گویا وہ عذاب کے منتظر ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 57 - 59 سوره کهف / آیه 54 - 56

گویا وہ عذاب کے منتظر ہیں

ان آیات میں گویا گزشتہ اور آئندہ کی بحثوں کا نتیجہ پیش کیا گیا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: اس قرآن میں ہم نے لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثال بیان کی ہے( وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی ھٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَل) ۔
گزشتہ لوگوں کی ہلا کر رکھ دینے والی تاریخ کے مختلف نمونے ہم نے پیش کیے ہیں ۔ ہم نے ان کی زندگی کے دردناک واقعات اور تلخ و شیرین باتیں لوگوں کو بتائی ہیں اور مسائل کو ایسی نچلی سطح پر بیان کیا گیا ہے کہ آمادہ دل حق کو قبول کرلیں اور باقی لوگوں کے لیے اتمام حجت ہوجائے اور کسی ابہام کی گنجائش باقی نہ رہے ۔
لیکن اس کے با وجود سرکش لوگ بالکل ایمان نہ لائے کیونکہ”انسان سب سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“ (وَکَانَ الْإِنسَانُ اٴَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا ) ۔
”صرفنا“’ ’تصریف “ کے مادہ سے ہے ۔ا س کا معنی ہے تبدیل کرنا،د گرگوں کرنا اور ایک حالت سے دوسری حالت میںبد لنا ۔ز یر بحث آیت میں اس لفظ کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے مختلف انداز میں اور ہراس پیرائے جس میں تاثیر کا امکان تھا لوگوں سے گفتگو کی ہے ۔
”جدل“ اس گفتگو کو کہتے ہیں کہ جو جھگڑے اور دوسرے پر تسلط حاصل کرنے کے لیے ہو ۔ لہٰذا ”مجادلہ“د و آدمیوں کی آپس میں تُو تکرار اور کھینچا تانی کو کہتے ہیں جیسا کہ راغب نے کہاہے:یہ لفظ ”جدلت الحبل“ (رسی کو مضبوطی سے بٹ دیا) سے لیا گیا ہے ۔ گویا جو شخص اس انداز سے بات کرتا ہے وہ مدمقابل کے افکار کو زبردستی لپٹ میں لے لینا چاہتا ہے ۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ”جدال“ در اصل کشتی لڑنے اور دوسرے کو زمین پر پٹخنے کے معنی میںہے اور یہ لفظ لفظی اور زبانی جھگڑوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔
بہر حال یہاں انسانوں سے مراد غیر تربیت یافتہ انسان ہیں ۔ اس کی نظیرقرآ ن میں بہت ہے ۔ اس سلسلے میں تفصیلی بحث ہم سورہٴ یونس کی آیت ۱۲ کے ذیل میں کر آئے ہیں (نمونہ، جلد ۶ص ۱۹۲ اردو ترجمہ) ۔
اگلی آیت میں ہے : ایسی طرح طرح کی مثالیں پیش کی گئیں، ہلادینے والے واقعات بیان کے گیے اور منطق و دلیل سے بات کی گئی ۔ جس انسان کا دل صاف ہے اس پر ان چیزوں کو ضرور اثر کرنا چاہئے پھر بھی بہت سے ایسے گروہ ہیں کہ جو ایمان نہیں لائے ”ہدایت الٰہی آجانے کے بعد ایمان اور طلب مغفرت میں لوگوں کو سوائے اس کے کونسا امر مانع تھا کہ وہ گزشتہ لوگوں کے سے انجام کے منتظر تھے“ ( وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اٴَنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَائَھُمَ الْھُدیٰ وَیَسْتَغْفِرُوا رَبَّھُمْ إِلاَّ اٴَنْ تَاٴْتِیَھُمْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ) ۔ اور یا پھر وہ اس بات کے منتظر تھے کہ عذاب الٰہی کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ( اٴَوْ یَاٴْتِیَھُمَ الْعَذَابُ قُبُلًا ) ۔(۱)
یہ آیت در حقیقت اس طرف اشارہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم اور مغرور لوگ ہرگز اپنے ارادے اور رغبت سے ایمان نہیں لائیں گے ۔ یہ صرف دو صورتوں میں ایمان لائیں گے ۔ پہلی یہ کہ جیسے گزشتہ قوموں کو غذاب نے آگھیرا تھا اسی طرح انھیں بھی آگھیرے اور دوسری یہ کہ کم از کم یہ غذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ایسے اضطراری ایمان کی کوئی حیثیت نہیں ۔
اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ ایسی قوموں کو ہرگز ایسا کوئی انتظار نہ تھا بلکہ ان کی کیفیت ایسی تھی کہ گویا وہ اس انتظار میں ہوں اور یہ ایک قسم کا خوبصورت کنایہ ہے ۔ جیسے ہم کسی سرکش آدمی سے کہیں کہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ تجھے سزا ملے یعنی تجھے بہرحال سزا ملے گی اور تو گویا سزا کے انتظار میں ہے ۔
بہر حال سرکش اور مغرور انسان کبھی اس حالت کو جا پہنچتا ہے کہ وحی آسمانی، انبیاء کی مسلسل تبلیغ، معاشرتی زندگی کے عبرت ناک درس اور گزشتہ لوگوں کی تاریخ۔ کوئی چیز بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔ صرف خدا کی لاٹھی ہی سے اس کی عقل ٹھکانے آسکتی ہے ۔ لیکن نزولِ عذاب کے وقت تو توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور پھر لوٹ آنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہتی ۔
اس کے بعد مخالفین کی ہٹ دھرمی کے مقابلے میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی تسلی اور دلجوئی کے لیے فرمایا گیا ہے: تیری ذمہ داری تو صرف بشارت اور انداز ہے ۔ ہم نے انبیاء و مرسلین کو بشارت و انداز کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے نہیں بھیجا ( وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِینَ إِلاَّ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ ) ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ایسے لوگ مخالفت کرنے لگیں اور مذاق اڑائیں ”کافر اور ہٹ دھرم لوگ ہمیشہ غلط طور پر جھگڑتے رہے ہیں، اس زعم میں کہ حق کو ختم کردیں اور قیامت و عذاب کے بارے میں ہماری آیتوں کا مذاق اڑائیں “(وَیُجَادِلُ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَمَا اٴُنْذِرُوا ھُزُوًا) ۔(۲)
یہ آیت در حقیقت سورہٴ حج کی آیات ۴۲ تا ۴۵ کے مشابہ ہے ۔ ان میں ہے:
< وَإِنْ یُکَذِّبُوکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُود---
اگر انھوں نے تیری تکذیب کی ہے تو تجھ سے پہلے قومِ نوح، عاد اور ثمود نے بھی اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی ہے ۔
آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انبیاء جبر و اکراہ سے کام نہیں لیتے بلکہ ان کی ذمہ داری بشارت و انداز ہے ۔ آخری ارادہ خود لوگوں کی طرف سے ہوتا ہے تاکہ وہ کفر و ایمان کے انجام کے بارے میں سوچ سمجھ لیں اور اپنے آزادانہ ارادے سے ایمان لائیں نہ یہ کہ غذابِ الٰہی کو سامنے پاکر اضطراری طور پر اظہارِ ایمان کریں ۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آزادی و اختیار کہ جو وسیلہٴ تکامل ہے اس سے زیاہ تر غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے اور طرفدارانِ باطل نے ہمیشہ حق سے جھگڑا کیا ہے ۔ کبھی مغالطے یدا کرکے اور کبھی مذاق اڑا کر انھوں نے چاہا ہے کہ دینِ حق کو ختم کردیں لیکن جن کے دلوں کے دریچے حق کے لیے کھُلے تھے انھوں نے حمایتِ حق میں قیام کیا اور حق و باطل کی یہ جنگ پوری تاریخ میں جاری رہی ہے ۔

 

 


۱۔ ”قبل“ مقابلہ اور سامنے کے معنی میں ہے یعنی الٰہی کو وہ اپنے مقابلے اور سامنے دیکھیں ۔ طبرسی نے مجمع البیان میں، ابو الفتوح نے روح الجنان میں اور آلوسی نے روح المعانی میں یہی احتمال ذکر کیا ہے کہ ”قبیل“ کی جمع ”قبل“ عذاب کی مختلف نوعیتوں کی طرف اشارہ ہے لیکن پہلا معنی زیاہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
۲۔ ”یدحضوا“ ”ادحاض“ کے مادہ سے ابطال اور زائل کرنے کے معنی میں ہے اور اصل میں یہ ”دحض“ سے لیا گیا ہے کہ جو لغزش کے معنی میں ہے ۔
سوره کهف / آیه 57 - 59 سوره کهف / آیه 54 - 56
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma