معاد اور اختلافات کا خاتمہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 41 - 42 شان نزول

معاد اور اختلافات کا خاتمہ
گذشتہ آیات توحید اور رسالتِ انبیاء کے بارے میں تھیں ۔ زیر بحث آیات میں مباحثِ توحید کے ایک پہلو کاذکر ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے : وہ تاکیدکے ساتھ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ مر جانے والون کو خد اہرگز مبعوث نہیں کرے گا اور انھیں حیات نو عطا نہیں کرے گا (وَاٴَقْسَمُوا بِاللهِ جَھدَ اٴَیْمَانِھمْ لاَیَبْعَثُ اللهُ مَنْ یَمُوتُ) ۔
بغیر کسی دلیل کے ان کا یہ انکار اور بھی تاکیدی قسموں کے ساتھ ان کی نادانی اور جہالت کی نشانی ہے لہٰذا ان کے جواب میں قرآن کہتا ہے : یہ خد اکا قطعی وعدہ ہے ( کہ وہ تمام مر نے والوں کو حیات نو عطا کرے گا تاکہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ دکھ لیں ) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے اور نہ جاننے کی وجہ سے انکار کردیتے ہیں ( بَلَی وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ) ۔
بلی ٰ“ ( جی ہاں) ”حقاً “ اور اس کے بعد وعدہ کا ذکر ، وہ وعدہ کہ جو خدا کی طرف سے ہے ۔ معاد کی تاکید اور قطعیت کی دلیل ہیں ۔
اصول طور پر جو شخص کسی حقیقت کا قاطعیت کے ساتھ انکار کرے اس جواب بھی قاطعیت کے ساتھ دیا جانا چاہئیے تاکہ اس انکار کے برے نفسیاتی اچرات اثباتِ قاطع کے ذریعہ دور ہو سکیں اور یہ بات واضح ہو جائے کہ اس کی طرف سے نفی ، بے خبری اور نادانی کی وجہ سے ہے ۔ اس طرح انکار اپنا اثر بالکل کھو دے گا ۔
اس کے بعد معاد و قیامت کا مقصد اور اس پر خدا کی قدرت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس امر کی نشاندہی کی جائے کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حیات نو قدر خدا میں نہیں ہے تو یہ ان کا بہت بڑا اشتباہ ہے اور اگر ان کا خیال ہے کہ معاد و قیامت بے مقصد ہے تو یہ بھی ان کی بہت بڑی غلطی ہے ۔
فرمایا گیا ہے : خدا مر نے والوں کو مبعوث کرے گا تاکہ جو چیز کے بارے میں وہ اختلاف کرتے تھے ان کے سامنے واضح کردے (لِیُبَیِّنَ لَھُمْ الَّذِی یَخْتَلِفُونَ فِیہ) ۔اور اس لئے کہ وہ جان لیں کہ وہ اس حقیقت کا جھوٹ انکار کرتے تھے ۔
( وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ کَفَرُوا اٴَنّھُمْ کَانُوا کَاذِبِینَ ) ۔
کیونکہ وہ جہان تو ایسا ہے جس میں پر دے ہٹ جائیں گے ، اور حقائق آشکار ہو جائیں گے ۔
جیسا کہ سورہ ق ٓ کی آیت ۲۲ میں ہے :۔
لقد کنت فی غفلة من ھٰذا فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید
انسان سے کہا جائے گا کہ تو اس دن کے بارے میں غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیری آنکھوں کے سامنے سے پر دہ اٹھا دیا ہے اور آج تو خوب دیکھتا ہے ۔
سورہ طارق کی آیہ ۹ میں ہے :۔
یوم تبلی السرائر
قیامت ایسا دن ہے کہ جب رازہائے پنہاں آشکار ہو جائیں گے ۔
نیز سورہ ابراہیم کی آیت ۴۸ میں ہے :
وبرزوا للہ الواحد القھار
اس روز سب کے سب خدا ئے واحد و قہار کی بار گاہ میں حاضر ہو ں گے ۔
خلاصہ یہ کہ وہ دن شہود ،کشف ِ اسرار اور ظہور کا دن ہے ۔ اس روز پنہاں چیزیں آشکار ہو جائیں گی ایسے حالات او رماحول میں اختلاف ِ عقیدہ کا کوئی معنی نہیں ہے اگر چہ ممکن ہے کہ بعض ہٹ دھرم من کر اپنے آپ کو بچانے کے لئے جھوٹے سہارے لینے کی کوشش کریں لیکن یہ ایک استثنائی اور زود گزر امر ہے یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی مجرم کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے تواپنے تمام جرائم کا انکار کردے لیکن جب فوراً ٹیب ریکارڈ لگار کر اس کی آواز اسے سنائی جائے اس کے دستخظ اسے دیکھائے جائیں اور واضح ثبوت اس کے سامنے پیش کیے جائیں اور اسے ساتھ لے جاکر ، اس کے جرم کے آثار ، موقع و محل دکھا یا جائے تو اب جائے کلام باقی نہ رہے گی اور وہ اقرار کرلے گا ۔ عالم قیامت میں حقائق کا ظہور اس سے بھی زیادہ واضح اور آشکار ہو گا ۔
موت کے بعد کی زندگی اور قیامت کے مختلف اہداف و مقاصد ہیں جن کی مختلف مقامات پر آیات قرآنی میں نشاندہی کی گئی ہے مثلا ً انسان کا تکامل و ارتقاء ، اجرائے عدالت ، اس جہان کی زندگی کو با مقصد بنانا، فیض ِ الٰہی کو جاری وساری رکھنا وغیرہ ۔
زیر بحث آیت ایک اور مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے اور وہ ہے اختلافات کو دور کرنا اور توحید طرف لوٹنا ۔
ہم جانتے ہیں کہ بہترین اصل کہ جو سارے عالم پر حکمران ہے وہ اصل توحید ہے ۔ یہ وسیع اور ہمہ گیر اصل خدا کی ذات ، صفات اور افعال پر صادق آتی ہے سارے عالم خلقت اور قوانین آفرینش پر بھی یہ اصل حکمران ہے اور ہر چیز کو آخر کار اسی اصل کی طرف پلٹنا چاہیئے لہٰذا ہماراعقیدہ ہے کہ یہ اختلافات اور اور نزاعات ایک دن ختم ہ وجائیں گے اور ساری دنیا کے لوگ ایک حکومت کے پرچم تلے جمع ہو جائیں گے اور یہ حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت ہو گی کیونکہ عالم ہستی کی روح یعنی توحید کے بر خلاف جو کچھ بھی ہے اسے آخر ایک دن ختم ہو نا جا چاہئیے ۔
لیکن عقائد کا یہ اختلاف دنیاسے مکمل طور پر ختم کبھی بھی ختم نہیں ہو گا کیونکہ یہ عالم غطا ہے یہاں بہت کچھ پر دے میں ہے ۔
البتہ ایک دن آئے گا کہ جب یہ پر دے ہٹ جائیں گے اور وہ ”یوم ظہور “ ہے ۔ اس بناء پر معاد کا ایک ہدف یہ ہے کہ سب وحدت کی طرف پلٹ آئیں اور تمام اختلافات ختم ہو جائیں ۔ اسی ہدف کی طرف مذکورہ بالا آیت میں اشارہ ہوا ہے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اس مسئلے کی تکرار اور تاکید موجود ہے کہ خدا وند عالم روز قیامت لوگوں کے درمیان عدالت کرے گا اور اختلا فات ختم ہو جائیں گے ۔ 2
دوسرا نکتہ ایک اور حقیقت پر مبنی ہے وہ یہ کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کی بازگشت اور نئی زندگی محال ہے تو یہ جان لیں گے قدرت خدا اس سے برتر اور بالاہے ”جب ہم کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو فقط یہ کہتے ہیں کہ ”ہو جا“ تو وہ فورا ً موجود ہو تی ہے “ (إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا اٴَرَدْنَاہُ اٴَنْ نَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ) ۔
ایسی قدرت کاملہ کہ جس میں صرف”ہو جا “ کا فرمان ہر چیز کے وجود کے لئے کافی ہو تو پھر اس کے لئے مردوں کے حیات ِ نو عطا کرنے کی قدرت کے بارے میں تردد و شک کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔
شاید وضاحت کی ضرورت نہ ہوکہ ”کن“( ہوجا)کی تعبیر بھی تنگی بیان کی وجہ سے ہے ورنہ خدا کے لئے ”کن “کی ضرورت نہیں ۔اس کا ارادہ ہی کام کا ہوجانا ہے ۔ اس کی ناقص سی مثال اپنی زندگی سے پیش کرنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ ہم ارادہ کرتے ہیں کس چیز کے تصور کا تو وہ ہمارے ذہن میں ایجا د ہو جاتا ہے ہم اگر کسی عظیم پہاڑ، وسیع ، سمندر، ، درختوں سے بھرے بہت بڑے باغ یا ایسی کسی چیز کا تصور کرنا چاہیں توہمارے لئے کیا مشکل ہے کیا اس کے لئے ہمیں کسی جملے اور لفظ کی احتیاج ہے ؟ ان موجودات تصویرکی تو صرف تصور ہی سے ہمارے صفحہ ذہن پر ابھر آتی ہے ۔ تو اسی طرح خدا کے ”ہو جا“ کہے بغیر ، صرف ارادہ سے چیز موجود ہو جاتی ہے ۔
امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے کہ ایک صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ خدا کے ارادہ او ر مخلوق کے ارادہ کے بارے میں وضاحت فرمائیے تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا :
مخلوق کا رادہ باطنی ہے اس کے بعد افعال ہیں کہ جو بعد میں آشکار ہو تے ہیں لیکن خدا کا ارادہ ہی اس کی ایجاد ہے نہ کہ اس کا غیر ، کیونکہ خدا میں سوچ بچار ، تصمیم اور فکر و نظر نہیں ہے (کیونکہ یہ صفات زائد بر ذات ہیں ) خدا کے بارے میں ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں ہے یہ مخلوقات کی صفات ہیں لہٰذا خد اکا ارادہ ہی ایجاد ، افعال ہے ۔ فقط خدا کہتا ہے : ”ہوجا“ تو وہ ہو جا تاہے بغیر کوئی لفظ ادا کئے ، اسے زبان سے ادا کرنے ، کمر ہمت باندھنے اور غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔3

 

 


1۔ تفسیر مجمع البیان ، تفسیر قرطبی اور تفسیر ابو الفتوح رازی ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔
2۔اس سلسلے میں آل عمران کی آیہ ۵۵، مائدہ کی ۴۸، انعام کی ۱۶۴، نحل کی ۹۲، اور حج کی ۶۹ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
3۔اصول کافی جلد ۱ ، باب الارادہ، حدیث نمبر ۳۔
سوره نحل/ آیه 41 - 42 شان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma