جن معبودوں کو وہ پکار تے ہیں وه مرده ہیں اور شعور نهیں رکهتے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 11
مستکبر کون ہیں ؟سوره نحل/ آیه 19 - 23

جن معبودوں کو وہ پکار تے ہیں وه مرده ہیں اور شعور نهیں رکهتے

گذشتہ آیات میں خدا کی ان دونہایت اہم صفات کی طرف اشارہ تھا جن میں سے کوئی بھی بتوں اور تراشے ہوئے معبودوں میں نہیں تھی یعنی موجودات کا خالق ہونا اور نعمتیں عطا کرنا ۔
زیر نظر پہلی آیت میں معبود حقیقی کی تیسری صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ ہے علم اور دانائی ۔ ارشاد ہوتا ہے: جسے تم پنہاں رکھتے ہو اور جسے تم آشکار کرتے ہو خدا سب کو جانتا ہے ( وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ) ۔پھر تم پھر بتوں کے پیچھے کیوں جاتے ہو کہ جن کا کائنات کی خالقیت میں ذرہ برابر بھی حصہ نہیں ۔ نہ جنہوں نے تمہیں کوئی چھوٹی سی چھوتی نعمت بخشی ہے اور نہ جو تمہارے پوشیدہ اسرار اور ظاہری اعمال کو جانتے ہیں یہ کیسے معبود ہیں کہ جن میں ضرورت کی ایک بھی صفت نہیں ۔
اس کے بعد قرآن دوبارہ مسئلہ ٴ خالقیت کی طرف لوٹتا ہے لیکن اس کے مشابہ آنے والی پہلی آیت سے بات کچھ آگے کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جن معبودوں کو وہ پکار تے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ کوئی چیز خلق نہیں کرتے بلکہ خود بھی مخلوق ہیں ۔
( وَالَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لاَیَخْلُقُونَ شَیْئًا وَھُمْ یُخْلَقُونَ ) ۔
اب تک تو بحث اس بارے میں تھی کہ وہ خالق نہیں ہیں لہٰذا لائق عبادت نہیں ہوسکتے اب فرمایا گیا ہے کہ وہ تو خود مخلوق ہیں ، نیاز مند ہیں ۔ اور اس صورت میں وہ انسانوں کا سہارا کیسے ہوسکتے ہیں ۔ کس طرح ان کی مشکل کشائی کرسکتے ہیں ؟یہ کیسا احمقانہ فیصلہ ہے ۔
علاوہ ازین وہ تو ” مردہ “ ہیں ۔ انھوں نے زندگی کی بو تک نہیں سونگی اور نہ ا س کی استعدا د رکھتے ہیں “( اٴَمْوَاتٌ غَیْرُ اٴَحْیَاءٍ ) ۔
کیا معبود کو موجود زندہ بھی نہیں ہو نا چاہئیے کہ جو اپنے عبادت کرنے والوں کی نیاز ، حاجت اور عبادت سے با خبر ہو ۔ لہٰذا معبود حقیقی کی چوتھی صفت یعنی ”حیات“ بھی ان میں بالکل نہیں ہے ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : یہ بت بالکل نہیں جانتے کہ ان کی عبادت کرنے والے کس وقت اور کس زمانے میں مبعوث ہوں گے (وَمَا یَشْعُرُونَ اٴَیَّانَ یُبْعَثُونَ ) ۔
ثواب اور جزا ان کے ہاتھ میں ہوتی تو انھیں کم از کم اپنے عبادت گزاروں کے پھر سے جی اٹھنے کا تو پتہ ہوتا ہے ۔ اس جہالت کے ہوتے ہوئے ہو کس طرح لائق عبا دت ہو سکتے ہیں یہ پانچویں صفت ہے جو معبود حقیقی میں ہونا چاہئیے جبکہ وہ اس سے محروم ہیں ۔۱۔
مشرکین اور ان کے بت دونوں ہی جہنم میں ہوں گے ۔
لیکن واضح ہے کہ اگر یہ مراد ہو تو پہلے اور بعد کی آیات میں مناسب ربط نہیں ہوگا لہٰذا صحیح تفسیر وہی ہے جو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں ( غور کیجئے گا ) ۔
اب تک ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہی کہ بت اور بت پرستی کا قرآن کی منطق میں وسیع مفہوم ہے ہر موجود یا ہر شخص جسے ہم خداکے بدلے سہارا قرار دے لیں اور اپنی تقدیر اس کے ہاتھ میں سمجھیں وہ ہمارا بت شمار ہو گا لہٰذا جو کچھ مندرجہ بالا آیات میں آیا ہے وہ ان لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو ظاہراً بت پرست نہیں ہے لیکن ایک سچے مومن کا سا استقلال نہیں رکھتے وہ وہ جو کمزور بندوں کو اپنا سہارا بنائے ہیں اور آزادی کی بجائے واسبتگی اور دوسروں پر انحصار کی زندگی گزارتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عالمی سوپر طاقتیں مشکلات میں ان سہارا بن سکتی ہیں جبکہ یہ طاقتیں جہنمی اور خدا سے بیگانہ ہیں ایسے لوگ بھی عملی طور بت پرست اور مشرک ہیں اور ہمیں ان سے کہنا چاہئیے کہ کیا تمہارے ان معبودوں نے کوئی چیز خلق کی ہے کیا وہ کسی نعمت کا سر چشمہ ہیں ؟ کیا یہ تمہارے اندرونی اسرار سے آگاہ ہیں ۔
کیا وہ جانتے ہیں کہ تم کب اپنی قبروں سے اٹھوگے کہ تمہیں تمہاری جزا یا سزا دے سکیں ۔ پس کیوں ان کی بتوں کی سی پرستش کرتے ہو ۔
بتوں کی صلاحیت کی نفی پر ان واضح دلائل کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : تمہارا الہ الہ واحدی ہے (إِلَھُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ) ۔
مبداء ومعاد چونکہ ہر جگہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں لہٰذا بلافاصلہ مزید فرمایا گیا ہے وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور فطرتامبداء کے بارے میں بھی ٹھیک ایمان نہیں رکھتے ۔ ( ان کے دل حقیقت کے منکر ہیں اور وہ حق کے مقابلے میں مستکبر بنے ہوئے ہیں ( فَالَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُھُمْ مُنکِرَةٌ وَھُمْ مُسْتَکْبِرُونَ) ۔2۔
ورنہ توحید کے دلائل تو متلاشیان ِ حق کے لئے اور حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں کے لئے آشکار ہیں ۔ ایس طرح معاد کے دلائل بھی واضح ہیں ۔ اسکبار اور تکبر اور حق کے سامنے سر نہ جھکانے کے سبب وہ ہمیشہ انکار ہی کرتے ہیں یہاں تک کہ حسی حقائق کے بھی منکر ہو جاتے ہیں ۔
یہاں تک کہ ان کا یہ طرز عمل ان میں رچ بس جاتا ہے اور اس کے عادت کے ہوتے ہوئے حق کی کوئی بات اور دلیل و منطق ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
بت ، پرستش کے لائق نہیں اس سلسلے میں گذشتہ آیات میں جو زندہ دلائل گزر چکے ہیں کیا وہ کافی نہیں کہ ہر ذی شعورتصدیق کر ے کہ بت لائق عبادت نہیں لیکن انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں یہ لوگ پھر بھی حقیقت قبول نہیں کرتے ۔
زیر بحث آخری آیت میں ہم پھر دیکھتے ہیں ۔ غیب و شہوداور پنہا ں و آشکار پر خدا کی آگاہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیاہے : جسے تم پنہاں رکھتے ہو اور جسے تم آشکار کرتے ہو یقینا خدا اس سے باخبر ہے ( لاَجَرَمَ اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ ) ۔
یہ جملہ در حقیقت کفار اور دشمنان حق کے لئے ایک دھمکی ہے کہ خدا تمہاری حالت سے ہر گز غافل نہیں ہے وہ نہ صرف ان کے ظاہر کو جانتا ہے بلکہ ان کے باطن سے بھی آگاہ ہے اور موقع آنے پر ان سے حساب لے گا ۔
وہ مستکبر ہیں اور ” خدا مستکبرین کوپسند نہیں کرتاs (إِنَّہُ لاَیُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِینَ) ۔کیونکہ حق کے سامنے استکبار اور تکبر خدا سے بیگانگی کی پہلی دلیل ہے ۔
لفظ ”لا جرم “ ” لا“ اور ” جرم “ کا مرکب ہے یہ لفظ عام طور پر تاکید کے لئے اور قطعاً اور یقینا کے معنی میں آتا ہے اور کبھی ”لابد“ ( ناچار) کے معنی میں آتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں :
لاجرم لافعلن
میں قسم کھاتا ہوں کہ کام کروں گا ۔
رہا یہ سوال کہ ”لاجرم“ سے یہ معانی کیسے معلوم ہوئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ”جرم“ در اصل درخت سے پھل چننے اور توڑنے کے معنی میں ہے اور جب اس کے شروع میں ” لا“ لگادیا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہو جاتا ہے کہ کوئی چیز اسے توڑ اور کاٹ نہیں سکتی اس طرح اس سے مسلماً ، ناچار اور کبھی قسم کا مفہوم حاصل ہو جاتا ہے ۔

 


۱۔ ”اٴَمْوَاتٌ غَیْرُ اٴَحْیَاؤَمَا یَشْعُرُونَ اٴَیَّانَ یُبْعَثُونَ“اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے دیگر احتمالات بھی ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک کے مطابق یہاں مراد یہ ہے کہ بت نہیں جانتے کہ وہ کب مبعوث ہو ں گے اس سلسلے میں مفسرین نے بعض آیات سے شواہد بھی پیش کئے ہیں ۔ سورہ ٴ انبیاء کی آیت ۶۸ میں خدا فرماتا ہے :
2۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ” فَالَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ “میں فاء تفریع کے لئے ہے ۔ قیامت ومبعوث ہونے کا انکار مبداء کے انکار کی وجہ سے ہے اور ان سر چشمہ استکبار ہے ۔
مستکبر کون ہیں ؟سوره نحل/ آیه 19 - 23
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma