جہاں بیٹی کو باعث ِرسوائی سمجھاجاتا تھا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۱۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کیوں کہتے تھے ؟سوره نحل/ آیه 56 - 60

جہاں بیٹی کو باعث ِرسوائی سمجھا تاتھا


گذشتہ آیات میں شرک و بت پرستی کے خلاف مدلّل بحث تھی۔اب زیر نظر آیات میں مشرکین کی بعض بری بد عتوں اور گھٹیا عادتوں کو بیان کیا گیا ہے تاکہ شرک پرستی کے خلاف ایک اور دلیل قائم ہو جائے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے : ان مشرکوں کو ہم نے جو روزی دی ہے اس کا ایک حصہ بتوں کی نذر کر دیتے ہیں جبکہ انھیں ان سے کسی نفع و نقصان کی خبر تک نہیں ( وَیَجْعَلُونَ لِمَا لاَیَعْلَمُونَ نَصِیبًا مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ ) ۔۱
پہلی یہ کہ ”لایعلمون “ کی ضمیر مشرکین کی طرف لوٹتی ہے یعنی مشرکین اپنے بتوں کے لئے ایک حصہ وقف کردیتے ہیں جبکہ ان سے کسی خیر و شر کی انھیں خبر نہیں ہم نے یہی تفسیرانتخاب کی ہے ۔
دوسری یہ کہ ”لایعلمون “ کی ضمیر خود بتوں کی طرف لوٹتی ہے یعنی وہ بت کہ جو علم ، شعور اور عقل نہیں رکھتے ، ان کے ل ئے ایک حصہ نذرکر تے تھے ۔
لیکن اس دوسری صورت میں آیت کی تعبیرات میں ایک تضاد سا محسوس ہوتا ہے کیونکہ ” ما“ عام طور پر غیر ذوی العقول موجودات کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ ”یعلمون “ عموماً ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
جبکہ پہلی تفسیر کی بناء ”ما“ بتوں کی طرف اشارہ ہے اور ” لایعلمون “ عبادت کرنے والوں کی طرف ۔
جس حصے کا یہاں ذکر ہے اس میں کچھ اونٹ اور دیگر چوپائے شامل ہوتے ہیں اور کچھ حصہ وہ زرعی پیداوار کا وقف کرتے ہیں اس کی طرف سورہ انعام کی آیہ ۱۳۶ میں اشارہ ہوا ہے کہ مشرکین زمانہ جاہلیت میں اسے بتوں کے لئے مخصوس سمجھتے تھے اور ان کی راہ میں خرچ کرتے تھے ۔ حالانکہ بتوں سے انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تھا نہ ضرر کا خوف ہو تا تھا یہ نہایت احمقانہ کام تھا جو وہ انجام دیتے تھے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا : قسم بخدا ! قیامت کی عدالت میں ان تہمتوں اور جھوٹوں کے بارے میں باز پرس ہو گی( تَاللهِ لَتُسْاٴَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُونَ ) ۔
اس باز پرس پر ان کے لئے اعراف کے سوال کوئی چارہ کار نہ ہو گا ۔ اس اعتراف ے بعد انھیں سزا ملے گی لہٰذا تمہارے اس برے منحوس عمل کا دنیاوی نقصان بھی ہے اور اخروی بھی ۔
ان کی دوسری منحوس بد عت یہ تھی کہ وہ اس خد اکے لئے بیٹیوں کے قائل تھے کہ جو ہر قسم کی آلائش ِ جسمانی سے پا ک ہے وہ معتقد تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں (وَیَجْعَلُونَ لِلَّہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہُ ) ۔لیکن اپنی نوبت پر اپنے لئے وہ کچھ چاہتے جو انھیں پسند تھا (وَلَھُمْ مَا یَشْتَہُونَ) ۔
یعنی وہ کسی صورت تیار نہ تھی کہ انہی بیٹیوں کو اپنے لئے پند کریں کہ جنہیں خدا کے لئے قرار دیتے تھے ۔ بیٹی تو ان کی نظر میں سخت ننگ و عار ، رسوائی اور بد بختی کی علامت تھی ۔
اگلی آیت میں بات جاری رکھتے ہوئے ان کی تیسری بری عادت کی نشاندہی کی گئی ہے فرمایا گیا ہے : جب ان میں سے کسی کو بشارت دی جاتی ہے کہ خدا نے تجھے بیٹی دی ہے تو غم اور غصہ کے مارے ان کا رنگ سیاہ پڑ جاتا ہے (وَإِذَا بُشِّرَ اٴَحَدُھُمْ بِالْاٴُنثَی ظَلَّ وَجْھُہُ مُسْوَدًّا )اور زہر کے گھونٹ پی کر رہ جاتا(وَھُوَ کَظِیمٌ) ۔2
معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اپنے خیال باطل کے باعث وہ جس ننگ و عار میں مبتلا ہے اس میں اس کی حالت یہ ہے کہ ” یہ بری خبر سن کر وہ اپنی قوم قبیلے سے چھپتا چھپاتا ہے “( یَتَوَارَی مِنْ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِہِ )
بات اس پر بھی بس نہیں ہوتی بلکہ وہ ہمیشہ اس فکر میں غوطہ زن رہتا ہے کہ کیا وہ اس ننگ و عار کو قبول کر لے اور اپنی بیٹی کو اپنے پاس رکھتے یا اسے زندہ در گور کر دے (اٴَیُمْسِکُہُ عَلَی ھُونٍ اٴَمْ یَدُسُّہُ فِی التُّرَاب) ۔
آخر میں اس ظالمانہ شقاوت آمیز غیر انسانی فیصلے کی انتہائی صراحت سے مذمت کرتے ہو ئے فرمایا گیا ہے : جان لو کہ وہ بہت با اور قبیح فیصلہ کرتے ہیں (اٴَلاَسَاءَ مَا یَحْکُمُونَ ) ۔
آخر میں ان تمام برائیوں اور قباحتوں کو آخرت پر ایمان نہ ہونے کا نتیجہ قرار دیتے ہو ئے فرمایا گیا ہے : جو دار آخر ت پر ایمان نہیں رکھتے انہی کی ایسی بری صفات ہوتی ہیں (لِلَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ) ۔
لیکن خدا کی صفات بہت عالی ہیں ( وَلِلَّہِ الْمَثَلُ الْاٴَعْلَی) ۔اور وہ زبر دست حکمت والا ہے( وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ ) ۔
یہی سبب ہے کہ جو انسان اس عظیم و عزیز اور حکیم و دانا خدا کے نزدیک ہو ت اہے ا س کے علم و قدرت و حکمت کی بلند صفات کی طاقت و شعاعیں اس پر پڑتیں ہیں اور وہ خرافات اور گھٹیا بدعات سے الگ ہو جاتا ہے ۔
لیکن انسان جس قدر اللہ سے دور ہوتا ہے اسی قدر جہالت ، زبوں حالی اور ظلمتوں میں پھنستا چلا جا تا ہے ۔
اللہ اور اس کی عدالت کو بھول جانا تمام تر پستیوں ، برائیوں اور بے راہ رویوں کا باعث ہے ۔
ان دونوں بنیادی اصولوں کو یاد رکھا جائے تو انسان میں احساس مسئولیت زندہ رہتا ہے اور وہ جہالت و خرافات کے خلاف جنگ کے لئے توانائی کے حقیقی سر چشمہ سے مدد حاصل کرتارہتا ہے ۔

 

 


۱۔” لایعلمون “ کے معنی اور اس کی ضمیر کے بارے میں مفسرین نے دو تفسیریں بیان کی ہیں :
2۔”کظیم“ اس شخص کو کہتے ہیں جوغم و اندوہ کے عالم میں اپنے تئیں سنبھالا دے رہا ہو یعنی زہر کے گھونٹ پی رہا ہو۔
۱۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کیوں کہتے تھے ؟سوره نحل/ آیه 56 - 60
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma