۲۔ اس داستان کے چند سبق

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 12
سوره کهف / آیه 45 - 46 ۱۔ دولت کا غرور


۲۔ اس داستان کے چند سبق:


یہ عبرت انگیز داستان مختصر سی ہے لیکن اس میں مذکورہ بہت بڑے درس کے علاوہ بھی بہت سے درس موجود ہیں ۔ مثلاً:
الف۔ مادی دنیا کی نعمتیں جتنی بھی زیادہ ہوں ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور وہ ناپائیدار ہوتی ہیں، کڑکتی ہوئی بجلی چند لمحوں میں سالہا سال میں تیار کیے گئے باغوں اور کھیتیوں کو خاکستر بنادیتی ہے ۔ ان کی جگہ مٹی کے ٹیلوں اور پھسلنے والی زمین کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔تھوڑا سا زلزلہ زمین کے ان پانیوں اور چشموں کو نگل لیتا ہے جن پر زندگی اور اس کی برکتوں کا دارو مدار ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ پھر اصلاح کی بھی گنجائش نہیں رہتی ۔
ب۔ مادی مفادات کے لیے جو دوست انسان کے ارد گرد جمع ہوجاتے ہیں وہ اس قدر بے اعتبار اور بے وفا ہوتے ہیں کہ اسی لمحے جب دنیا وی نعمتیں انسان سے جدا ہورہی ہوتی ہیں وہ اس سے ایسے رخصت ہوتے ہیں جیسے پہلے ہی جانے کو تیار بیٹھے تھے ۔” وَلَمْ تَکُنْ لَہُ فِئَةٌ یَنصُرُونَہُ مِنْ دُونِ اللهِ “۔
ایسے واقعات ہم نے بارہا سنے یا دیکھے ہیں ۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ الله کے علاوہ کسی سے دل نہیں باندھنا چاہئے ۔ انسان کے باوفا اور سچے دوست وہی ہیں جن سے معنوی اور روحانی رشتہ ہو ۔ ایسے ہی دوست ثروت و تنگدستی، بڑھاپے اور جوانی، تندرستی او ربیماری او رعزت ذلت کے ہر عالم میں دوست ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کی محبت و مودت کا رشتہ موت کے بعد بھی قائم رہتا ہے ۔
ج۔بلاو مصیبت کے بعد کی بیداری عام طور پر فضول ہوتی ہے ۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ اضطراری بیداری انسان کے اندر رونی انقلاب اور اس کے طرز عمل کی تبدیل کے لیے دلیل نہیں ہوتی او رنہ گزشتہ اعمال پر ندامت کی علامت ہوتی ہے بلکہ جب تختہ دار پر یا موج طوفان پر انسان کی نگاہ پڑتی ہے تو اس پر وقتی طور پر اثر ہوتا ہے ۔ ایسے میں چند لمحوں کے لیے جبکہ اسے اپنی زندگی بھی چند لمحے دکھائی دیتی ہے وہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی کا ارادہ کرتا ہے لیکن چونکہ یہ ارادہ اس کی روح سے نہیں اٹھا ہوتا لہٰذا اس طوفان کے گزرتے ہی اس کا یہ ارادہ بھی ختم ہوجاتا ہے اور وہ اپنے راستے کی طرف پلٹ جاتا ہے ۔
یہ جو سورہٴ نساء کی آیہ ۱۸ میں ہے کہ انسان جب موت کی نشانیاں دیکھتا ہے تو توبہ کے دروازے اس پر بند ہوجاتے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے ۔ اسی طرح قرآن سورہٴ یونس کی آیت ۹۰ اور ۹۱ میں فرعون کے بارے میں کہتا ہے کہ جب وہ غرق ہونے لگا اور جب وہ دریا کی لہروں میں غوطے کھانے لگا تو اس نے پکارا میں بنی اسرائیل کے خدا، خدائے یکتا پر ایمان لایا ہوں لیکن اس کی یہ توبہ ہرگز قبول نہ ہوئی ۔ فرعون کی اس توبہ کی عدم قبولیت کی بھی یہی وجہ ہے ۔
د۔ نہ فقر ذلت کی دلیل ہے اور نہ ثروت عزت کی دلیل ہے ۔ یہ بھی ایک درس ہے کہ جو ہم زیرِ بحث آیات سے حاصل کرتے ہیں جبکہ مادی معاشروں اور مادی مکتبِ فکر کے نزدیک تو فقر و ثروت ذلت و عزت کی دلیل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے یتیم اور تہی دست ہونے پر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ قرآن مکّہ اور طائف کے کسی دولت مند پر کیوں نازل نہیں ہوا ۔ ان کے الفاظ میں:
<لَوْلَانُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْآنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ۔ (زخرف۔ ۳۱)
ھ۔ جب مال و مقام کی وجہ سے ایک آزاد انسان غرور کی زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے تو اگر وہ اپنی پیدائش کی تاریخ پر نظر کرے تو یہ زنجیریں ٹوٹ سکتی ہیں ۔ کیونکہ وہ یکھتا ہے کہ وہ تو بے وقعت خاک تھا، ایک ناتوان نطفہ تھا پھر وہ اپنی ماں کے بطن سے اس حالت میں پیدا ہوا کہ بہت کمزور تھا ۔ جیسا کہ قرآن زیرِ نظر آیات میں اس بے ایمان دولت مند کا غرور ختم کرنے کے لیے گزرے ہوئے زمانے کی اسے یاد دلاتے ہے ۔ اس کا با ایمان دوست کہتا ہے:
<اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من نطفة ثم سواک رجلاً
و ۔ ان آیات میں عالمِ طبیعت کے ایک درس کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے، یہ بات قابلِ غور ہے کہ ہرے بھرے باغوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
”ولم تظلم منہ شیئاً“
یعنی ۔ پھل دینے میں ان باغوں نے جہانِ انسانیت پر کوئی ظلم نہیں کیا ۔
لیکن اس صاحب باغ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
”و دخل جنتہ وہو ظالم لنفسہ“
وہ اپنے باغ میں داخل ہوا جبکہ وہ اپنے آپ پر ظلم کررہا تھا ۔
قرآن کہنا یہ چاہتا ہے کہ اے انسان! جہاں خلقت پر نگاہ ڈال ، پھلوں سے لدے ان درختوں اور ان ہری بھری کھیتیوں کے پاس جو کچھ ہے خلوص کے طبق میں رکھ کر تجھے پیش کردیتی ہیں ۔ ان میں خود غرضی ہے اور نہ بخل و حسد۔ جہان آفرینش ایثار اور بخشش کا منظر پیش کرتا ہے ۔ جو کچھ زمین کے پاس ہے وہ بڑے ایثار کے ساتھ نباتات اور حیوانات کو پیش کررہی ہے ۔ نباتات اپنی ساری نعمتیں انسان اور دوسرے جانداروں کے سامنے رکھ دیتے ہیں ۔ سورج کی ٹکیہ روز بروز کمزور پڑرہی ہے مگر نور افشانی کیے جارہی ہے ۔ بادل برستے ہیں اور بادِ نسیم کی موجیں چلتی ہیں اور ہر طرف زندگی کی لہریں بکھیر دیتی ہیں ۔ یہ نظام آفرینش ہے ۔
لیکن۔ اے انسان! تو چاہتا ہے کہ تو اس عالم کا گلِ سر سبد بھی ہوا اور اس کے واضح قوانین کو بھی پامال کردے ۔ تیری آرزو ہے کہ تو ساری نعمتیں خود لے لے اور دوسروں کا حق بھی چھین لے ۔

سوره کهف / آیه 45 - 46 ۱۔ دولت کا غرور
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma