جو دوسروں کے گناہ اپنے کندھے پر لاد لیتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۱۔اچھی اور بری نیتشان نزول

جو دوسروں کے گناہ اپنے کندھے پر لادلیتے ہیں


گذشتہ آیات میں ان مستکبرین کے بارے میں گفتگو تھی کہ جو کبھی بھی حق کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح حق قبول کرنے سے بچ جائیں ۔
زیر نظر آیات میں اس بے ایمان گروہ کی دائمی منطق بیان کرنے سے بچ جائیں ۔ زیر نظر آیاتاس بے ایمان گروہ کی دائمی منطق بیان کیا گئی ہے ارشاد ہوتا ہے : جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پر وردگار نے کیا چیز نازل کی ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی وحی نہیں ہے یہ تو وہی اگلے لوگوں کے افسانے ہیں ۔
( وَإِذَا قِیلَ لَھمْ مَاذَا اٴَنزَلَ رَبُّکُمْ قَالُوا اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔
اس تکلیف دہ بات کے ساتھ دو باتیں وہ اور بھی کہتے ۔ پہلی یہ کہ ہمار ی سطح فکر ان مسائل سے بہت بلند ہے یہ باتیں تو افسانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھیں جو عوام کو مشغول رکھنے کے لئے گھڑی گئی ہیںدوسری یہ کہ یہ کو ئی نئی باتیں نہیں ہیں کیونکہ یہ پہلا موقع نہیں کہ کوئی انسان ایسی باتیں سنائے کہ ہم کہیں کہ محمد نے کوئی ایجاد کی ہے یا کوئی اپنی نئی تخلیق کی ہے یہ تو انہیں گذشتہ لوگوں کی فضول باتوں کا تکرار ہے ” اساطیر“ ” اسطور“1۔
کی جمع ہے یہ لفظ فضول اور جھوٹے قصے کہانیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ نو مرتبہ انبیاء کے مقابلے میں بے ایمان کافروں کا زبانی نقل ہوا ہے وہ لوگ اکثر اوقات ہادیانِ الہٰی کی دعوت کے جواب میں اپنی مخالفت کی توجیہ اور بہانے کے لئے اس لفظ کا سہارا لیتے تھے تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمیشہ لفظ ” اساطیر“ کے ساتھ ”اولین “ کو بھی صفت کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ تاکہ ثابت کریں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہاں تک کہ کبھی تویہ بھی کہتے کہ :
یہ کوئی اہم چیز نہیں ہے ہم بھی اگر چاہیں تو ان جیسی باتیں کر سکتے ہیں ۔ (انفال۳۱)
یہ بات جاذب توجہ ہے کہ آج کے مستکبرین بھی اکثر اوقات حق سے فرار کرتے ہوئے تکلیف و اذیت دینے کے لئے نیزدوسروں کو گمراہ کرنے کے لئے ایسی ہی باتیں کرتے ہیں یہاں تک کہ انھوں نے معاشرہ شناسی کے نام پر کتابیں لکھی ہیں اور اپنے ان نظر یات کو علمی شکل میں پیش کیا ہے انھوں نے مذہب کو انسانی جہالت کی کی پیدا وار اور مذہبی تفاسیر و تسریحات کو افسانے اور قصے کہانیاںقرار دیا ہے لیکن اگر ان کی فکر کی گہرائیوں میں اتر کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مسئلہ کچھ اور ہے اوریہ لوگ فضول اور جعلی مذاہب کے خلاف مصروفِ جنگ نہیں بلکہ یہ خود ان کی پیدا ئش اورنشر و اشاعت کا عامل ہیں ۔
ان کی مخالفت صرف سچے مذاہب کے ساتھ ہے کہ جو انسانی افکار کو پیدا کرتے ہیں ۔ سامراج و استعمار کی زنجیریں توڑتے ہیں اور مستکبرین اور استعمار گروں کےلئے سدّ راہ ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ مذہبی تعلیمات ان کے منصوبوں کے خلاف ہیں کیونکہ وہ عدل و انصاف کے برخلاف مذہب کے اخلاقی احکام سر کش ہواو ہوس اوربے سروپا آزاد یوں سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ ان سب پہلووٴں کو جب وہ مجموعی طور پر دیکھتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ اس رکاوٹ کو راستے سے ہٹا دیں یقینا اپنے اس کام کے لئے انھیں ایک جواب کی بھی ضرورت ہے جو وہ لوگوں کو دے سکیں لہٰذا ان کے لئے ا س سے بہتر کونسا جواب ہے کہ ان تعلیمات کو جھوٹے افسانے قرار دے لیں ۔
افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ ا ن لوگوں کو کامیاب کرنے میں ان خرافات کا بہت ہاتھ ہے جنھیں بعض اوقات ناداں اور ناآگاہ افراد گھڑتے ہیں اور انھیں مذہب کے سانچے میں ڈھال کر مذہب کے نام پیش کرتے ہیں ۔
مذہب کے تمام حقیقی طرفداروں پر لازم ہے کہ وہ ایسی خرافات کا شدت سے مقابلہ کریں اور ان کے خلاف جنگ کریں اور دشمنوں کا غیر مسلح کردیں یہ حقیقت ہر گز لکھیں او ر کہیں کہ اس قسم کی خرافات سچے مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور دشمن کو انھیں سند نہیں بنانا چاہئیے ۔ اصول عقائد اور مسائل عملی کے بارے میں انبیاء کی تعلیمات عقل و منطق سے اس قدر ہم آہنگ ہیں کہ ان کے لئے اس قسم کی تہمتوں کی کوئی گنجائش نہیں ۔
اگلی آیت میں ان دل کے اندھوں کے اعمال کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے : روز قیامت یہ لوگ اپنے گناہوں کا بوجھ پوری طرح اپنے دوش پر اٹھائیں گے اور ایک حصہ ان لوگوں کے گناہوں کا بھی کہ جنہیں جہالت کی وجہ سے انہوں نے گمراہ کیا ہے ( لِیَحْمِلُوا اٴَوْزَارَھُمْ کَامِلَةً یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَمِنْ اٴَوْزَارِ الَّذِینَ یُضِلُّونَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ) ۔
جان لو کہ وہ بد ترین بوجھ اور ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا ئے ہوں گے ( اٴَلاَسَاءَ مَا یَزِرُونَ ) ۔
کیونکہ بعض اوقات ان کی گفتگو ہزاروں افراد کی گمراہی کا سبب بن جاتی ہے ۔
کس قدر دشوار ہے انسان اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے گندھے پر اٹھائے ہزاروں دوسرے افراد کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے اور اگر ان کی گمراہ کن باتیں بعد کی نسلوں کی گمراہی کا سر چشمہ بناجائیں تو ان کا بوجھ بھی ان کے کندھے پر پڑے گا ۔
لیحملوا“ ( چاہئیے کہ اس بوجھ کو کندھے پر اٹھائیں )یہ لفظ صیغہ امر کی شکل میں ہے جس کا مقصد نتیجہ اور انجام کار بیان کرنا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم کسی سے کہیں کہ اب جب کہ یہ غلط کا م تو نے انجام دیا ہے تو اس کا نتیجہ بھی بھگتواور اس کی تلخی بھی چکھو ۔
بعضمفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ ” لیحملوا “ کی لام لامِ عاقبت ہے ۔
”اوزار“ ”وزر“ کی جمع ہے اس کا معنی بھاری بوجھ ۔ یہ لفظ گناہ کے معنی میں بھی آیا ہے اور یہ جو” وزیر“ کو ”وزیر“ کہا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہوتی ہے ۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ قرآن کس طرح کہتا ہے کہ کچھ افراد کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے کندھے پر اٹھاتے ہین جنہیں انھوں نے گمراہ کیا ہے ۔
قرآن نے یہ نہیں کہا کہ” ان کے تمام گناہ “ حالانکہ روایات میں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی برے کام کی بنیاد رکھے تو جتنے لوگوں نے اس پر عمل کیا ان کے سب کا گناہ بنیاد رکھنے والے کے کندھے پر ہو گا ۔
بعض مفسرین کے اس سوال کے جواب میں کہا ہے کہ گمراہ پیروکاروں کے دو قسم کے گنا ہ ہوتے ہیں ایک وہ کہ جن کا ار تکاب وہ اپنے ہبروں کی پیروی میں کرتے ہیں اور دوسرے وہ کہ جو خود سے بجا لاتے ہیں جبکہ رہبروں کے کندھے پہلی قسم کے گناہوں کا بوجھ ہے ۔
بعض نے مندرجہ بالا آیت میں لفظ ” من “ لو تبعیض کے لئے نہیں لیا بلکہ ”من“ کو اس بات کا بیان سمجھا ہے کہ پیروکاروں کے گناہ رہبروں کے دوش پر ہیں ۔
لیکن ایک اور تفسیر بھی نظر آتی ہے جو ان سب سے زیادہ دلچسپ ہے اور وہ یہ ہے کہ گمراہ پیروکاروں کی دو حالتیں ہیں ، بعض اوقات وہ جانتے بوجھتے ہوئے ان منحرف اور کج رہبروں کے پیچھے جاتے ہیں اور ان کے مثالیں پوری تاریخ میں بہت ہیں اس صورت میں گناہ کا عامل رہبروں کا حکم بھی ہے اور ان کا اپنا ارادہ بھی ۔ یہ مقام کہ جہاں ان کے گناہوں کی ذمہ داری کا ایک حصہ رہبروں کے کندھے پر ہے ۔ ( بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں سے کسی چیز کی کمی ہو) ۔لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پیرو کار مائل راغب نہیں ہوتے بلکہ انھیں غفلت میں ڈالا جاتا ہے اور وہ گمراہ رہبروں کے وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں بہت سے معاشروں میں عوام میں اس کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں ہو سکتا ہے کبھی وہ ایسے کاموں میں ” تقرب الیٰ اللہ “ کی نیت سے شریک ہوں اس صورت میں ان کے تمام گناہوں کا بوجھ گمراہ پیشواوٴں کے کندھے پر ہے اور اگر ایسے پیروں کاروں نے تحقیق میں کوتاہی نہ کی ہو تو جوابدہ نہیں ہیں لیکن وہ لوگ جنہوں نے علم و آگہی ہوتے ہوئے گمراہ پیشواوٴں کی پیروی کی یقینا ان کے گناہوں میں سے سوئی کے سرے کے برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی جبکہ ان کے پیشواوٴں کے کندھے پر بھی ذمہ داری کا ایک حصہ ڈالا جائے گا ۔
اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ”بغیر علم “ کے الفاظ اس بات کی دلیل نہیں کہ ان گمراہوں کے پیروکار اپنے رہبروں کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے اور وہ بالکل ہی غافل تھے کہ اس طرح کی کوئی ذاتی ذمہ داری ہی نہ ہو بلکہ یہ تعبیرات اس بات کی طرح ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ جاہل و ناداں افراد اغوا کرنے والوں کے جال میں جلدی پھنس جاتے ہیں لیکن دانا اور سمجھ دار لوگ بہت دیر میں ۔
اسی لئے قرآن نے دوسری آیات میں ان پیروکاروں کا بر ی الذمہ نہیں قرار دیا بلکہ ذمہ داری کا ایک حصہ ان کے کندھے پر رکھا ہے چنانچہ سورہ ٴ مومن کی آیہ ۴۷ اور ۴۸ میں ہے :۔
و اذیتحاجون فی النار فیقول الضعفاء للذین استکبروا اناکنا لکم تبعاًفھل انتم مغنون عنا نصیباً من النار قال الذین استکبروا اناکل فیھا ان اللہ قد حکم بین العباد۔
گمراہ کرنے والے اور گمراہ ہونے والے آپس میں دوزخ میں بحث و مباحثہ اور جھگڑا کریں گے نادا ں اور کمزور پیر و کار ، مستکبرین سے کہیں گے ہم تمہارے پیرو تھے تو کیا آگ کا کچھ حصہ ہماری طرف سے تم قبول کروگے وہ جواب میں کہیں گے :ہم سب دوزخ میں خدانے اپنے بندوں میں ( عادلامنہ ) فیصلہ کیا ہے ۔
بعد والی آیت میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ مستکبرین ہادیانِ الہٰی پر تہمت لگارہے ہیں اور آسمانی وحی کو ” اساطیر الاولین “ ( پہلے لوگوں کے افسانے ) شمار کرتے ہیں بلکہ ان سے پہلے بھی ایسی سازشیں کرتے تھے لیکن خدا ان کی زندگی کی بنیاد کی طرف گیا اور اسے بنیاد سے اکھیڑ دیا اور اوپر سے ان کے سروں پر چھت گر ادی ( قَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَاٴَتَی اللهُ بُنْیَانَھُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْھِمْ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِھِمْ ) ۔
اور عذاب الہٰی ادھر سے ان کی طرف آیا جدھر کا انھیں وہم و گمان بھی نہ تھا (وَاٴَتَاھُمْ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَیَشْعُرُونَ) ۔
بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر نمرود کے ایک واقعہ سے کی ہے اس نے ایک عمارت بنائی تھی تاکہ آسمان کی طرف چڑھ کر آسمانی خدا سے مقابلہ کرے ۔
بعض دیگر مفسرین نے اسے بخت النصر کے واقعہ کی طرف اشارہ قرار دیا ہے ۔
لیکن مسلم ہے کہ آیت کا مفہوم عام ہے اور اس میں تمام مستکبرین اور گمراہ رہبر شامل ہیں ۔
یہ بات جاذب توجہ ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ خدا ان مستکبرین کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے ان کی عمارت کے سامنے کے حصے کی طرف سے اقدم نہیں کرتا بلکہ ان کی جڑ اکھاڑ نے اور بیخ کنی کے لئے اقدام کرتا ہے اور چھتوں کو ان کے سروں پر گراتا ہے جی ہاں ایسے لوگوں کے لئے خدائی سزا ایسی ہی ہوتی ہے ۔
عمارت کو بنیاد سے اکھاڑ پھینکنااور چھت کو نیچے گرانا ہو سکتا ہے ظاہری طور پر عمارتوں اور چھتوں کی طرف اشارہ ہو کہ جو زلزلوں اور بجلیاں گرنے سے تباہ و برباد ہو جائیں اور ان کے سروں سے آگریں یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے ارادوں اور ڈویلیمنٹ کی طرف اشارہ ہو کہ جو حکم ِ خدا سے جڑ سے اکھاڑ پھینکی گئیں اور تباہ و بر باد ہو گئیں ۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ آیت دونوں معانی کی طرف اشارہ ہو ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن لفظ” سقف“ کے بعد ” من فوقھم“ کہتا ہے حالانکہ مسلم ہے کہ چھت ہمیشہ اوپر کی طرف ہوتی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تاکید کے لئے بھی ہو اور یہ نکتہ بیان کرنا بھی مقصود ہو کہ بعض اوقات چھت نیچے گرے لیکن صاحب خانہ چھت کے نیچے نہ ہو جب کہ ان ظالموں پر چھت گری تو وہ اس کے نیچے تھے اور وہ نابود ہو گئے آج کی اور گذشتہ تاریخ میں اس خدائی سزا کے کس قدر مناظر موجود ہیں ۔
کئی طاقت اور جابر حکمراں ہیں جو اپنے محل ِ اقتدار کو اس قدر مستحکم سمجھتے تھے کہ انھوں نے صرف اپنے لئے بلکہ اپنی اولاد کے لئے مستقبل کے لئے بھی اس کے منصوبے بنارکھے تھے ان کے پروگرام مکمل تھے اور ظاہراً انہوں نے اپنے اقتدار اور نظام کی بقا اور حفاظت کے پورے انتظامات کر رکھے تھے لیکن اچانک اس طرف سے عذاب الہٰی ان کی طرف آیا جدھر سے وہ تصور بھی نہ کر سکتے تھے اور ان کے اقتدار کی چھت ان کے سر پر آگری اور وہ یوں نابود و منتشر ہوئے گویا وہ صفحہ ارض پر تھے ہی نہیں ۔ جو کچھ کہا گیا وہ ان کے لئے دنیاوی عذاب ہے لیکن ان کی سزا یہییں پرختم نہیں ہو جاتی بلکہ ان کے بعد روز قیامت بھی خدا انھیں رسوا کرے گا ( ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یُخْزِیھِمْ ) ۔وہاں ان سے پوچھے گا اور کہے گا کہاں ہیں تمہارے وہ شریک جو تم نے میرے لئے بنائے تھے ، اور ان سے تمہیں بڑی عقیدت تھی اور ان کی وجہ سے تم دوسروں سے جنگ و جدال کرتے تھے بلکہ دشمنی پر تل جاتے تھے ۔ “(وَیَقُولُ اٴَیْنَ شُرَکَائِی الَّذِینَ کُنْتُمْ تُشَاقُّونَ فِیھِمْ)2۔
یقینا اس سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہے لیکن موقع پر اہل علم لب کشائی کریں گے اور کہیں گے ۔ شرمندگی ، رسوائی اور بد بختی آج کے دن کفار کے لئے (وَقالَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَی الْکَافِرِینَ) ۔
یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ روز قیامت گفتگو علماء کریں گے کیونکہ اس عظیم بار گاہ میں ایسی گفتگو کرنا چاہئیے جس میں کوئی غلطی نہ ہو اور ایسا اہل ایمان علماء کے سوا کسی سے نہیں ہو سکتا ۔یہ جو بعض روایات میں اس سے مراد آئمہ اہل بیت (علیہ السلام) لئے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ”با ایمان علماء “ کا بہترین مصداق ہےں ۔ 3۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ مشر کین اور علماء کے درمیان اس سوال و جواب کا ردّ و بدل کسی پنہاں بات کو ظاہر کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ بھی مشرکین کے لئے ایک قسم کی نفسیاتی سزا اور عذاب ہے خصوصاً آگاہ مومنین اس جہاں میں ہمیشہ ان مفرور مشرکین کی ملامت کا نشانہ بنتے رہے تھے اور وہاں یہ مفرور اپنی سزا بھی اسی کیفیت سے پائیں گے انھیں بھی ملامت کی جائے گی جبکہ وہ ایسی جگہ پر ہوں گے جہاں وہ نہ انکار کرسکتے ہوں گے اور نہ وہاں سے نکل سکتے ہوں گے ۔
گذشتہ آیت کے آخر میں جن کفار کا ذکر تھا اگلی آیت کے بارے میں انہی کا ذکر ہے یہ ذکر در اصل ایک ہلادیتے والا اور غافل افراد کو بیدار کرنے والا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے وہ ایسے لوگ ہیں کہ موت کے فرشتے اس عالم میں ان کی روحیں قبض کرتے ہیں جبکہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہوتا ہے ( الَّذِینَ تَتَوَفَّاھُمْ الْمَلاَئِکَةُ ظَالِمِی اٴَنفُسِھِمْ) ۔
انسان جو ظلم و ستم کرتا ہے ، پہلے مرحلے میں وہ خود اسی پر ہوتا ہے اور دوسروں کے گھر سے پہلے وہ اپنا ہی گھر ویران کرتا ہے کیونکہ ظلم کا پہلا قدم یہ ہے کہ خود ظلم کرنے والے کی باطنی خوبیاں اور اس کی اپنی صفات بر باد ہو جاتی ہیں ۔ علاوہ ازیں جن معاشرے میں ظلم کی بنیاد رکھی جائے اجتماعی اور معاشرتی رشتوں کے حوالے سے چکر لگا تا ہوا وہ ظلم خود ظالم کے گھر کی طرف پلٹ آتا ہے ۔
لیکن یہ ظالم جب اپنے آپ کو موت کی چوکھٹ پر دیکھتے ہیں اور غرور و غفلت کے پر دے ان کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹے ہو تے ہیں تو وہ فوراً مان لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے برا کام انجام دیا ہے ( فَاٴَلْقَوْا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ) ۔
وہ ہر قسم کے برے کام کا انکار کیونکر کریں گے ؟ کیا وہ جھوٹ بولیں گے ، اس لئے کہ بار بار جھوٹ بولنے کی وجہ سے جھوٹ ان کی ذاتی صفت بن گیا ہے یا کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم نے یہ کام انجام دئے ہیں لیکن ہم سے غلطی ہو گئی ہے اگر چہ ہماری نیت بری نہیں تھی ۔ ممکن ہے دونوں وجوہ ہوں ۔
مگر ان سے فوراً کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو تم نے بہت سے برے کام کئے ہیں جی ہاں ! اللہ تمہارے اعمال اور اسی طرح تمہاری نیتوں سے با خبر ہے ( بَلَی إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔لہٰذا اب انکار کرنے اور بہانے بنانے کی گنجائش نہیں ۔
اب جبکہ ایسا ہے تو جہنم کے در وازوں سے داخل ہو جاوٴ کہ تم نے اس میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہے ( فَادْخُلُوا اٴَبْوَابَ جَھَنَّمَ خَالِدِینَ فِیھا) ۔متکبرین کا ٹھکا نا کس قدر برا ہے (فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِینَ) ۔

 


۱۔بعض اسے جمع الجمع سمجھتے ہیں ان کے مطابق ”اساطیر“” اسطار“ ” سطر“ کی جمع ہے بعض کا نظریہ ہے کہ ”اساطیر “ وہ جمع ہے جس کا مفرد اس کی جنس میں سے نہیں ہے لیکن مشور وہی ہے جو ہم نے متن تفسیر میں بیان کیا ہے ۔
2۔”تشاقون “”شقاق“ کے مادہ سے مخالفت اور دشمنی کے معنی میں ہے اور اس کی اصل ”شق“ نصف کرنے ( اور شگافتہ کرنے ) کے معنی میں آیا ہے ۔
3۔تفسیر نور الثقلین جلد ۳ ص ۵۰ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
۱۔اچھی اور بری نیتشان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma