ذوالقرنین کی عجیب کہانی

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 92 - 98 سوره کهف / آیه 83 - 91


ذوالقرنین کی عجیب کہانی

اصحاب کہف کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ہم نے کہا تھا کہ چند قریشیوں نے رسول الله کو آزمانا چاہا ۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے مدینے کے یہودیوں کے مشہور سے تین مسئلے پیش کیے ۔ ایک صحابِ کہف کے بارے میں تھا، دوسرا مسئلہ روح کا تھا اور تیسرا ذوالقرنین کے بارے میں ۔ ان میں سے روح کے مسئلہ کا جواب سورہٴ بنی اسرائیل میں آیا ہے دوسرے دو سوالوں کا جواب زیر نظر سورہٴ کہف میں ہے ۔
اب ذوالقرنین کی داستان کی باری ہے ۔
جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں خود سورہٴ کہف میں تین واقعات کا ذکر ہے ۔ یہ واقعات اگر چہ ظاہراً ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ان میں ایک قدر مشترک ہے ۔ اصحاب کہف کا واقعہ، موسیٰ(ع) اور خضر(ع) کی داستان اور ذوالقرنین کی کہانی ۔ یہ سب ایسے مسائل پر مشتمل ہیں جو ہمیں عام محدود زندگی سے باہر لے جاتے ہیں اور نشاندہی کرتے ہیں کہ عالم اور اس کے حقائق بس یہی نہیں کہ جو دیکھتے ہیں اور جس کے ہم عادی ہو چکے ہیں ۔
ذوالقرنین کی داستان ایسی ہے کہ جس پر طویل عرصے سے فلاسفہ اور محققین غور و خوض کرتے چلے آئے ہیں اور ذوالقرنین کی معرفت کے لیے انھوں نے بہت کوشش کی ہے ۔
اس سلسلے میں پہلے ہم ذوالقرنین سے مربوط آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں ۔ یہ کل سولہ آیتیں ہیں کیونکہ تاریخی تحقیق سے قطع نظر ذو القرنین کی ذات خود سے ایک بہت ہی تربیتی درس ہے اور اس کے بہت سے قابل غور پہلو ہیں ۔ ان آیات کی تفسیر کے بعد ذوالقرنین کی شخصیت کو جاننے کے لیے ہم آیات، روایات اور مورخین کے اقوال کا جائزہ لیں گے ۔ دوسرے لفظوںمیں پہلے ہم اس کی شخصیت کے بارے میں گفتگو کریں گے اور پہلاموضوع وہی ہے جو قرآن کی نظر میں اہم ہے ۔
اس سلسلے کی پہلی آیت کہتی ہے:تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں:( وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ ) ۔ کہہ دو عنقریب اس کی اس کی سرگزشت کا کچھ حصہ تم سے بیان کروں گا (قُلْ سَاٴَتْلُو عَلَیْکُمْ مِنْہُ ذِکْرًا) ۔
”ساٴَتلوا“میں جو”سین“ ہے وہ مستقل قریب کے لیے آئی ہے حالانکہ اس بارے میں رسول الله نے ساتھ ہی گفتگو شروع کردی ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ ادب کے پیش نظر ہو ۔ ایسا ادب کہ جس میں ترک عجلت کا مفہوم پایا جاتا ہے اور ایسا ادب کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا سے بات معلوم کرکے لوگوں کو بتائی جارہی ہے ۔
بہر حال اس آیت کی ابتداء یہ بتاتی ہے کہ لوگ پہلے بھی ذوالقرنین کے بارے میں بات کیا کرتے تھے ۔ البتہ اس سلسلے میں ان میں اختلاف اور ابہام پایا جاتا تھا ۔ اسی لیے انھوں نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے ضروری وضاحتیں چاہیں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے: ہم نے اسے زمین پر تمکنت عطا کی(قدرت، ثبات قوت اور حکومت بخشی)(إِنَّا مَکَّنَّا لَہُ فِی الْاٴَرْضِ) ۔
او رہرطرح کے وسائل و اسباب اس کے اختیار میں یئے( وَآتَیْنَاہُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا ) ۔
”سَبب“در اصل اس رسی کو کہتے ہیں کہ جس کے ذریعے کجھور کے درختوں پر چڑھتے ہیں ۔ بعد ازاں یہ لفظ ہر قسم کے وسیلے اور ذریعے کے معنی میں بولا جانے لگا ۔ بعض مفسرین نے اس لفظ کو کسی خاص مفہوم میں محدود کرنا چاہا ہے ۔ لیکن ظاہر ہے کہ آیت پوری طرح مطلق ہے اور وسیع مفہوم رکھتی ہے اور نشاندہی کرتی ہے کہ الله تعالیٰ نے ذوالقرنین کو ہر چیز تک پہنچنے کے اسباب عنایت فرمائے تھے ۔”سَبَب“ کے اس مفہوم میں عقل و درایت، انتظامی صلاحیت، طاقت و قوت، لشکر، افرادی قوت، مادی وسائل غرض ہر قسم کے ایسے مادی وسائل شامل ہیں جو مقاصد کے حصول کے لیے ضروری تھے ۔
اس نے بھی ان سے استفادہ کیا (فَاٴَتْبَعَ سَبَبًا) ۔ یہاں تک کہ وہ سورج کے مقام غروب تک پہنچ گیا ( حَتَّی إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ) ۔ وہاں اس نے محسوس کیا کہ سورج تاریک اور کیچڑ آلود چشمے یا دریا میں ڈوب جاتا ہے (وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِی عَیْنٍ حمئة) ۔(۱)
وہاں اس نے ایک قوم کو دیکھا (کہ جس میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ تھے) (وَوَجَدَ عِنْدَھَا قَوْمً) ۔ تو ہم نے ذوالقرنین سے کہا: کہ تم ہمیں سزا دینا چاہوگے یا اچھی (قُلْنَا یَاذَا الْقَرْنَیْنِ إِمَّا اٴَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا اٴَنْ تَتَّخِذَ فِیھِمْ حُسْنًا) ۔(۲)
بعض مفسرین نے لفظ ”قلنا“ (ہم نے ذوالقرنین سے کہا) سے ان کی نبوت پر دلیل قرار دیا ہے لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ اس جملے سے قلبی الہام مراد ہو کہ جو غیر انبیاء میں بھی ہوتا ہے لیکن اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تفسیر زیادہ تر نبوت کو ظاہر کرتی ہے ۔
ذوالقرنین نے” کہا: وہ لوگ کہ جنھوں نے ظلم کیے ہیں، انھیں توہم سزا دیں گے“ ( قََالَ اٴَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہ) ۔” اور پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جائیں گے اور الله انھیں شدید عذاب کرے گا ۔ ( ثُمَّ یُرَدُّ إِلَی رَبِّہِ فَیُعَذِّبُہُ عَذَابًا نُکْرًا) ۔(3) یہ ظالم و ستمگر دنیا کا عذاب بھی چکھیں گے اور آخرت کا بھی ۔
اور رہا وہ شخص کہ جو با ایمان ہے اور عمل صالح کرتا ہے اسے اچھی جزاء ملے گی (وَاٴَمَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُ جَزَاءً الْحُسْنَ) ۔ اور اسے ہم آسان کام سونپیں گے (وَسَنَقُولُ لَہُ مِنْ اٴَمْرِنَا یُسْرًا) ۔
اس سے بات بھی محبت سے کریں گے اور اس کے کندھے پر سخت ذمہ داریاں بھی نہیں رکھیں گے اور اس سے زیادہ خراج بھی وصول نہیں کریں گے ۔
ذوالقرنین کی اس بیان سے گویا یہ مراد تھی کہ تو حید پر ایمان اور ظلم و شرک اور برائی کے خلاف جد وجہد کے بارے میں میری دعوت پر لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے ۔ ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہوگا جواس الٰہی تعمیری پروگرام کو مطمئن ہوکر تسلیم کرلیں گے انھیں اچھی جزا ملے گی اور وہ آرام و سکون سے زندگی گزاریں گے جبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوگا جو دعوت سے دشمنی پر اتر آئیں گے اور شرک و ظلم اور برائی کے راستے پر ہی قائم رہیں گے انھیں سزادی جائی گی ۔
ضمناً یہ بھی عرض کردیا جائے کہ ۔ ”من ظلم“ کہ جو” من اٰمن و عمل صالحاً“ کے مقابلے میں آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ”ظلم“ اِس اور غیر صالح عمل کے معنی میں آیا ہے اور غیر صالح عمل در اصل شرک کے ناپاک درخت کا ایک کڑوا پھل ہے ۔
ذوالقرنین نے اپنا مغرب کا سفر تمام کیا اور مشرق کی طرف جانے کا عزم کیا اور جیسا کہ قرآن کہتا ہے:جو وسائل اس کے اختیار میں تھے اس نے ان سے پھر استفادہ کیا (ثُمَّ اٴَتْبَعَ سَبَبًا) ۔
اور اپنا سفر اسی طرح جاری رکھا یہاں تک کہ سورج کے مرکز طلوع تک جاپہنچا (حَتَّی إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْس) ۔
وہاں اس نے دیکھا سورج ایسے لوگوں پر طلوع کررہا ہے کہ جن کے پاس سورج کی کرنوں کے علاوہ تن ڈھانپنے کی کوئی چیز نہیں ہے (وَجَدَھَا تَطْلُعُ عَلیٰ قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَھُمْ مِنْ دُونِھَا سِتْرًا) ۔
یہ لوگ بہت ہی پست درجے کی زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ برہنہ رہتے تھے یا بہت ہی کم مقدار لباس پہنتے تھے کہ جس سے ان کا بدن سورج سے نہیں چھپتا تھا ۔
بعض مفسرین نے اس احتمال کو بھی بعید قرار نہیں دیا کہ ان کے پاس رہنے کو کوئی گھر بھی نہ تھے کہ وہ سورج کی تپش سے بچ سکتے ۔( 4)
اس آیت کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ وہ لوگ ایسے بیابان میں رہتے تھے کہ جس میں کوئی پہاڑ، درخت، پناہگاہ اور کوئی ایسی چیز نہ تھی کہ وہ سورج کی تپش سے بچ سکتے گویا اس بیابان میں ان کے لیے کوئی سایہ نہ تھا ۔( 5)
بہر حال یہ تمام تفاسیر ایک دوسرے کے منافی نہیں رہیں ۔
جی ہاں! ذوالقرنین کا معاملہ ایسا ہی ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ اس کے اختیار میں ( اپنے اہداف کے حصول کے لیے) کیا وسائل تھے (کذٰلک وقد احطنا بما لدیہ خبراً) ۔
بعض مفسرین نے آیت کی تفسیر میں یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ یہ جملہ ذوالقرنین کے کاموں اور پروگراموں میں الله کی ہدایت کی طرف اشارہ ہے ۔( 6)

 

 


۱۔ ”حمئة“ در اصل سیاہ بدبو دار کیچڑ کے معنی ہے دوسرے لفظوں میں یہ”لجن“ کے معنی میںہے ( جس کا معنی ہے سیاہ مٹی جو کسی حوض یا نالے کی تہہ میں ہوتی ہے) ۔ یہ لفظ نشاندہی کرتا ہے کہ ذوالقرنین جس علاقے میں پہنچے تھے وہاں بدبودار کیچڑ بہت زیادہ تھا ۔ یہاں تک کہ غروب آفتاب کے وقت ذوالقرنین کو ایسا لگتا تھا جیسا سورج کا لے اس کیچڑ میں ڈوب رہا ہے ۔ جیسے دریا کے پاس سے گزرنے والے مسافروں اور وہاں رہنے والوں کو وقت غروب ایسا لگتا ہے جیسے سورج دریا میں غروب ہو رہا ہے اور طلوع کے وقت ایسا لگتا ہے جیسے دریا سے نکل رہا ہو ۔
۲۔ جملہ ”اما ان تعذب----“ ایسا لگتا ہے جیسے استفہامیہ ہو اگراس کا ظاہر خبر یہ ہے ۔
3۔”نکر“’ ’ منکر“ کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے، نامعلوم یعنی نامعلوم عذاب کہ جس انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
(4)بعض روایات اہل بیت(ع) میں پہلی تفسیر بیان ہوئی ہے اور بعض میں دوسری تفسیر آئی ہے اور یہ دونوں ایک دوسری کے منافی بھی نہیں ہیں( نور الثقلین ج ۳ ص ۳۰۶ ملاحضہ فرمائے) ۔
(5) تفسیر” فی ظلال القرآن“ اور تفسیر فخرالدین رازی، زیر بحث آٰت کے ذیل میں ۔
( 6) المیزان،ج ۱۳ ص ۳۹۱ ۔
سوره کهف / آیه 92 - 98 سوره کهف / آیه 83 - 91
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma