مختلف گناہوں کی مختلف سزائیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 48 - 50 سوره نحل/ آیه 45 - 47

مختلف گناہوں کی مختلف سزائیں :


بہت سے مباحث میں قرآن استدلالی مطالب، جذباتی پہلووٴں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ وہ سامعین کے دلوں کے لئے بہت زیادہ اثر انگیز ہو جاتے ہیں ۔ زیر بحث آیات کی اسی روش کا ایک نمونہ ہیں ۔
گذشتہ آیات میں معاد و نبوت کے مسئلے پرمشرکین سے ایک بحث تھی لیکن زیربحث آیات میں جابر ، مستکبر اور ہٹ دھرم گنہ گاروں کا تہدید کی گئی ہے اور انھیں مختلف طرح کے عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے ۔
ار شاد ہوتا ہے :نو رحق کو بجھا دینے کے لئے طرح طرح کی منحوس سازشین کرنے والے یہ لوگ کیا عذاب ِ الہٰی سے مامون ہوں گئے ہیں حالانکہ ہر آن ممکن ہے خد انھیں مختلف طرح کے عذاب میں دھنسا دے (اٴَفَاٴَمِنَ الَّذِینَ مَکَرُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ یَخْسِفَ اللهُ بِھمْ الْاٴَرْضَ )َ
کیا یہ بعید ہے کہ زمین پر ایک وحشت ناک زلزلہ آجائے ، سطح زمین پھٹ جائے اور اس میں وہ تمام تر سازو سامان ِ حیات کے ساتھ دھنس جائیں اور اقوام ِ عالم کی تاریخ میں ایسا بار ہا ہوا ہے ۔
”مکروا السیئات“ گھٹیا مقاصد اور غلط اہداف تک پہنچنے کے لئے سازشیں کرنے اور منصوبے بنانے کے معنی میں جیسا کہ مشرکین نور قرآن کو خاموش کرنے ، پیغمبر اسلام کو ختم کرنے اور مومنین کو اذیت دینے کے لئے سازشیں کرتے تھے ۔
”یخسف“ خسف“( بر وزن ”وصف“) کے مادہ سے پنہاں ہونے اور مخفی ہونے کے معنی میں ہے اسی لئے چاند کی روشنی جب زمین کے سائے میں چھپ جائے تو اسے ” خسوف“ کہتے ہیں ۔نیز مخسوف“ اس کنویں کو کہتے ہیں جس میں پانی چھپ جائے اسی طرح انسان اور مکان زلزلے وغیرہ سے پیدا ہونے والے زمین کے شگاف میں چھپ جائیں تو اسے ”خسف“کہتے ہیں ۔
اس ے بعد قرآن مزید کہتا ہے : یا جب وہ غفلت میں ہوں اور عذاب الہٰی ایسی جگہ سے آپہنچے جہاں سے انھیں توقع ہی نہ ہو ۔
(اَوْ یَاٴْتِیَھُمْ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَیَشْعُرُونَ ) ۔
یا جس وقت وہ زیادہ مال جمع کرنے کے لئے دور دھوپ کر رہے ہیں انھیں عذاب دامن گیر ہو جائے ( اٴَوْ یَاٴْخُذَھُمْ فِی تَقَلُّبِھِم) ۔جبکہ وہ کہیں بھاگ بھی نہ سکیں ( فَمَا ھُمْ بِمُعْجِزِینَ) ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ”معجزین “”اعجاز“کے مادہ سے ناتواں اور عاجز کرنے کے معنی میں ہے ۔ ایسے مواقع پر یہ عذاب کے چنگل سے فرار کرنے کے معنی میں ہے ۔
یا یہ کہ عذاب الہٰی اچانک ان تک نہ پہونچے بلکہ تدریجی طور پر پے در پے تنبیہوں کے بعد انھیں اپنی گرفت میں لے ( اٴَوْ یَاٴْخُذَھُمْ عَلَی تَخَوُّفٍ) ۔
آج ان کا ہمسایہ کسی سانحے کا شکار ہوا ، کل ان کے کسی باغ کو نقصان پہنچا اگلے روز ان کے کچھ اموال ضائع ہوگئے خلاصہ یہ کہ یکے دیگرے انھیں تنبیہیں کی گئیں وہ بیدار ہو گئے تو کیا خوب ورنہ آخری اور اصلی انھیں اپنی گرفت میں لے لے گا ۔ کسی گروہ کے لئے ایسے مواقع پر عذاب اور سزا تدریجی اس لئے ہے کہ ابھی اس میں احتمال ِ ہدایت موجود ہے اور خدا کی رحمت اجازت نہیں دیتی کہ اس کے ساتھ دوسروں کا سا سلوک کیا جائے کیونکہ تمہارا پر وردگار روٴف اور رحیم ہے ( فَإِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ زیر بحث آیات میں چار قسم کی سزاوٴں کاتذکرہ ہے :
پہلی ” خسف“ اور زمین دھنس جانا۔
دوسری بے خبری میں ایسی جگہ سے عذاب آنا کہ جہاں سے توقع نہ ہو۔
تیسری اس وقت عذاب آپہنچا جب انسان مال و دولت جمع کرنے کی دھن میں مگن تھا ۔ چوتھی تدریجی سزا اور تدریجی عذاب ۔
مسلم ہے کہ چار قسم کی ان سزاوٴں میں سے ہر ایک کسی خاص قسم کے گناہ سے مناسبت رکھتی ہے اگر چہ یہ سب گناہ گار ”الذین مکروا السیئات “ ( ایسے لوگ جو گھٹیا سا زشیں کرتے اور غلط منصوبے بناتے ہیں )کامصداق ہیں ۔ مختلف گناہوں پر یہ مختلف سزائیں اس لئے ہیں کہ خدا کے تمام کام حکمت کے مطابق اور استحقاق کی مناسبت سے ہوتے ہیں ۔
جہاں تک ہماری نظر ہے ، ا س سلسلے میں مفسرین نے کوئی بات نہیں کہی لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ :
پہلا عذاب سازشیوں کے اس گروہ کے لئے مخصوص ہے جو خطر ناک ، جابر اور مستکبرہیں جیسے قارون ۔خدا ان لوگوں کو اقتدار اور طاقت کی ایسی بلندی سے نیچے کھینچتا ہے اور انھیں زمین کی گہرائیوں میں سے اس طرح سے دھنسا دیتا ہے کہ وہ سب کے لئے باعث ِ عبرت بن جاتے ہیں ۔
دوسرا عذ اب ایسے سازشیوں کے لئے مخصوص ہے کہ جو عیش ونوش میں سر مست ہوں اور جو سر کش ہواو ہوس میں غرق ہوں عذاب ِ الہٰی اچانک ایسی جگہ سے انھیں آپکڑ تا ہے کہ جہاں سے انھیں توقع تک نہیں ہوتی ۔
تیسرا عذاب دنیا پرست زراند وز لوگوں کے لئے مخصوص ہے ایسے لوگ کہ جو شب و روز ا س کو شش میں ہیں کہ جیسے بھی ممکن ہو او رجس جرم اور ظلم سے ہو سکے اپنی دولت میں ضافہ کریں یہ لو گ ما ل و دولت جمع کرنے میں لگے ہوتے ہیں کہ عذاب ِ الہٰی انھیں آجکڑتا ہے ۔ ۱
چوتھا عذاب ایسے لوگوں کے لئے جو طغیان و سرکشی اور سازش و گناہ میں اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ اب ان کے لوٹ آنے کی اور کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس مقام پر ” تخوف“ تنبیہ و تہدید کے ذریعے اللہ تعالیٰ انھیں بیدار کرتا ہے ، وہ بیدار ہو جائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو بہتر ورنہ انھیں دہن عذاب میں ڈال دیتا ہے ۔ خدا کی راٴفت و رحمت کا ذکر ایک علت کے طور پر چوتھے گروہ سے مر بوط ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ابھی خدا سے اپنے تمام رشتے منقطع نہیں کئے اور اپنی واپسی کے تمام راستے ابھی تباہ نہیں کئے ۔

 


۱۔ لغت عرب میں ” تقلب“ اگر چہ ہر قسم کی آمد و رفت کے معنی میں ہے لیکن جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے اور بعض اسلامی روایات میں بھی تاکید کی گئی ہے ایسے مواقع پر نجات اور کسب ِ مال کے لئے آمد و رفت کے معنی میں ہے ( غور کیجئے گا ) ۔
سوره نحل/ آیه 48 - 50 سوره نحل/ آیه 45 - 47
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma