ذوالقرنین نے دیوار کیسے بنائی؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
۱۔ اس داستان کے تاریخی اور تربیتی نکاتسوره کهف / آیه 92 - 98

ذوالقرنین نے دیوار کیسے بنائی؟

زیر نظر آیات میں حضرت ذوالقرنین کے ایک اور سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:اس کے بعد اس نے حاصل وسائل سے پھر استفادہ کیا

( ثُمَّ اٴَتْبَعَ سَبَبًا) اور اس طرح اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ وہ دو پہاڑوںکے درمیان پہنچا وہاں ان دو گروہ ہوں سے مختلف ایک دور گروہ کو دیکھا ۔ یہ لوگ کوئی بات نہیں سمجھتے تھے ۔ (حَتَّی إِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِھِمَا قَوْمًا لَایَکَادُونَ یَفْقَھُونَ قَوْلً) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ کوہستانی علاقے میں جاپہنچے ۔ مشرق او رمغرب کے علاقے میں وہ جیسے لوگوں سے ملے تھے یہاں ان سے مختلف لوگ تھے ۔ یہ لوگ انسانی تمدن کے اعتبار سے بہت ہی پسماندہ تھے کیونکہ انسانی تمدن کی سب سے واضح مظہر انسان کی گفتگوہے ۔
بعض نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ ” لَایَکَادُونَ یَفْقَھُونَ قَوْلًا“ ۔ سے یہ مراد نہیں کہ وہ مشہور زبانوں میں سے کسی کو جانتے نہیں تھے بلکہ وہ بات کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے تھے یعنی فکری لحاظ سے بہت پسماندہ تھے ۔
اوریہ کہ وہ پہاڑ کہاں تھے؟ اس سلسلے میں ہم اس واقعے کے دیگر تاریخی اور جغرافیائی پہلووٴں کا جائزہ لیتے ہوئے تفسیری بحث کے آخر میں گفتگو کریں گے ۔
اس وقت یہ لوگ یا جوج و ماجوج نامی خونخوار او رسخت دشمن سے بہت تنگ او رمصیبت میں تھے ۔ ذوالقرنین کہ جو عظیم قدرتی وسائل کے حامل تھے، ان کے پاس پہنچے تو انھیں بڑی تسلی ہوئی ۔ انھوں نے ان کا دامن پکڑلیا اور ” کہنے لگے: اے ذوالقرنین! یا جوج و ماجوج اس سرزمین پر فساد کرتے ہیں ۔کیاممکن ہے کہ خرچ آپ کو ہم دے دیں اور آپ ہمارے او ران کے درمیان ایک دیوار بنادیں“ ( قَالُوا یَاذَا الْقَرْنَیْنِ إِنَّ یَاٴْجُوجَ وَمَاٴْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ فَھَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلیٰ اٴَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ سَدًّا ) ۔
وہ ذوالقرنین کی زبانی تو نہیں سمجھتے تھے اس لیے ہوسکتا ہے یہ بات انھوں نے اشارے سے کی ہویا پھر ٹوٹی پھوٹی زبان میں اظہار مدعا کیا ہو ۔
یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ان کے درمیان مترجمین کے ذریعے بات چیت ہوئی ہو یا پھر خدائی الہام کے ذریعے حضرت ذوالقرنین نے ان کی بات سمجھی ہو جیسے حضرت ذوالقرنین بعض پرندوں سے بات کرلیا کرتے تھے ۔
بہرحال اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی اقتصادی حالت اچھی تھی لیکن سوچ بچار،منصوبہ بندی، اور صنعت کے لحاظ سے وہ کمزور تھے ۔لہٰذاوہ اس بات پر تیار تھے کہ اس اہم دیوار کے اخرجات اپنے ذمہ لے لیں اس شرط کے ساتھ کہ ذوالقرنین اس کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی ذمہ قبول کرلیں ۔
یاجوج و ماجوج کے بارے میں انشاء اللهاس بحث کے آخر میں گفتگو کی جائے گی ۔
اس پر ذوالقرنین نے انھیں جواب دیا:یہ تم نے کیا کہا؟ اللهنے مجھے جو کچھ دے رکھا ہے،وہ اس سے بہتر ہے کہ جو تم مجھے دینا چاہتے ہو اور میں تمھارے مالی امداد کا محتاج نہیں ہوں (قَالَ مَا مَکَّنَنِی فِیہِ رَبِّی خَیْر) ۔
تم قوت و طاقت کے ذریعے میری مدد کرو تا کہ میں تمھارے اور ان دو مفسد قوموں کے درمیان مضبوط اور مستحکم دیوار بنادوں (فَاٴَعِینُونِی بِقُوَّةٍ اٴَجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ رَدْمًا) ۔
”رَدْم“ (بروزن ”مرد“) بنیادی طور پر پتھر کے ذریعے بھرنے کے معنی میں ہے لیکن بعد ازاں یہ لفظ وسیع معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ اب ہر قسم کی رکاوٹ اور دیوار کو ”رَدْم“ کہتے ہیں یہاں تک کہ اب کپڑے میں پیوند کے لیے بھی بولا جاتا ہے ۔
بعض مفسرین کا نظریہ ہے کہ”رَدْم“ مضبوط او رمستحکم”سَد“ کو کہتے ہیں ۔(۱) ا س تفسیر کے مطابق ذوالقرنین نے ان سے وعدہ کیا وہ ان کی توقع سے زیادہ مضبوط دیوار بنادیں گے ۔
ضمناً تو جہ رہے کہ ”سَد“بر وزن ”قد“ اور’ ’سَد“( بروزن’ ’خود“) کا ایک ہی معنی ہے اور وہ ہے”دو چیزوں کے درمیان کوئی رکاوٹ“ لیکن مفردات میں راغب نے لکھا ہے کہ ان دونوں لفظوں کے درمیان فرق ہے ۔”سَد“ کو وہ انسان کی بنائی ہوئی رکاوٹ یا دیوار سمجھتے ہیں اور” سَد“ کو فطری اور طبعی رکاوٹ خیال کرتے ہیں ۔
پھر ذوالقرنین نے حکم دیا: لو ہے کی بڑی بڑی سلیں میرے پاس لے آوٴ (آتُونِی زُبَرَ الْحَدِید) ۔
”زُبَر“ ”زُبَرة“ (بروزن’ ’غرفة“) کی جمع ہے ۔ یہ لو ہے کے بڑے اور ضخیم ٹکڑے کے معنی میں ہے ۔
جب لو ہے کی سلیں آگئیں تو انھیں ایک دوسرے پر چننے کا حکم دیا” یہاں تک کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کی جگہ پوری طرح چھپ گئی“ (حَتَّی إِذَا سَاوَی بَیْنَ الصَّدَفَیْن) ۔
”صدف“ یہاں پہاڑ کے کنارے کے معنی میں ہے ۔ اس لفظ سے واضح ہوتاہے کہ پہاڑوںکے دوکناروں کے درمیان ایک کھلی جگہ تھی اور یہیں سے سے یاجوج ماجوج داخل ہوئے تھے ۔ ذوالقرنین نے پروگرام بنایا کہ اس خالی جگہ کو پھر دیا جائے ۔
بہرحال تیسرا حکم ذوالقرنین نے یہ دیا کہ آگ لگانے کا مواد ( ایدھن وغیرہ) لے آوٴ اور اسے اس دیوار کے دونوں طرف رکھ دو اور اپنے پاس موجود وسائل سے آگ بھڑکاوٴ اور اس میں دھونکو یہاں تک کہ لو ہے کی سلیں انگاروں کی طرح سرخ ہو کر آخر پگھل جائیں (قَالَ انفُخُوا حَتَّی إِذَا جَعَلَہُ نَارًا) ۔
در حقیقت وہ اس طرح لو ہے کے ٹکروں کو آپس میں جوڑ کر ایک کردینا چاہتے تھے ۔ یہی کام آج کل خاص مشینوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے ۔لو ہے کی سلوںکو اتنی حرارت دی گئی کہ وہ نرم ہوکر ایک دوسرے سے مل گئیں ۔
پھر ذوالقرنین نے آخری حکم دیا: کہا کہ پگھلا ہوٴا تا بتالے آوٴ تا کہ اسے اس دیوار کے آوپر ڈال دوں (قَالَ آتُونِی اٴُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا) ۔
اس طرح اس لو ہے کی دیوار پر تابنے کالیپ کر کے اسے ہوا کے اثر سے اور خراب ہونے سے محفوظ کردیا ۔
بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ سائنس کے مطابق اگر تا نبے کی کچھ مقدار لو ہے میں ملادی جائے تو اس کی مضبوطی بہت زیادہ ہوجاتی ہے ۔ ذوالقرنین چونکہ اس حقیقت سے آگاہ تھے اس لیے انھوں نے یہ کام کیا ۔
ضمناً یہ بھی عرض کردیا جائے کہ”قِطْر“ کا مشہور معنی ”پگھلا ہوا تانبا“ ہی ہے لیکن بعض مفسرین نے اس کے معنی” پگھلا ہوا جست“ کیا ہے جبکہ یہ خلاف مشہور ہے ۔
آخر کار یہ دیوار اتنی مضبوط ہوگئی کہ اب وہ مفسد لوگ نہ اس کے اوپر چھڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں نقب لگا سکتے تھے

 ( فَمَا اسْتَطَاعُوا اٴَنْ یَظْھَرُوہُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَہُ نَقْبًا) ۔
ذوالقرنین نے بہت اہم کام انجام دیا تھا ۔ مستکبرین کی روش تو یہ ہے کہ ایسا کام کرکے وہ بہت فخر و ناز کرتے ہیں یا احسان جتلاتے ہیں لیکن ذوالقرنین چونکہ مرد خدا تھے لہٰذا انتہائی ادب کے ساتھ” کہنے لگے: یہ میرے رب کی رحمت ہے“ ( قَالَ ھٰذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّی) ۔
اگر میرے پاس اہم کام کرنے کے لیے علم و آگاہی ہے تو یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگرمجھ میں کوئی طاقت ہے اور میں بات کرسکتا ہوں تو وہ بھی اس کی طرف سے ہے اگر یہ چیزیں او ران کا ڈھالنا میرے اختیار میں ہے تو یہ بھی پروردگار کی وسیع رحمت کی برکت ہے میرے پاس کچھ بھی اپنی طرف سے نہیں ہے کہ جس پر میں فخر و ناز کروں اور میں نے کوئی خاص کام بھی نہیں کیا کہ الله کے بندوں پر احسان جتاتا پھروں ۔
ا س کے بعد مزید کہنے لگے: یہ نہ سمجھنا کہ کوئی دائمی دیوار ہے” جب میرے پروردگار کا حکم آیا تو یہ درہم و برہم ہو جائے گی اور زمین بالکل ہموار ہوجائے گی“ ( فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّی جَعَلَہُ دَکَّاءَ ) ۔
اور میرے رب کا، وعدہ حق ہے( وَکَانَ وَعْدُ رَبِّی حَقًّا ) ۔
یہ کہہ کر ذوالقرنین نے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ اختتام دنیا اور قیامت کے موقع پر یہ سب کچھ درہم و برہم ہوجائے گا ۔ البتہ بعض مفسرین نے وعدہٴ الٰہی کو انسانی علم کی ترقی کی طرف اشارہ سمجھا ہے یعنی علمی ترقی کے بعد پھر نا قابل عبور دیوار کا کوئی مفہوم نہیں رہے گا مثلاً ہوائی جہاز اور ہیلی کاپڑ کے ذریعے ایسی رکاوٹوں کو ختم کردیں گے لیکن یہ تفسیر بعید معلوم ہوتی ہے ۔


 


۱۔ یہ بات آلوسی نے روح المعانی میں، فیض کاشانی نے صافی میں اورفخر رازی نے تفسیر کبیر میں کہی ہے ۔
۱۔ اس داستان کے تاریخی اور تربیتی نکاتسوره کهف / آیه 92 - 98
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma