؟
یہی وہ مسائل ہیں جن کو دقیق طریقے سے زیر بحث لانا چاہےے، اس لیے کہ اس کے بغیر معاشرے کی اس عظیم مشکل کا بنیادی حل نا ممکن ہے---۔
قابل غور نکتہ جس کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے یہ ہیکہ شادی اور اسکے سبب پیدا ہونے والی پریشانیوں کے موجد خود ہم اور ہمارا معاشرہ ہے جبکہ اس معاشرے کے معنی سوائے ہمارے وجود کے کچھ اور نہیں ہے ۔
یہ مشکلات آسمان سے نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی بطن زمین سے آشکار ہوئی ہیں بلکہ یہ ہم ہی جن کے سبب یہ وجوج میں آئی ہیں، ہمارے غلط فیصلے ،غلط محاسبات اور ہمارا غلط رسوم و آداب کا شکار ہونا ،اندھی تقلید کرنا اس کا باعث بنتی ہیں ۔
لہذا اگر ہم محکم ارادے کے ساتھ مقابلہ کریں تو ان مشکلات کا خاتمہ کرسکتے ہیں ، اور نئے سرے سے پلاننگ کریں جواوہام و خیالات اور غلط پےروی سے ہٹ کر حقیقت و واقعیت اور زندگی کے اصلی اور اساسی مفہوم پر مبنی ہو ۔اور اس کام کے لیے ایسا نہیں ہے کہ راستے بند ہو آج بھی راستے کھلے ہوئے ہیں، اور ایسا کرنا نا ممکن بھی نہیں ہے ۔

فصل سوم: ناجائز تعلقات کی فراہمی شادیوں میں قلت کی ایک اہم علت ہے ۔ پہلی فصل : شادی!ایک مشکل مسئلہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma